کوئی کچھ بھی کہہ لے، انتخابات کے بعد بھی ہمہ پہلو عدم استحکام اور سیاسی انتشار کی بنیادی وجہ ہماری قومی سیاست میں ایک ایسے آتش مزاج کردار کی نمود ہے جو اپنی عادت، خصلت، جبلّت اور سرشت کے اعتبار سے سیاسی تقاضوں اور قرینوں سے دُور کا تعلق واسطہ بھی نہیں رکھتا۔ نرگسیت (NARCISSISM) ایک موذی مرض ہے جو آکاس بیل کی طرح انسان کی ہر شاخِ فکر و احساس کو چوس لیتا ہے۔
عمران خان ہماری ستتر سالہ قومی تاریخ کا واحد کردار ہیں جو ملکی مفادات سے قطعِ نظر، اپنی ذات کے مدار میں گردش ہی کو معراجِ سیاست سمجھتے ہیں۔ اٹھائیس سالہ سیاسی سفر کے دوران اُن کی آتش بیانی، بارود پاشی، تصادم و پیکار، ہنگامہ و فساد اور انتشار و خلفشار کے لاتعداد مظاہر ملیں گے لیکن خوردبینی آنکھ سے بھی اُن کی نرم گفتاری، کشادہ قلبی، عالی ظرفی، تحمل و برداشت، رواداری اور افہام و تفہیم کی کوئی ادنیٰ سی نظیر بھی نہیں ملے گی۔
اسلامی تعلیمات سے انحراف اور گناہوں کے باوجود کسی کلمہ گو سے "مسلمان" ہونے کا شرف نہیں چھینا جا سکتا نہ اس کے جذبۂِ اسلامی، کی نفی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے قرض کو پاکستان کے انتخابی عمل کی جانچ پڑتال سے مشروط کرانے کی کوشش سے عمران خان کی "حُبّ الوطنی" یا پاکستانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی انہوں نے اٹھائیس سالہ سیاسی زندگی میں حُبّ الوطنی کے تقاضوں کو اپنی سیاست اور ذات سے بالاتر رکھا ہے؟
سیاسی لُغت میں نامطلوب مکروہات کی پیوندکاری، عوامی جلسوں میں حریفوں پر بارشِ الزام و دشنام، معتبر قومی راہنمائوں کو بے ڈھنگے القابات سے نوازنا، نوجوان پود کی رگوں میں بارود بھرنا، سیاسی مخالفین کو چُن چُن کر نشانہ بنانا اور کشتِ سیاست میں نفرت و عداوت کے بیج بونا وہ اقدامات ہیں جن کو سرِدست ایک طرف رکھ دیتے ہیں لیکن کیا واقعی آئی ایم ایف کے حضور تازہ عرضی گذارنے سے قبل خان صاحب نے کبھی اس نوع کا کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ کیا تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سُن کر انہوں نے جان بوجھ کر آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کو پامال کرکے آنے والی حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا نہیں کر دی تھیں؟
اگست 2022 میں خان صاحب ہی کی ہدایت پر سینیٹر شوکت ترین نے خیبر پختون خوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ سے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر اپنی طرف سے بریت کا اظہار کر دیں تا کہ متوقع پروگرام کا راستہ روکا جا سکے۔ خان صاحب ہی کے حکم پر فواد چوہدری نے دو ٹوک بیان دیا تھا کہ اگر آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دیا تو خیبر پختون خوا اور پنجاب ذمہ داری نہیں لیں گے۔ محض اپنی سیاست کے لیے قومی سلامتی سے متعلق ایک حساس خفیہ دستاویز سے کھیلنا قومی مفاد کے کس گوشۂِ خاص میں سجایا جائے؟ 2014 کے چار ماہی دھرنے کے دوران انہوں نے جان بوجھ کر صرف اس لیے چینی صدر کے دورۂِ پاکستان کو سبوتاژ کیا کہ بھاری چینی سرمایہ کاری سے نواز حکومت کو تقویت نہ ملے۔
انہی دھرنوں میں عوام کو ٹیکس نہ دینے اور سول نافرمانی کی تلقین کی گئی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے کہا گیا کہ وہ ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجیں تا کہ پاکستان زرمبادلہ کے قحط کا شکار ہو جائے۔ ان کے وزرا کے بے ڈھنگے بیانات نے سی پیک منصوبے کو شدید نقصان پہنچایا اور پائلٹس کے بارے میں ایک احمقانہ بیان کے سبب پی آئی اے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ "صدمۂِ جاریہ" جانے کب تک چلے گا۔
