10 اگست کو "اقلیتوں کے حقوق" کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ نے بعض نہایت فکر انگیز نکات اٹھائے تھے۔ اُن کا کہنا تھا "سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت میں عمل درآمد کرنا ہوگا۔ یہ ایک لازمی آئینی تقاضا ہے۔ اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن، بگڑ جائے گا۔ انتظامیہ کو سمجھنا ہوگا کہ فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں"۔
خیال تھا کہ جسٹس صاحب کے افکار، بالخصوص تصوّرِ "آئینی توازن" پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہوگا۔ اِس سوال کا جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان کی ستتّر سالہ تاریخ میں، "آئینی توازن" کو غیر متوازن، بلکہ درہم برہم کرنے اور وطنِ عزیز کو مختلف النّوع بحرانوں میں دھکیلنے میں سب سے زیادہ کارگر کردار کس کا رہا؟ انتظامیہ، مقننہ (پارلیمنٹ) کا یا عدلیہ کا؟ اِس بات کو تین ہفتے ہو رہے ہیں لیکن برقی یا طباعتی ذرائع ابلاغ میں بحث و نظر کا کوئی دریچہ نہیں کھُلا۔ ظاہر ہے کہ میڈیا کو اپنے دستر خوان کے لیے عوامی ذوق کے لذیذ و پُرکشش پکوانوں کی طلب ہوتی ہے۔ یہ ضرورت جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کی خبر نے پوری کر دی۔
پاکستان بننے کے بعد پہلا حملہ اپریل 1953 میں انتظامیہ پر ہوا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے والے وزیراعظم، خواجہ ناظم الدین کو کابینہ سمیت معزول کر دیا۔ خواجہ صاحب نے عدلیہ کو کسی آزمائش میں نہ ڈالا۔ چُپکے سے گھر چلے گئے۔ انتظامیہ پر فتح مند حملے کے بعد غلام محمد نے، اکتوبر1954 میں دستور ساز اسمبلی بھی توڑ ڈالی۔ سپیکر مولوی تمیز الدین عدالت چلے گئے۔ سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو خلافِ آئین اور غیرقانونی قرار دے دیا۔ معاملہ فیڈرل کورٹ (اُس وقت کی سپریم کورٹ) پہنچا۔ چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ نے اپیل سُنی۔ چار جج صاحبان، جسٹس محمد منیر، جسٹس ایس ایم اکرم، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس اے رحمان نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔ واحد اختلافی نوٹ جسٹس اے آر کارنیلئس کا تھا۔ یہ ہماری تاریخِ عدل کا پہلا "پروانۂِ آئینی توازن" تھا جو وقت کی سب سے بڑی عدالت نے جاری کیا۔
جسٹس منیر کے تحریر کردہ فیصلے میں"نظریۂِ ضرورت" پر انحصار کیا گیا جس کے بارے میں تیرھویں صدی کے معروف قانون دان ہنری ڈی برکٹن (Henry De Bracton) نے کہا تھا
"Doctrine of Necessity means, that which is otherwise unlawful is made lawful"
"نظریہ ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات جو دراصل غیر قانونی ہے، اُسے قانونی بنا دیا جائے"۔
اچھا ہوا کہ خواجہ ناظم الدین نے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ ورنہ عین ممکن ہے کہ "آئینی توازن" کے حوالے سے عدلیہ کا شہرۂِ آفاق فیصلہ کئی ماہ پہلے ہی آ جاتا۔ ناجائز کو جائز قرار دینے اور ہر آئینی شق کا فولادی قفل کھولنے والی "نظریۂِ ضرورت" نامی طلسمی کلید، پُرکھوں کی مقدس میراث جان کر آنے والے منصفوں نے اپنی زنبیل میں سنبھال کر رکھ لی۔ سو جب ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف نے آئین پر یلغار کی، جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جمایا تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے زنبیل سے یہی طلسمی کلید نکالی، آمروں کے اقدام کو خلعتِ جواز پہنائی، اپنے آئینی حلف سے دستکش ہو کر آئین شکنوں سے عہدِ وفا باندھا اور اپنی بصیرت کے مطابق "آئینی توازن" درست کرکے، اپنی اپنی مسندِ انصاف پرجا بیٹھے۔
رفتہ رفتہ ہماری عدلیہ "آئینی توازن" قائم رکھنے کے فن میں اتنی طاق ہوگئی کہ اُسے "قفل کشائی" کے لیے کسی چابی کی ضرورت ہی نہ رہی۔ معاملہ "قفل شکنی" تک جا پہنچا۔ بات اُس سے بھی آگے بڑھی اور "نظریۂِ ضرورت" کے تحت "نقب زنی" بھی روا ٹھہری۔
