ممتاز و معتبر صحافی محمد رفیق ڈوگر کی کتاب "ڈوگر نامہ" پڑھتے ہوئے انقلابی شاعر حبیب جالب کی خان عبدالولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے علیحدگی کا واقعہ نظر سے گزرا جسے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد سردار شیر باز مزاری نے عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے زندہ رکھا۔
1977ء کے انتخابات میں حبیب جالب نے عوامی نیشنل پارٹی سے پارٹی ٹکٹ مانگا تو انہیں ٹکا سا جواب ملاوجہ وہی کہ جالب کے پاس پیسہ نہ انتخابی مہم چلانے کی سکت، ٹکٹ کیوں ضائع کیا جائے، جالب رفیق ڈوگر سے ملے تو ٹکٹ نہ ملنے پر بہت غصے میں تھے، کہا "یہ سب کوٹھیوں والے ایک ہی ہوتے ہیں، مجھے اس لئے ٹکٹ نہیں دیا کہ میں غریب ہوں میری کوئی کوٹھی نہیں" پھر انہوں نے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء سے قبل حبیب جالب نے بھٹو کی قید کاٹی اور عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل سمیت اپنے لیڈروں کا ساتھ نبھایا، قید کے آخری دنوں میں حبیب جالب کی رہائی کی خبر شائع ہوئی تو جالب کو یقین نہ آیا ایک قطعہ لکھ بھیجا؎
ہم فقیروں کی جو کہتے ہیں رہائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
ہم فقیروں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم فقیروں کی ابھی اور پٹائی ہوگی
جالب کا ذکر چلا ہے تو رفیق ڈوگر کا بیان کردہ ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ "جالب کا بات کرنے کا اپنا انداز تھا، ایسے محسوس ہوتا جیسے سر اور تال کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہے ہوں، ایک شام آئے تو پوچھا تمہیں معلوم ہے رات کیا ہوا؟ ہمیں تو کچھ معلوم نہ تھا کہ رات کو کیا ہوا؟ انہوں نے بتانا شروع کیا، شورش کاشمیری نے میری عزت بچا لی، ابھی اس شہر میں رہا جا سکتا ہے۔ لکشمی چوک پر میری ایک تانگے والے سے توتو میں میں، ہوگئی، پولیس والا آیا اور اس نے بھی مجھے ہی ڈانٹ دیا، میری بے عزتی پر کسی نے پولیس والے کو نہیں روکا، شورش میرا نظریاتی مخالف ہے۔ تم جانتے ہو میں بھی اس کے خلاف ہوں اسے معلوم ہوا تو اسی طرح اُٹھ کر آ گیا جیسے بیٹھا تھا اس نے تانگے والے کے چھانٹے سے پولیس اہلکار کی پٹائی کی، کہا تمہیں معلوم ہے یہ کون ہے؟ اس کا نام جالب ہے، پھر تھانے میں جا کر دھرنا دیدیا اور کہا "جس، شہر میں پولیس والا جالب کی بے عزتی کرے وہ رہنے کے قابل نہیں رہا اس لئے مجھے جیل بھیج دو" پولیس والے منتیں کرتے رہے، مگر شورش نہیں اٹھا، علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ شورش تھانے میں دھرنا دے کر بیٹھا ہے وہ بھی آ کر بیٹھ گیا، علامہ مظفر علی شمسی کو معلوم ہوا وہ بھی آ گیا، ایس پی منتیں کر رہا ہے۔ گورنر کا ٹیلی فون آ رہا ہے مگر شورش صاحب نہیں اُٹھ رہے، بات بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون کیا، تب شورش اٹھا تھانے سے، ابھی اس شہر میں کچھ لوگ باقی ہیں، ابھی اس شہر میں رہا جا سکتا ہے"۔