حالیہ انتخابات نے ان کے سامنے، تُند خوئی اور تلوار زنی کے بجائے حکمت و دانش اور مصلحت کیش گریز پائی کی کئی راہیں کھول دی تھیں۔ اُن کے چاہنے والوں نے اُنہیں مالا مال کر دیا تھا۔ افسوس کہ یہ توشہ خانہ بھی انہوں نے کوڑیوں کے مول لٹا دیا۔ نتائج کی برکھا برس رہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ نہ ملانے کا اعلان کرکے اپنے ارکان کی بھاری بھرکم تعداد کو بے وزن کر دیا۔ اس اعلان سے اُن کے دونوں بڑے حریف ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔ یکایک سیاسی تنہائی کا احساس ہوا تو جمعیت العلمائے اسلام، جماعت اسلامی، وحدت المسلمین غرض ہر اُس کوچۂِ رقیب میں سر کے بل پہنچے جہاں سے اپنی بے چہرگی کو کوئی نام پانے کی ذرا سی بھی توقع ہوئی۔
بالآخر اَسّی کے لگ بھگ ارکان کا دریا، یک رُکنی سُنّی اتحاد کونسل کی جُوئے کم آب میں ضم ہو کر معدوم ہوگیا۔ اب قومی اسمبلی میں تحریک انصاف، کی شناخت رکھنے والا کوئی رُکن نہیں ہوگا۔ اسے پَرلے درجے کی بے ہُنری ہی کہا جا سکتا ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی میں پچپن نئے چہرے آئے ہیں۔ ان میں کئی ایک معتدل، متوازن اور متحمل بھی ہوں گے۔ لیکن خان صاحب کی نگاۂِ انتخاب علی امین گنڈا پور ہی پر جا ٹِکی جنہوں نے ابھی تک حلف بھی نہیں اٹھایا لیکن اعلان کیا ہے کہ "فضل الرحمن پاگل ہوگیا ہے۔ میں آتے ہی اُسے پاگل خانے میں ڈالوں گا۔ " نرگسیت زدہ لیڈر کی خُوئے پیکار بدستور پھَن پھیلائے کھڑی ہے اور پارلیمنٹ کے ایوان کو اوجڑی کیمپ بنانا منتہائے مقصود ٹھہرا ہے۔
اُدھر دھاندلی کے الزامات کا کوہ ہمالیہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ 2013 کے 35 پنکچر اَب فارم 45 میں ڈھل چکے ہیں۔ پنڈی کمشنر کو گیارہ برس قبل کا افضل خان بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ تب بیلٹ پیپر کسی اردو بازار میں چھپ رہے تھے اب یہ کام لکشمی چوک کے کسی چھاپہ خانے میں ہو رہا ہے۔ جھوٹ کا طومار ہے اور الزامات کا انبار۔ کوئی حقیقت کی کرید پر آمادہ نہیں۔ انتخابات سے ایک ماہ قبل معتبر ادارے "گیلپ پاکستان" کا ایک سروے تمام اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ اس سروے کے مطابق پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کی شرح 34 فی صد تھی۔ 8 فروری کو اُسے 35 فی صد ووٹ ملے۔ مسلم لیگ (ن) کی شرح 32 فی صد تھی۔ اُسے 34 فی صد ووٹ ملے۔
پیپلزپارٹی کے بارے میں 6 فی صد کی پیش بینی کی گئی تھی۔ اُسے 6 فی صد ووٹ ہی ملے۔ خیبر پختون خوا کے حوالے سے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو 45 فی صد ووٹ مل سکتے ہیں۔ اُسے 44 فی صد ملے۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ 9 فی صد لے پائے گی۔ اُسے 9 فی صد ہی ملے۔ جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں 15 فی صد کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ اُسے 15 فی صد ہی ملے۔ ان ٹھوس حقائق کے باوجود ہاہا کار ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہی۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے 80 حلقے چھین لیے گئے۔ لیکن الیکشن کمشن میں قومی اسمبلی کے صرف بائیس حلقے چیلنج کیے گئے ہیں جن میں سے دس کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ پنجاب کے صرف سات حلقوں پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پتھر کو جونک نہیں لگائی جا سکتی۔ جو شخص آرمی چیف کی تقرری کو گلیوں، چوراہوں کا موضوع بنا سکتا، اس کا راستہ روکنے کے لیے اسلام آباد پر یلغار کر سکتا، اس کا تختہ الٹنے کے لیے فوج میں دراڑیں ڈالنے کی سازش کر سکتا، مذموم سیاسی مقاصد کے لیے دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا اور شہداء کی مقدس یادگاروں کو تاراج کر سکتا ہے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
جو لابنگ فرمز خرید کر اُنہیں پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کے لیے کروڑوں ڈالر لٹا سکتا ہے اور جو پاکستان کو انسانی حقوق کی قتل گاہ باور کرانے کے لیے دنیا بھر میں، بھارتی سفارت کاروں کے پہلو بہ پہلو متحرک ہو سکتا ہے اُس سے قومی سیاست کا مہذب کردار بننے کی توقع ریگزاروں میں لالہ و گل کھلانے کی سعیِٔ رائیگاں کے سوا کچھ نہیں۔