نوازشریف کے ساتھ جو ہوا سو ہوا، پاکستان کو تباہی و بربادی کی اس پاتال میں پھینکنے والوں کا گریبان کون پکڑے؟ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ختم کرکے بارہ روپے فی یونٹ بجلی دینے والا تو آج بھی وطن سے باہر بیٹھا واپسی کی ساعتِ سعید کے زائچے بنا رہا ہے اور چھ برس کے دوران بجلی کے نرخ چھپّن روپے یونٹ پہنچا دینے والوں کا نام لینے کے لیے بھی جان کی امان چاہیے۔ کاش ہر شہر، ہر قصبے میں ایک "دیوارِ ملامت" پر پاکستان کو صحرا کا بگولہ بنا دینے والوں کی تصویریں اور نام کندہ ہوتے اور آج آفت رسیدہ عوام بجلی کے بل جلانے کے لیے اپنی اپنی "دیوارِ ملامت" کے سامنے جمع ہوکر بل بھی جلاتے اور نوازشریف کے پردے میں پاکستان کے خلاف مکروہ سازش کرنیوالے اِن کرداروں کی شان میں قصیدے بھی پڑھتے۔
میں شاید آج تیسری بار ایک معتبر غیر ملکی جریدے "دی سنڈے گارڈین" (The Sunday Guardian) کا حوالہ دے رہا ہوں جس نے 6 نومبر 2016 کی اشاعت میں اس حیاباختہ ناٹک کی پوری تفصیل بیان کر دی تھی جو ہوبہو اُسی اندازمیں کھیلا گیا اور محض نواز دشمنی میں ہر زاویے سے آگے بڑھتے پاکستان کو عدمِ استحکام، بے یقینی اور معاشی بدحالی کے بپھرے ہوئے سمندر میں دھکیل گیا۔ "دی سنڈے گارڈین" کی رپورٹ کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے۔
"پاکستان کے حالات پر نگاہ رکھنے والے اہم ممالک کے مبصرین کا کہنا ہے کہ راولپنڈی نے ایک منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس کے تحت وزیراعظم نوازشریف کو وسط 2017 تک اپنے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اِس مرتبہ پرویز مشرف جیسی فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے بجائے یہ کام پاکستان کی سپریم کورٹ سے لیا جائے گا (جو اس کے لیے کچھ ایسا مشکل نہیں)۔ منصوبے کے مطابق سپریم کورٹ، نوازشریف کو کرپشن کا مرتکب ٹھہرا کر فارغ کر دے گی جس کے لیے "پاناما پیپرز" کو بہانہ بنایا جائے گا۔ "
اس رپورٹ کی اشاعت کے 234 دِن بعد، 28 جولائی 2017 کو پاناما کے بہانے پر سپریم کورٹ نے نہ صرف نوازشریف کو فارغ بلکہ عمربھر کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ سب کچھ سکرپٹ کے عین مطابق ہوا۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور بھرپور منصوبہ بندی کا پہلا بڑا مرحلہ تھا۔ تکمیلِ آرزو کے اگلے مرحلہئِ شوق کے لیے آر ٹی ایس کا گلا دبوچ کر، عمران خان کا تختِ طاؤس برآمد کیا گیا۔ اُس دن کئی برس کی اِدارہ جاتی مہم سَر ہونے پر آئی ایس پی آر کے ڈی جی، میجر جنرل آصف غفور نے فاتحانہ بانکپن کے ساتھ ٹویٹ کیا، "وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ" (تُو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے)۔ پیغام یہ دیا گیا کہ نوازشریف "ذلّت" کی پستیوں میں غروب ہو چکا ہے اور عمران خان، عزت و عظمت کے جَلو میں، مینارہئِ نور بن کر طلوع ہو رہا ہے۔ یہ پاکستان کی کم نصیبی کا وہ غارت گر لمحہ تھا جو ماہ و سال پر محیط ہوگیا اور شاید زمانوں تک ہمارا تعاقب کرتا رہے گا۔
نوازشریف سے نجات (28 جولائی 2017) کو اَب چھ برس سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ ہر نوع کی عصبیت اور نفرت و محبت کو ذہن و فکر سے کھرچ کر، خلوت کے کسی بے ریا لمحے میں اپنے آپ سے پوچھیے، "کیا نوازشریف کو سیاست بدر کر دینے کے بعد سے اب تک کے چھ برس میں پاکستان نے کسی ایک بھی شعبے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے یا وہ ہر پہلو سے پَستی کی طرف لُڑھکا ہے اور پیہم لڑھکتا ہی چلا جا رہا ہے؟" کون کہے گا کہ ہاں، آج کا پاکستان، 2017 کے پاکستان سے کہیں اچھا ہے؟