ایک نظریاتی مخالف کی عزت کا تحفظ اور اس کے ساتھ ہونے والا زیادتی کا ازالہ ہمارے سماج کا وتیرہ تھا، ایک عرصہ تک رہا مگر یہ کالم کا موضوع نہیں، جالب سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کسی مشاعرے میں آپ ہوٹ بھی ہوئے، کہنے لگے، ایک بار مجھے یاد ہے۔ میں پھنس گیا تھا، لاہور میں ایک مشاعرہ تھا۔ میں لائل پور سے آیا تھا۔ زہرہ نگاہ بھی آئی تھی۔
وہ زہرہ نگاہ کا بڑے عروج کا دور تھا۔ اپنے مخصوص مترنم انداز سے وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتی تھی اور پھر زہرہ کے بعد مشاعرے میں پڑھنا ناممکن ہوجاتا تھا۔ مجھے بس سے لاہور جانا تھا۔ بس نہیں ملی تو میں ٹرک میں بیٹھ کر آ گیا۔ سر پر بال وال بھی تھے اور وہ جو شاعروں کا ایک خاص حلیہ ہوتا تھا۔ وہ میرا بھی تھا، اس وقت مشاعرہ قتل گاہ بنا ہوا تھا۔ کئی شاعروں کی لاشیں تڑپ رہی تھیں۔ زہرہ نگاہ پڑھ کر جا چکی تھی۔ جو شاعر آتا وہ ڈھیر ہو جاتا تھا۔ میں ٹرک کے اڈے سے سیدھا مشاعرے میں داخل ہوا اور گردن نکال کر مجمع میں سے اسٹیج کی طرف بڑھا۔
شوکت تھانوی اسٹیج سیکرٹری تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے سوچا چلو اسے کاٹیں۔ مجھے کاٹنے کے لیے اس نے آواز لگائی۔ حضرات اب حبیب جالب اپنا کلام سنائیں گے۔ میں مائیک پر آیا تو لوگوں نے کہا کہ نکالو اس کو، کہاں سے آ گیا یہ فقیر، عجیب و غریب فضا بن گئی۔ میں کانپنے لگا اور سوچا کہ چلو بھئی چلے جاتے ہیں۔ مگر کہیں سے ذہن میں ایک لہر آ گئی کہ کہیں یہ حسرت نہ رہ جائے کہ بغیر پڑھے چلے گئے۔ تو یہ سوچ کر میں نے ایک تازہ غزل کا شعر پڑھا۔ وہ جو غزل تھی؛
دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
یہ جو میں نے ترنم کے ساتھ پڑھنا شروع کی تو لوگ خاموش ہو نے لگے۔ پھر دوسرا شعر پڑھا، پھر تیسرا شعر پڑھا کہ؛ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں۔ دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں"اس پر بے تحاشا داد ملی، بے پناہ داد ملی،۔ جگر صاحب صدارت کر رہے تھے۔ میں مائیک چھوڑ کر جگر صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے جب کراچی میں جگر صاحب آئے ہوئے تھے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ بھئی جگر صاحب آئے ہوئے ہیں، چلو ان سے مل لو۔ تو میں نے کہا کہ بھئی تم مل آؤ، ہماری کہیں ہوجائے گی ان سے ملاقات۔ اس پرلوگوں نے کہا کہ دیکھو اس لڑکے کو۔ جگر صاحب آئے ہوئے ہیں اور یہ کہتا ہے کہ ہوجائے گی کہیں ملاقات، تو اس مشاعرے میں ملاقات ہوگئی، جگر صاحب کے کہنے پر میں نے مقطع پڑھا اور آکر بیٹھ گیا۔ " مقطع تھا ؛وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا۔ اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں"میں آ کر بیٹھ گیا تو لوگوں نے آوازیں لگانی شروع کردیں۔ ابایک ڈراما ہوتا ہے شاعر بیٹھا رہتا ہے کہ اور چیخنے دو، اور اصرار کرنے دو۔ اس پر مشاعرے کے منتظمین کو تو یہی کہنا ہوتا ہے ناکہ ابھی اور شاعر بھی آنے والے ہیں۔ اور وقت ہوا تو بعد میں ان کو پڑھوا دیں گے۔ شوکت تھانوی کو تو یہی کہہ دینا تھا، مگر لوگ کہاں ماننے والے تھے۔ مجھے بھی غصہ آ گیا اور میں نے کہا کہ اسے تو آج میں قتل کروں گا۔ میں مائیک پر آ گیا اور کہا، حضرات! کیا آپ مجھے سننا چاہتے ہیں تو میں سنانا چاہتا ہوں، پھر یہ ہمارے درمیان میں کون ہے۔ پھر میں نے اپنا کلام سنایا۔ اس کے بعد تو ایک ہی رات میں مقبولیت مل گئی۔ کالجوں میں لڑکے لڑکیوں نے مجھے بلوانا شروع کر دیا۔ مشاعروں میں اور مباحثوں کے وقفوں میں۔ ایک مرتبہ شورش کاشمیری نے اپنے رسالے میں لکھا کہ ایک دن کسی کالج کی دہلیز ہی پر اس کا دم نکلے گا"۔
جالب کی ایک مرتبہ گرفتاری کا ذکر الطاف گوہر نے اپنی کتاب "لکھتے رہے جنوں کی حکایت" میں کیا ہے جو ایوب خان کے عہد اور نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کے حکم سے ہوئی۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں: خبر ملی کہ حبیب جالب کو قتل کی سازش میں گرفتار کر لیا گیا ہے، اس وقت خورشید احمد وزیر قانون تھے، خورشید میرے ہم جماعت رہ چکے تھے اور ہمیشہ بڑی بے تکلفی سے پیش آتے تھے، ہم ایوب خان صاحب کے ساتھ جہاز میں اسلام آباد سے لاہور آ رہے تھے، خورشید احمد نے کہا "تمہارا دوست پکڑا گیا ہے، صدر صاحب سے بات کرو" میں صدر صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ لاہور کے ادبی حلقوں میں حبیب جالب کی گرفتاری کی وجہ سے بڑی تشویش ہے، انہوں نے مجھے بڑا رسمی اور روکھا سا جواب دیا "یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے"۔ لاہور پہنچتے ہی میں نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے حبیب جالب کا ذکر کیا تو نواب صاحب بولے "بڑا بدقماش آدمی ہے، مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کا دوست ہے، مگر بدزبانی کی بھی حد ہوتی ہے "میں نے کہا " قبلہ معاملہ اُس کی زبان کا نہیں حکومت کی ساکھ کا ہے " "پوچھا" کیسے؟"
عرض کیا "پولیس نے اُس کے خلاف جو ایف آئی آر کاٹی ہے، اُس میں لکھا ہے کہ حبیب جالب ایک تھیلے میں شراب کی بھری بوتل اور پستول لے کر مال روڈ پر ایک شخص کو قتل کرنے جا رہا تھا۔ سارا لاہور ہنس رہا ہے، شراب کی بوتل اگر بھری ہوئی تھی تو جالب کہیں بیٹھا ہوتا اُسے لے کر مال روڈ پر نہ پھر رہا ہوتا"۔ نواب صاحب بھانپ گئے کہ پولیس سے چُوک ہوگئی ہے اور یوں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ کئی برس بعد جب حبیب جالب لندن آئے تو یہ قصہ میں نے اُنہیں سنایا، فیض صاحب کی طرح جالب بھی نواب صاحب کے علم جبر کے قائل تھے اور وہ خود بھی اپنے چھوٹے موٹے حریفوں اور حاسدوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے تھے۔ ""اب جبر کا قائل نواب امیر محمد خان جیسا کوئی حکمران ہے، نہ شورش کاشمیری ایسا وضعدار حریف اور نہ رفیق ڈوگر سا بے تکلف رفیق جو جالب زندہ ہوتے تو پوچھتا" "کیا اب یہ شہر رہنے کے قابل ہے؟"