Aik Qadam Aage
Irshad Ahmad Arif92 News898
دیر آید درست آید۔ سپریم کورٹ نے قوم کو مایوس کیا نہ درخواست گزاروں کی بات ٹالی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کے فیصلے پر ہر وہ شخص پریشان دکھائی دیا جو کرپٹ، ٹیکس چور، قرض خور، نادہندہ اور اخلاقی جرائم میں ملوث ہے یا پھر اس قبیلے کا وظیفہ خوار و حاشیہ بردار۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ 2013ء میں متعارف کرائے گئے نامزدگی فارم جامع تھے تو بہت سے نوسر باز اور جرائم پیشہ افراد اسمبلیوں میں کیسے پہنچ گئے؟ جواب سادہ ہے کہ نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو، چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور ریٹرننگ افسروں میں سے کوئی اسمبلیوں کو عادی مجرموں اور لٹیروں سے پاک کرنے میں سنجیدہ نہ تھا، ایک وجہ اور بھی تھی کہ امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو این آر او کرایا تھا اس کے تحت باری مقرر تھی۔ حقیقی احتساب کی گنجائش اور اجازت نہ تھی اور ریٹرننگ افسروں کے پاس کارروائی کا اختیار نہ تھا۔ اس کے باوجود 2013ء سے 2017ء کے دوران درجنوں ارکان اسمبلی انہی گوشواروں اور کوائف کی بنا پر نااہل قرار پائے۔ نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ آصف کے علاوہ کئی دیگر اہم سیاستدانوں کی نااہلی کے بعد ہی خوفزدہ سیاستدانوں نے انتخابی ایکٹ 2017ء کے تحت ان تفصیلات کو نامزدگی فارم سے خارج کیا جس میں کوئی امیدوار اور منتخب نمائندہ آئین کے آرٹیکل 62/63کی زد میں آ کر نااہل ہو سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے ایک طرف تو جسٹس عائشہ اے ملک کے فیصلے کی روح برقرار رہی، جو لوگ الیکشن کے التوا کا پروپیگنڈہ کر کے اپنی واردات کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے تھے انہیں ہزیمت اٹھانا پڑی، دوسری طرف بیان حلفی کی شرط سے اب اُمیدواروں کی غلط بیانی کی صورت میں کارروائی آسان ہو گی اور یہ دوہری سزا کے مستحق ہوں گے۔ تازہ فیصلے سے اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سنگین اور لاینحل نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کا وقت ضائع کیا جاتا اور الیکشن کے التوا کا شور مچتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس اخبار نویس نے اپنے گزشتہ کالم (5جون) میں سپریم کورٹ کو جو تجویز پیش کی، وہ بیان حلفی کی صورت میں منظور ہوئی اگر جانچ پڑتال کے لیے مناسب وقت ملا تو بہت سے چور اُچکے اور نوسر باز ابتدائی مراحل میں انتخابی عمل سے خارج ہو جائیں گے۔ اگر اتوار کے روز عدالت عظمیٰ انتخابی فارم چھاپنے کا حکم دے دیتی تو پھر بھی یہ کام دو دن میں مکمل ہوتا لیکن عدالت عظمیٰ نے درخواست گزاروں کی بات مانی اور پھر جسٹس عائشہ اے ملک کے فیصلے کے علاوہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بحث کے دوران سامنے آنے والے دلائل اور عوامی جذبات و احساسات کی روشنی میں بیان حلفی کی پابندی لگا دی بہتری کے خواہش مندوں کی ریاضت اور آہ و زاری رائیگاں نہ گئی۔ فارسی میں کہتے ہیں عددشرے برانگیز و کہ خیرمادرآں باشد۔ سپیکر ایاز صادق کا شکریہ کہ انہوں نے بیان حلفی کی راہ ہموار کی۔ اب عادی مجرم نااہلی کے ساتھ جعلسازی اور توہین عدالت کی سزا بھی بھگتیں گے۔ الیکشن کے التواء کا شور مچا کر "شرمناک اور نام نہاد جمہوریت" کے علمبرداروں نے اپنے جرائم پردہ ڈالنے کی جو سعی کی وہ اس فیصلے سے سعی ناکامی میں بدلی گئی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اب یہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹیں گے یا میاں نواز شریف کے فوج و عدلیہ مخالف بیانئے سے متنفر الیکٹ ایبلز کی ایک جماعت سے دوسری جماعت کی طرف مراجعت کو پری پول دھاندلی کا نام دیں گے، مگر عوام کی عدالت میں ان کی دال گلنے والی نہیں۔ حیرت ان لوگوں پر ہے جو پنجاب میں پچھلے پینتیس سال کے دوران آئین، قانون، قواعد و ضوابط، اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر قومی وسائل لوٹتے اور اپنے عزیز و اقارب، خوشامدی حاشیہ نشینوں اور درباریوں میں بانٹتے رہے۔ 