میرے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ نوازشریف کے خلاف سازش کرنے اور کئی برس تک پیشہ ورانہ لگن کے ساتھ اُسے پروان چڑھانے والوں نے ایسا کیوں کیا؟ اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس کھیل کے تمام کرداروں کو اپنے اپنے ذاتی مفادات اور اہداف نے اس سازش کا کل پرزہ بنا دیا تھا جس کے لیے ضروری تھا کہ نوازشریف کو راستے سے ہٹا کر عمران خان کو اقتدارمیں لایا جائے۔ سو بندوق اور ترازو کے باہمی عقدِ مصلحت نے2018 میں یہ مورچہ فتح کر لیا۔ وردی پوش جرنیلوں شجاع پاشا، ظہیرالاسلام، راحیل شریف، عاصم سلیم باجوہ، آصف غفور، فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ، ہر ایک کی آستین میں اپنا اپنا بُت تھا۔
کسی نے اپنی مراد پائی، کوئی نامراد ٹھہرا لیکن اُن کی سازش پاکستان کو ایسی گہری دلدلی کھائی میں پھینک گئی کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری نے اِس کی ہڈیوں کا گُودا تک چاٹ لیا۔ ہر نوع کے بُغض و عناد سے پاک، بے لاگ عدل کے پیغمبرانہ وظیفے کا حلف اٹھانے والے عبا پوشوں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، عظمت سعید شیخ اور ایک عالی مرتبت نگہبان منصف نے نواز دشمنی میں اپنی عاقبت طاق پہ رکھی اور حلف عمران خان کے قدموں میں ڈال دیا۔ یہ سب جہاں بھی ہیں، آسودہ و خوشحال ہیں۔ محاسبہ تو دور کی بات ہے، اُن کا نام نوکِ قلم اور نوکِ زباں پر لاتے ہوئے بھی قلم کپکپا جاتا اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
دس سال قبل، 2013 کے پاکستان کا تصوّر کیجئے۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ، خونخوار عفریت کی طرح پھنکارتی دہشت گردی، جاں بہ لب معیشت، فاٹف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف لڑھکتا پاکستان، جامد سرمایہ کاری، توانائی کے بحران کے باعث مفلوج صنعتیں، گریزپا عالمی مالیاتی ادارے، شُتر غمزے دکھاتا آئی ایم ایف، بھارت کی توہین آمیز اِتراہٹ، بین الاقوامی تنہائی اور ہمہ پہلو بے سمتی۔ یہ تھے وہ حالات جن میں نوازشریف نے 5 جون 2013 کو حلف اٹھایا۔ اُس کی جان کے دَرپے طائفہ شروع سے ہی اس کے سر پر ہتھوڑے برسانے لگا۔
دھرنوں، لانگ مارچوں، دھمکیوں، میڈیا کے ذریعے کردار کُشی، توسیعِ ملازمت کے جرنیلی ہتھکنڈوں، پاناما اور ڈان لیکس جیسے ناٹکوں کے باوجود جب چار سال بعد اُسے نکالا گیا تو پاکستان لوڈشیڈنگ سے نجات پا چکا تھا، نیشنل گرڈ میں پندرہ ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہو چکا تھا، ہر سو پھنکارتی دہشت گردی پر کاری ضرب لگائی جا چکی تھی، معیشت کی شرح نمو 6 فی صد تک جا چکی تھی، سٹاک ایکسچینج 54 ہزار کی حد چھو کر دنیا کے پانچویں نمبر پر آ چکی تھی، پاکستان فاٹف کی سفید کیٹیگری میں آ گیا تھا، 60 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھل گئے تھے، سی پیک کا آغاز ہو چکا تھا، روپے کی قدر مستحکم تھی، ڈالر بے لگام نہ تھا، مہنگائی خطے میں سب سے کم صرف 3 فی صد کی شرح پہ تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہو چکا تھا۔ نوازشریف قومی تفاخر کی ترجمانی کرتے ہوئے اعلان کر چکا تھا کہ "الوداع آئی ایم ایف" اور آئی ایم ایف کہہ چکا تھا "پاکستان اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو آئندہ اُسے ہماری ضرورت نہیں پڑے گی۔ " خودسَر مودی بات کرنے کے بہانے تلاش کر رہا تھا، اور جو بجلی آج چھپّن روپے یونٹ تک پہنچ گئی ہے، وہ بارہ روپے میں اس قوم کو مل رہی تھی۔
آج بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے بنگلہ دیش اور بھارت کی مثال دی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد پندرہ برس سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہی ہے اور مودی گزشتہ نو سال سے اپنے عہدے پر ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ چھ، سات سال میں نوازشریف، شاہد خاقان عباسی، ناصرالملک، عمران خان، شہبازشریف اور انوارالحق کاکڑ، چھ وزرائے اعظم نمودار ہو چکے ہیں۔ کہاں سے آئے گا سیاسی استحکام اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل؟
سو آئیے! بجلی کے بل جلانے اور اپنی سوختہ بختی کا ماتم کرنے، کسی "دیوارِملامت" کا رُخ کریں اور اُن نابکاروں کو بھی یاد کریں جنہوں نے نواز دشمنی میں پاکستان کو کولہو میں پِیل دیا۔