Afghan Baqi, Kohsar Baqi (1)
Irshad Ahmad Arif92 News758
افغانستان سے فوجی انخلا کی جلدی امریکہ کو ہے طالبان کو نہیں۔ باعزت اور محفوظ واپسی امریکی خواہش ہے، افغانوں کی نہیں۔ امریکہ، طالبان مذاکرات اسی ایک نقطے پر مرکوز ہیں۔ 11ستمبر 2001ء سے شروع ہونے والی افغان جنگ لاکھوں انسانی جانوں کا تاوان وصول کر کے اختتامی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ بجا، طالبان نمائندں کا حوالہ سر آنکھوں پر اور زلمی خلیل زاد اور اشرف غنی کی ڈینگیں اپنی جگہ، زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا۔ افغان عوام کی سرفروشانہ جدوجہد رنگ لا رہی ہے اور امریکی صدر ٹرمپ اپنے پیشروئوں کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے بے تاب ہے۔ موصوف کے بارے میں پینٹگان، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ حتیٰ کہ وائٹ ہائوس کی رائے جو بھی ہو مگر وہ اول و آخر کاروباری آدمی ہے، جو نفع و نقصان کے حوالے سے سوچتا اور نقد پر یقین رکھتا ہے۔ وزارت داخلہ، خارجہ، دفاع اور خزانہ کے نمائندے امریکی صدر کو آج تک اس سوال کا جواب فراہم نہیں کرسکے کہ ڈیڑھ ٹریلین ڈالر خرچ کر کے ہم نے افغانستان سے کیا سیاسی، سفارتی، دفاعی اور معاشی فوائد سمیٹے۔ ٹرمپ کے سفید فام ووٹرز اور سپورٹرز کو ملازمتیں درکار ہیں، جدید دور کی مادی سہولتیں اور پرامن و پرتعیش زندگی مگر امریکہ کے جنگ جو سیاستدان اور دفاعی ماہرین وسائل کا خاصہ حصہ ایک ایسی جنگ میں جھونکتے چلے آ رہے ہیں جس کا نتیجہ صفر ہے اور نقصان معلوم۔ سترہ اٹھارہ سال قبل افغانستان میں امریکی مداخلت پر جب سوال اٹھا کہ کیا دنیا کی بزعم خویش اور سپر پاور بھی برطانیہ اور سوویت یونین کی طرح سپر پاور کے اس قبرستان میں پسپائی اور رسوائی سے دوچار ہو گی یا وہ پہلی بار نئی تاریخ مرتب کرے گی تو علم و دانش کے قطب مینار اور سیاسی، سفارتی اور دفاعی امور کے کوہ ہمالیہ ہمیں یہی بتلایا کرتے تھے امریکہ برطانیہ ہے نہ سوویت یونین۔ طالبان کو تو روشن خیال افغان عوام کی حمایت بھی حاصل نہیں جبکہ غاروں میں رہنے والے یہ جنگجو ڈیزی کٹر بموں، بی 52بمبار جنگی جہازوں، میزائلوں اور جدید ٹیکنالوجی کا مقابلہ کر سکتے ہیں نہ انہیں اردگرد کے کسی ملک میں جائے پناہ ملے گی کہ تمام مسلم و غیر مسلم ممالک اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی ہیں اور جنگجو عناصر کی نجی گفتگو تک ڈیگو گارشیا کے امریکی سنٹر میں صاف سنی اور ریکارڈ کی جاتی ہے۔ امریکہ کے پاس بھوسے میں پڑی سوئی کا سراغ لگانے والی ٹیکنالوجی ہے اور غاروں میں موجود ہدف کا تعین کر کے نشانہ بنانے والی جنگی مشینری۔ اس موقع پر جو لوگ علامہ اقبال کا سہارا لیتے کہ عمومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہیان کا مذاق اڑایا جاتا انہیں بنیاد پرست، توہم پرست اور خواب فروش قرار دیا جاتا۔ غیرت بریگیڈ کی اصطلاح وضع ہوئی اور اپنی بے غیرتی پر فخر کرنے والے دانشوروں کی طرف سے پاکستانیوں کو یہ طعنہ بھی سننے کو ملا کہ اقبالؒ اور نسیم حجازی کی فکر نے ایک نسل تباہ کر دی اور اب بچائو کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ امریکہ کی عسکری و تکنیکی قوت و صلاحیت کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں جمہوریت پسند، ترقی پسند اور روشن خیال ہر قسم کی مخلوق شامل تھی۔ اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا میں اقبال کے ان اشعار کو بطور خاص ہدف تنقید بنایا جاتا۔ ؎دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیشتہذیب نے پھر اپنے درندوں کو پکارااللہ کو پامردی مومن پہ بھروساابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہاراشیطان بزرگ کی مجلس شوریٰ کے عملیت پسند اور مادہ پرست ارکان کا خیال تھا کہ چند ہفتوں نہ سہی مہینوں میں امریکہ افغانستان میں فتح کے پھریرے لہراتا جب فاتحانہ واپسی کی راہ لے گا تو پاکستان، ایران اور دیگر مسلم ممالک میں ان کے بھائی بندوں کی حکمرانی ہو گی اور حجرہ شاہ مقیم کی جٹی کے مرزا یار کی طرح وہ سنجیاں ہو جانے والی گلیوں میں بے روک ٹوک خرمستیاں کرتے پھریں گے۔ سترہ اٹھارہ سال بعد مگر صورتحال یہ ہے کہ امریکہ غیرت مند پختونوں سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ایک سال قبل پاکستان کو دھمکیاں دینے والا ٹرمپ پاکستان کے کردار اور ایجنڈے کی تحسین کر رہا ہے اور زلمی خلیل زاد جیسا طالبان و پاکستان دشمن افغان عوام کو مذاکرات کی کامیابی کی نوید سنا رہا ہے۔ مذاکرات میں واقعی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ طالبان نے اپنا کہا سچ کر دکھایا ہے کہ گھڑی امریکیوں کے پاس ہے مگر وقت ہمارے ہاتھ میں، وہ وقت ضرور آئے گا جب امریکی گھڑی کی سوئیاں ہمارے اشارہ ابرو پر حرکت کریں گی۔ پاکستان کمزور، نااہل اور خوفزدہ قیادت سے چھٹکارا پانے کے بعد اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان کو ایک میز پر بٹھا کر قیام امن کے کسی بامقصد اور قابل عمل فارمولے کی راہ ہموار کر سکے۔ قطر میں مذاکرات کا ایجنڈا واضح تھا اور امریکی خواہش کے مطابق طالبان سیز فائر کے لئے تیار نظر آتے ہیں امریکہ نے ابتدائی مرحلے میں کارنیگی انسٹی ٹیوٹ کے پیش کردہ فارمولے پر اصرار کیا یعنی طالبان کی طرف سے سیز فائر اور اٹھارہ ماہ میں فوجی انخلا مگرطالبان اس پر راضی نہیں۔ اشرف غنی حکومت کو وہ کٹھ پتلی اور بے اختیار سمجھتے ہیں جو امریکی انخلا کے بعد چند دن بھی عافیت سے گزار نہیں سکتی۔ جبکہ امریکیوں کا اصرار ہے کہ طالبان اشرف غنی حکومت سے بھی مذاکرات کریں۔ میری معلومات کے مطابق ٹھوس یقین دہانیوں کے بعد طالبان اور جرگہ، عبوری حکومت اور نئے آئین کی تشکیل کے معاملے پر اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کریں گے مگر اس کا حصہ ہرگز نہیں بنیں گے کیونکہ اشرف غنی حکومت افغان عوام کی نہ سہی، طالبان مخالف قوتوں کی نمائندہ ہے اور اسے شمالی اتحاد، دوستم گروپ اور حکمت یار کی حمایت حاصل ہے، خانہ جنگی سے بچنے کے لئے طالبان اور اشرف غنی کے تمام اتحادیوں کا ایک میز پر بیٹھنا ضروری ہے تاکہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان کو حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے ہاتھوں جو زخم سہنے پڑے ان کا اعادہ نہ ہو۔ طالبان کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ بلا شرکت غیرے کابل پر قبضے اور مطلق العنان حکومت کے قیام کی خواہش 2019ء میں قابل عمل ہے نہ افغان عوام کے مفاد میں۔ پہلی طالبان حکومت کو تو پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ امارات نے تسلیم کر لیا تھا اب یہ بھی نہیں ہو گا اور ایک لینڈ لاکڈ ریاست سفارتی تنہائی کا شکار ہو کر کس طرح چل پائے گی یہ طالبان قیادت کو سوچنا چاہیے۔ چند کمانڈروں کے سوا باقی قائدین ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ چکے ہیں اور وہ ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں جو افغانستان ہی نہیں علاقے کو امن فراہم کر سکے اور عوام کو ترقی و خوشحالی، آزادی و خود مختاری کے مواقع۔ امن، ترقی اور خوشحالی افغانی عوام کا حق ہے اور یہ جنگ بندی سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ صدر ٹرمپ کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ افغان جنگ بالآخر اس کی عالمی بالادستی کے لئے خطرہ بن سکتی ہے اور وہ اپنے دشمنوں چین اور روس کی اقتصادی و معاشی پیش رفت کا راستہ افغان جنگ جاری رکھ کر نہیں رو ک سکتے۔ افغان طالبان کو بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ بے مثل قربانیوں کے بل بوتے پر امریکہ کو برطانیہ اور سوویت یونین کے انجام سے دوچار کر سکتے ہیں مگر افغانستان میں امن، ترقی، خوشحالی اور سیاسی استحکام کی منزل بھی حاصل کریں گے۔ جب فتح مکّہ کے بعد رسول رحمت ﷺ کے فرمان عالیشان کو حرز جاں بنائیں گے لا تثریب علیکم الیوم۔ بصیرت میں برکت اسوہ رسول ﷺ پر عمل سے مشروط ہے۔ یورپ کی مشینوں کے مقابلے میں پامردی مومن کامران رہی۔ ثمر بار اور پائیدار کامرانی کے لئے مومنانہ فراست درکار ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے خاک چاٹی، بھارت کو کردار بڑھانے کے شوق میں رسوائی کا سامنا ہے اور امریکی کٹھ پتلیاں اپنے زخم سہلا رہی ہیں۔ افغان باقی کہسار باقی الحکم للہ، الملک للہ