آئینِ پاکستان کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان منصب سنبھالتے وقت جو حلف اٹھاتے ہیں، اُس کا ایک مرکزی جملہ ہے "میں ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلارغبت و عناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ " اِس جملے میں"خوف، رعایت، رغبت اور عناد" کلیدی الفاظ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی مارشل لا نافذ ہوا، اُس وقت کے منصف، خوف کا شکار ہو کر، آمروں سے جا ملے۔ اُنہیں ہر وہ "رعایت" دی جو انہوں نے مانگی یا نہ مانگی۔ مارشل لائوں کی حد تک عدلیہ کی مجبوری، قابلِ فہم سہی لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جمہوری ادوار میں بھی، جب عدالتیں"خوف" سے آزاد تھیں ایسے فیصلوں کی بَرکھا پیہم برستی رہی جو آئینی حلف کے منافی تھے۔ کسی سے "رغبت" کا شوخ و شنگ رنگ، جھلکتا ہے اور کسی سے "عناد" کا تعفّن اٹھ رہا ہے۔
ہماری عدالتی تاریخ کے تمام اہم فیصلے کسی کے خوف تلے کیے گئے یا کسی کو رعایت دینے کے لیے، کسی رغبت و محبت میں کیے گئے یا کسی کے بغض و عناد میں۔ یہ تمام فیصلے بے بس و لاچار انتظامیہ نے گردن جھکا کر تسلیم کر لیے۔ "آئینی توازن" کو غیرمتوازن کرنے میں انتظامیہ اور مقننہ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاست کے یہ دونوں ستون، سات دہائیوں سے چاند ماری کے ٹیلے بنے ہوئے ہیں۔ اُن پر جب بھی کسی نے حملہ کیا، عدلیہ اُن کے دفاع کے لیے نہ اٹھی بلکہ حملہ آوروں کا دَست و بازو بن گئی۔
اب "نظریۂِ ضرورت" زمانۂِ قدیم کا متروک ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ کام آئینی شقوں یا قوانین کی تشریح و تعبیر کے نام پر کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ عدلیہ کو یہ اتھارٹی آئین نے دی ہے لیکن کیا یہ اتھارٹی آئین کی باقی تمام شقوں پر حاوی ہے؟ کیا یہ اتھارٹی جج صاحبان کے حلف پر بھی مقدم ہے؟ اور کیا یہ اتھارٹی تمام آئینی و قانونی حدود سے ماوریٰ ایسی لامحدود صوابدید، ہے جس کا انحصار صرف جج صاحبان کی اپنی مرضی و منشا پر ہے؟
12 جولائی کے متنازع فیصلے میں آئین کے ایک اور آرٹیکل 175 سے "نظریۂِ مکمل انصاف" نچوڑا گیا۔ اس تصوّر کو عملی طور پر یہ معنی دئیے گئے کہ اگر جج صاحبان کی نظر میں"مکمل انصاف" کے لیے آئین و قانون کی واضح شقوں سے انحراف بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آنے والے عہد کے منصف بھی "کامل انصاف" کے اسی نظریے پر ایمان لاتے ہوئے، اپنے حلف، آئین اور قانون کے تقاضوں کو لایعنی خیال کرنے لگے تو ریاست کا کیا بنے گا؟
بلاشبہ انتظامیہ کے پاس عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی "چوائس" نہیں لیکن کیا عدلیہ کے پاس یہ "چوائس" ہے کہ وہ آئین و قانون کی دو ٹوک اور واضح شقوں کے ہوتے ہوئے تشریح و تعبیر، نظریۂِ ضرورت یا مکمل انصاف، کے نام پر، مقننہ کا کردار اپنا لے، آئین نویسی اور قانون سازی کا وظیفہ سنبھال لے؟ کیا "آئینی توازن" قائم رکھنے کے تمام تر تقاضے، فیصلہ آ جانے کے بعد شروع ہوتے ہیں یا آئینی توازن کے لیے کچھ آئینی تقاضے ایسے بھی ہیں جن کا احترام فیصلہ کرنے والے جج صاحبان پر بھی لازم ہے؟ اگر فیصلے سے سرتابی کرنے والی انتظامیہ گردن زدنی ہے تو فیصلے سے پہلے آئین و قانون سے کترا کے راہیں تراشنے والے ہر نوع کے محاسبے سے مبرّیٰ کیوں؟
من پسند رنگ کے شیشوں والی عینکیں اتار کے دیکھا جائے تو کسی ابہام کے بغیر ہماری تاریخ دو حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلی حقیقت یہ کہ "آئینی توازن" درہم برہم کرنے میں انتظامیہ اور مقننہ کا کچھ کیا دھرا ہے بھی تو برائے نام۔ دوسری حقیقت یہ کہ "آئینی توازن" اُس وقت تک قائم نہیں ہوگا جب تک جج صاحبان کے حلف کے مطابق "خوف، رعایت، رغبت اور عناد" سے ہر حال میں دور رہنے کا زبانی اقرار، پختہ ایمان بن کر دلوں میں نہیں اترتا اور عمل میں نہیں ڈھلتا۔