Awam Dushman Faisla
Irshad Ahmad Arif92 News867
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ عوام دشمن فیصلہ ہے اور حکومت کی ڈرگ مافیا کے سامنے پسپائی۔ شرمناک پسپائی۔ جلد بازی ہمارا قومی شیوہ ہے اور بے صبری مزاج کا حصہ۔ کچھ توقعات حکمرانوں نے خود بڑھائیں، باقی کسر میڈیا نے پوری کر دی۔ عمران خان کی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی چار ماہ پورے نہیں ہوئے، تاثر مگر یہ ہے کہ چار سال گزر چکے، عمران خان نے یہ بھی نہیں کیا، وہ بھی نہیں کیا اور باقی ماندہ مدت میں شائد کچھ کر بھی نہ پائیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی شکوہ بلکہ سینہ کوبی کرے تو حق بجانب ہے کہ اقتدار ان سے چھن گیا، احتساب دونوں کا مقدر ہے اور سیاسی مستقبل خاصہ مخدوش۔ ایک کو وفاق میں تین اور دوسری کو چار جبکہ پنجاب اور سندھ میں دونوں کو چھ چھ باریاں ملیں ان کی حسرت اقتدار ابھی باقی ہے عشروں پر محیط حکمرانی میں دونوں نے جو گل کھلائے اس کا خمیازہ قوم اور موجود حکومت بھگت رہی ہے مگر اصرار دونوں کو ہے کہ ان کے تیس چالیس سالہ عرصہ اقتدار کا حساب بھی تحریک انصاف دے اور چار ماہ میں دودھ شہد کی نہریں نہیں بہا سکی تو بیک بینی و دوگوش ایوان اقتدار سے نکلے اور انہی عطار کے لونڈوں کو موقع دے جن کے سبب قوم بیمار ہوئی اور معیشت مفلوج۔ بے صبری میں عوام بھی سابقہ حکمرانوں سے پیچھے نہیں وہ بھی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کو بے چین ہیں اور میڈیا عوام کی ناآسودہ خواہشات کو بڑھانے میں پیش پیش۔ حکومت خود بھی مگر مخالفین کے لئے آسانیاں اور اپنے ووٹرز، سپورٹرز اور خیر خواہوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی یہ بات تو قابل فہم ہے کہ چار ماہ میں مقروض، بے روزگار اور فاقہ کش خاندان کی حالت بہتر بنانا ممکن نہیں، اور پانچ مرلے کا گھر تعمیر کرنے میں بھی آٹھ دس ماہ لگ جاتے ہیں جبکہ مخالفین ہی نہیں میڈیا کے بزرجمہر اور عجلت پسند عوام کپتان سے چار ماہ میں چالیس پچاس سال کی خرابیوں، خرمستیوں اور بے اعتدالیوں پر قابو پانے، بیس کروڑ آبادی کے ملک کو سدھارنے بلکہ ازسرنو تعمیر کرنے اور چپڑیاں اور دو دو کھلانے کی فرمائش کر رہے ہیں جو نرم سے نرم الفاظ میں زیادتی ہے لیکن یہ توقع کسی کو بھی نہیں تھی کہ عمران خان ٹیم کے انتخاب میں کسی مصلحت کا شکار ہوں گے اور وہ کام بھی نہیں کر پائیں گے جو ان کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مثلاً مختلف مافیاز کوقابو کرنا اور عوام کو ان شعبوں میں ریلیف دینا جہاں بھاری بجٹ کی ضرورت ہے نہ غیر معمولی محنت و ریاضت کی۔ گزشتہ روز فارما سیوٹیکل انڈسٹری کے دبائو پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے مختلف ادویاتکی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ اضافے کی وجہ ڈالر کی قدر میں اضافہ قرار دیا گیا۔ لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ ڈریپ ادویہ ساز اداروں کی بلیک میلنگ کے سامنے سرنگوں ہوئی اور حکومت نے یہ سوچے بغیر اضافے کی اجازت دیدی کہ اس سے غریب عوام متاثر ہوں گے اور سرکاری ہسپتالوں کے بجٹ پر منفی اثر پڑے گا۔ اگر ڈالر کی قدر میں اضافہ مہنگائی کا جواز ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باجود ٹرانسپورٹ کے کرائے کم نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ وزیر اعظم کی ہدایات کے باوجود کہ غریب اور دیہاڑی داروں کو تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران تنگ نہ کیا جائے اور متبادل جگہ فراہم کئے بغیر کسی کو بے گھر اور بے روزگار نہ کیا جائے، تجاوزات کے خاتمے کی مہم جاری ہے اور خوانچہ فروشوں اور ریڑھی بانوں کی کم بختی آئی ہوئی ہے۔ لاہور کی اقبال ٹائون سبزی منڈی میں گزشتہ روز ایک غریب ریڑھی بان عملے کے تشدد سے جاں بحق ہو گیا۔ غریب اہل خانہ روکھی سوکھی سے بھی محروم ہو گئے۔ ظاہر ہے حکومت بری الذمہ نہیں۔ ڈریپ کے سربراہ اختر حسین شیخ وہی ذات شریف جن کے بارے میں خبریں تسلسل سے چھپتی رہی ہیں کہ نیب کو مطلوب تھے تو اپنے انتقال کا سرٹیفکیٹ جمع کرا کے پانچ کروڑ روپے کرپشن کے مبینہ سکینڈل سے چھٹکارا پایا اور حکومت کی تبدیلی کے بعد دسمبر 2018ء میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ انگریزی اخبار نے قارئین کو یہ اطلاع فراہم کی تھی کہ نومبر 2017ء میں نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے موصوف کے خلاف تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیب کی تحقیقات کا تو کوئی نتیجہ شائد نہیں نکلا اورعوام کو مہنگی ادویات کا تحفہ دے کر اختر حسین شیخ کی سربراہی میں ڈریپ نے فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے من کی مراد پوری کر دی ہے۔ پاکستان میں ادویات خطے کے تمام ممالک سے زیادہ مہنگی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ہر حکومت، ماہرین طب اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی ملی بھگت ہے۔ کئی ادویات جو پاکستان میں بن سکتی ہیں بلکہ بنتی ہیں مگر محکمہ صحت میں بیٹھے غیر ملکی کمپنیوں کے زرخرید آلہ کار رجسٹرڈ نہیں ہونے دیتے۔ ہیپا ٹائٹس سی کی غیر ملکی دوائی مہنگی ہے اس کے باوجود دس گنا کم قیمت پرساختہ پاکستانی انجکشن فروخت کرنے کی اجازت نہیں، یہی حال دوسری درجنوں ادویات کا ہے۔ بھارت میں غیر ملکی ادویہ ساز کمپنیوں کو اس شرط پر کام کرنے کی اجازت ہے کہ وہ کسی مقامی کمپنی کے ساتھ مل کر پانچ سال کے لئے کام اور بھارتی خام مال استعمال کرنے کی پابند ہیں۔ پاکستان میں یہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو غیر ملکی دوروں، بچوں کی بیرون ملک تعلیم اور دیگر سہولتوں کی صورت میں رشوت، حکومت اور وفاقی و صوبائی محکمہ صحت کے فیصلہ سازوں کو حصہ رسدی دے کر من مانی قیمتوں پر ادویات فروخت کرتی ہیں۔ جب چاہیں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتیں بڑھاتی اور غریب شہریوں کی زندگی کے لئے خطرہ بنتی ہیں، مگر مجال ہے کہ کسی حکومت نے ان کی من مانی روکنے، ناجائز منافع میں کمی اور رشوت و بدعنوانی کے دیگر راستوں کو مسدودکرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہو، مقامی ادویہ ساز کمپنیوں سے دیگر قسم کی شکایات ہیں۔ معیار پر سمجھوتہ اور ناجائز منافع خوری ان کی عادت ہے، جس کا خمیازہ غریب عوام بھگت رہے ہیں، جو سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں مگر یہاں ادویات دستیاب ہیں نہ ڈاکٹروں کو نجی کلینکس سے فرصت کہ وہ ان پر توجہ دے سکیں۔ عمران خان مافیاز سے نمٹنے کا دعویٰ کر کے اقتدار میں آئے۔ سیاسی مافیاز کو اس نے نکیل بھی ڈالی اور ان کی چیخیں آسمان تک بلند ہو رہی ہیں مگر کپتان کے ناقص اور مفاد پرست ساتھیوں نے آہستہ آہستہ مافیاز سے گٹھ جوڑ شروع کر دیا ہے، ورنہ ڈریپ اور وزیر صحت عامر محمود کیانی کو اتنی جلد ادویہ ساز کمپنیوں کے سامنے سپر انداز ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے منافع میں معمولی کمی کر کے یہ ادارے ڈالر کی شرح تبادلہ میں اضافے کا مقابلہ کر سکتے تھے بشرطیکہ وزارت صحت اور ڈریپ انہیں آئینہ دکھاتے، ماضی میں ناجائز منافع خوری کے اعداد و شمار سے آگاہ کرتے اور جس طرح عمران خان قوم کو صبر و تحمل کی تلقین کر رہے ہیں، اس مافیا کو احساس دلاتے کہ اگر اس نے ذخیرہ اندوزی کی، مصنوعی قلت سے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا تو اُن سے بھی ماضی کا پورا حساب لیا جا سکتا ہے۔ کوئی غیر ملکی کمپنی بیس کروڑ انسانوں کی مارکیٹ کو نظر انداز کر سکتی ہے نہ ناجائز منافع خوری کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم۔ مگر چند ہی روز میں بلیک میلنگ قبول کر کے حکومتی اداروں نے عوام کو مایوس اور مخالفین کو خوش کر دیا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ایک ایک کر کے باقی مافیاز بھی سر اٹھائیں گے اور حکومت بلیک میلنگ کا شکار ہوتی چلی جائے گی۔ کسی بھی شخص، ادارے یا حکومت کے لیے ایک بار پسپائی مشکل ہوتی ہے، ایک قدم پیچھے ہٹنا شرمندہ کرتا ہے پھر یہ عادت بن جاتی ہے اور پسپائی بالآخر رسوائی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ عوامی توقعات یوں مایوسی میں بدلیں اور مافیاز ایک بار پھر اس قوم کی گردن پر سوار نظر آئیں۔