2007ء تک سرپلس بجٹ کے حامل صوبے کو بدترین خسارے کا شکار کیا، پانچ سالہ وفاقی اقتدار میں ملک کو مقروض اورگیارہ سو ارب سرکلر ڈیٹ سے دوچار کیا اور ایسے ایسوں کو وفاقی اداروں کی سربراہی سونپی کہ الامان والحفیظ، مگر اب مطالبہ یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ ان کی مرضی کا اور ان کے زرخرید بونوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ 2013ء کی طرح جو صرف پروٹوکول کے مزے لے اور شریف خاندان کی وفادار بیوروکریسی کو انتخابات میں جھرلو پھیرنے کی آزادی ہو۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے حامی نہیں گویا غیر جانبداری کی ایک شرط مسلم لیگ کی حمائت اور شریف خاندان سے وفاداری بھی ہے۔ ایسا شخص جو نیک نام، علم و حلم کا پیکر، صاحب بصیرت اور متوازن ذہن کا مالک ہے ان کے نزدیک متعصب اورجانبدار ہے۔ غلام حیدر وائیں، اعجاز نثار اور نجم سیٹھی جیسے غیر جانبدار اب کہاں سے ڈھونڈیں۔ پنجاب ریت کی طرح مسلم لیگ کی مٹھی سے پھسل رہا ہے اور مسلم لیگ (ن) انتخابی شکست کو یقینی سمجھ کر منفی پروپیگنڈے، الزام تراشی اور مخالفین کے علاوہ فوج، عدلیہ اور دیگر قومی اداروں کی کردار کشی سے انتخابات کی ساکھ مجروح کرنے کے درپے ہے، تازہ ہدف الیکشن کمشن ہے جس کے تمام ارکان میاں نواز شریف اور آصف زرداری، خورشید شاہ کے اتفاق رائے سے منتخب ہوئے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مسلم لیگ (ن) ہی نہیں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو اب سوچ سمجھ کر انتخابی میدان میں قدم رکھنا ہو گا اگر ریٹرننگ افسروں نے امیدواروں سے دعائے قنوت اور سورہ فاتحہ سننے کے بجائے 62/63کے حقیقی تقاضوں کے مطابق ان کے کوائف کی جانچ پڑتال کی، سابقہ ریکارڈدیکھا اور نیب، ایف بی آر، نادرا، سٹیٹ بنک اور دیگر اداروں نے ڈنڈی نہ ماری، امیدواروں کا سارا کچا چھٹا کھول کر ریٹرننگ افسروں کے سامنے رکھ دیا تو بہت سے امیدوار ویسے ہی اکھاڑے سے نکل جائیں گے خاص طور پر وہ جو گزشتہ تیس پینتیس سال میں قومی وسائل کو شیر مادر کی طرح ہضم کرتے رہے اور جن کے دل و دماغ پر کبھی خوف خدا نے دستک دی نہ شرم و حیا نے چھوا۔ یہ امید تو نہیں کہ اس بار بلا امتیاز احتساب اور شفاف الیکشن کے نتیجے میں فرشتوں پر مشتمل پارلیمنٹ اور اہل، دیانت دار، عوام دوست اور دور اندیش حکومت قائم ہو گی اور ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی لیکن اتنا ضرور ہے کہ ریاست اور معاشرے کا قبلہ درست اور بہتری کی طرف آغاز سفر ضرور ہو گا۔ یہ محض خواہش نہیں حالات کا جبر ہے۔ پاکستان اور کرپشن اب ایک ساتھ چل سکتے ہیں نہ نااہلی و اقربا پروری اور ریاست کا طویل عرصہ تک ملاپ قومی مفاد میں ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اور پاکستان میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں کی سرگرمیاں قومی اداروں کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ اب مصلحت پسندی کا شکار ہوں نہ کوئی اندرونی اور بیرونی دبائو قبول کریں۔ پاکستان دشمنوں اور ان کے اندرونی گماشتوں نے 1971ء کے حالات پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا اور سیاسی و جمہوری محاذ پر بدنام کرنے کے لیے منفی پروپیگنڈے کا طوفان ہے اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری جس کا ایک مظہراین جی او مافیا اور آزادی اظہار کی آڑ میں پاکستان بیزار عناصر کی اوچھل کود ہے۔ عائشہ اے ملک کے فیصلے کی سب سے زیادہ تکلیف اس مافیا کو ہوئی اور فوجی ترجمان نے سوشل مافیا پر سرگرم فوج و مخالف عناصر کی نشاندہی کی تو یہ شرمندہ ہونے کے بجائے آزادی اظہار کی آڑ میں ڈھٹائی پر اُتر آئے۔ کیا آزاد میڈیا سے تعلق فوج اور عدلیہ دشمنی کا جواز ہے؟ یا آئین میں درج پابندیوں سے انحراف جمہوریت کا تقاضہ ہے؟ ۔ مادر پدر آزادی کا تصور کسی مہذب معاشرے میں نہیں اور آئین و قانون سے کھلواڑ سے جمہوریت کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ ملک آئین، قانون، ضابطے اور قومی اقدار و روایات کے تحت چلتا ہے اور چلنا چاہیے کسی بھی فرد کو یہ حق ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد اور ذاتی خواہشات کے تحت معاشرے اور ریاست کی بنیادوں پر حملہ آور ہو اور اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے آئین و قانون کو بدلنے پر تُل جائے۔ پارلیمنٹ نے چند افراد اور ایک گروہ کی خاطر اپنی حدود سے تجاوز کیا عدلیہ نے راستہ روک دیا، جو لوگ آزادی اظہار کی آڑ میں غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں ان کا راستہ روکنا ریاستی اداروں کا فرض ہے اور کوتاہی بدترین جرم۔ ہر ایک کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