مولانا کا دھرنا ختم ہوا، میاں صاحب اللہ نے چاہا تو آج بغرض علاج بیرون ملک سدھار جائیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر مسلم لیگی لیڈر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں، کارکن البتہ محتاط ہیں، انہیں قیادت کا خوش فہمی پر مبنی وہ ردعمل یاد ہے جو سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی کی تشکیل پر سامنے آیا، ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرنے، مبارکبادیں دینے اور خوشی سے پھولے نہ سمانے کے بعد ماتم، سینہ کوبی اور "مجھے کیوں نکالا" کی گردان۔ اب بھی کارکنوں کو ڈر ہے کہیں خوش فہمی ناک نہ کٹوا دے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف عدالت کو تحریری یقین دہانی کرا کے جا رہے ہیں اور اس یقین دہانی کو سرکاری وکیل خود کوگروی رکھنے کے مترادف قرار دیتے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔ میڈیا مینجمنٹ میں شریف خاندان کا کوئی ثانی نہیں میاں صاحب کی بیرون ملک کوروانگی عزیمت و استقامت اور دلیری کا شاہکار ثابت کرنا تازہ مثال ہے جبکہ تحریک انصاف اس معاملے میں پرلے درجے کی نکمی اور پھوہڑ ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ اور پھر دھرنے کا اعلان کیا تو اپوزیشن کے علاوہ حضرت کے دست حق پرست پر تازہ تازہ بیعت کرنے والے تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے دور کی کوڑیاں لانا شروع کر دیں، سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ بلکہ زیادہ درست الفاظ میں فوج کی مداخلت سے الرجک ان سیاستدانوں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کی ساری امیدیں انہی اداروں سے وابستہ تھیں، مولانا کا مخاطب بھی یہی ادارے تھے، یکم نومبر کو میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے انہی اداروں کی طرف سے دلجوئی اور حوصلہ افزائی کی التجا اور منت سماجت پر سارا زور کلام صرف کیا اور میڈیا میں بھی یہی سازشی کہانیاں پھیلائی گئیں کہ ادارے اب عمران خان سے شاکی اور اپوزیشن بطور خاص مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کی طرف مائل بہ کرم ہیں ؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
مجھ ایسے کم علموں کو بتایا یہ جاتا رہا کہ عمران خان سے اداروں کا رومانس ختم ہو چکا، ان ہائوس تبدیلی یا نئے انتخابات کے لئے فضا سازگار ہے اور عمران خان کا استعفیٰ تیار، بس ذرا اپوزیشن مولانا کے ساتھ مل جل کر گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دے اور بیڑا پار، عدالتی فیصلوں کو بھی یار لوگوں نے اس تناظر میں دیکھا اور عمران خان نے ڈیڑھ سال بعد دو چھٹیاں کیں تو قیاس آرائیوں اور تجزیوں کا سیلاب آ گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لئے آرمی چیف مقررکرنے کا اعلان دو اڑھائی ماہ قبل ہو چکا ہے لیکن اس حوالے سے بھی کھسر پھر ہوتی رہی اور آزادی مارچ کو مدت ملازمت میں توسیع سے جوڑ کر سازشی کہانیوں کا طومار باندھا گیا۔ واقف حال جانتے ہیں کہ 29نومبر کے بعد عمران خان کے لئے حالات مزید سازگار ہوں گے اور اپوزیشن کے کرپٹ و انتشار پسند عناصر کے گرد گھیرا مزید تنگ ہونے کی اُمید ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے کہ ریاست کا کوئی ادارہ کسی مہم جوئی کا حصہ بننے کو تیار ہے نہ کرپشن، لوٹ مار اور اقربا پروری کے مکروہ کلچر کے احیا کا روادار، ادارے بلیک میل ہونے کے موڈ میں ہیں نہ پاکستان کو دیوالیہ کرنے والے عناصر کو چھوٹ دینے کے متحمل۔ کون نہیں جانتا کہ اس وقت میاں نواز شریف بلکہ ماسوائے میاں شہباز شریف، شریف خاندان، زرداری خاندان، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، پی ٹی ایم اور ہمنوا اسٹیبلشمنٹ کو نیچا دکھانے، اسے دنیا بھر میں بدنام کرنے اور قومی مسائل بالخصوص جمہوریت کی بدحالی کا واحد ذمہ دار قرار دینے کے لئے یک دل یک زبان اور یک سو ہیں اور ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملا وہ انتقامی ذہن کے ساتھ بدلہ چکانے کی سعی و تدبیر کرے گا۔ بنگلہ دیش میں صرف شیخ مجیب الرحمن کا خاندان اور حسینہ واجد پر 1971ء میں پاکستان، پاکستانی فوج اور اس کا ساتھ دینے والے عناصر سے انتقام لینے کا بھوت سوار تھا یہاں کئی خاندان اور حسینہ واجدائیں اس سوچ سے مغلوب، موقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کا ہدف صرفعمران خان یا کوئی ایک آدھ جرنیل نہیں پوری فوج، عدلیہ اور کرپشن کے ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے خواہاں ادارے اور افراد ہیں۔ مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں اور ان کی ہمنوا تنظیموں کے اجتماعات و مظاہروں میں گونجنے والے نعرے اور سوشل میڈیا پر جاری مہم اس کا ثبوت ہے۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ پاکستان کے دبنگ ترجمان، کشمیریوں کے بغیر اور اداروں کے مخلص پشتی بان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر مخالفین کی صف میں لاکھڑا کرے اور اس بیانئے کو تقویت دے کہ خلائی مخلوق کسی سویلین کو برداشت نہیں کرتی۔
میری اطلاع کے مطابق اگلے چند دنوں میں چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کا مرحلہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مشاورت، اتفاق رائے اور خوش اسلوبی سے طے ہو گا جو اپوزیشن کے لئے ایک اور دھچکا ہے سازشی کہانیاں دم توڑیں گی اور بعض شخصیات سے وابستہ اُمیدوں پر اوس پڑے گی۔ اتحادی بھی ایک ایک کر کے اپنے کئے پر پچھتائیں گے اور میاں صاحب کے برطانیہ سے امریکہ چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر اور کارکن حیرت و پشیمانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھیں گے مولانا کو کس نے شہ دی؟ مقاصد کیا تھے؟اور آزادی مارچ کے غبارے میں ہوا بھرنے والوں کا ایجنڈا کیا تھا؟ کچھ دنوں میں سب کچھ طشت ازبام ہو گا۔ ممکن ہے بعض سلیم الطبع مخالفین یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں ع
عدو شرے برانگیز و کہ خیرما درآں باشد (دشمن شر پھیلا تا ہے اور اس میں ہمارے لئے خیر کا ساماں ہوتا ہے)
میاں شہباز شریف نے ایک اجلاس میں پارٹی رہنمائوں کو جس انداز میں جھاڑ پلائی اور میاں نواز شریف کی بیماری پر سیاست کے مضمرات سے آگاہ کیا وہ لیگی قیادت کے لئے چشم کشا ہے مگر کارکنوں کو بتائے کون؟ اگرباقی ماندہ اپوزیشن تصادم اور محاذ آرائی جاری رکھنے پر مُصر ہے اور فوجی قیادت کو سیاسی معاملات میں خواہ مخواہ ملوث کرنے کی خواہش مند تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ نئے الیکشن میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت ملنے کا امکان ہے جبکہ جمہوریت یا نظام کی بساط لپیٹے جانے کی صورت میں اپوزیشن کی وہ"گدڑ کٹ" ہو گی کہ الامان والحفیظ۔ چار سال مزید صبر کرنے کی صورت میں البتہ سب کو یکساں مواقع مل سکتے ہیں، تب فیصلہ کارکردگی پر ہو گا اور میدان سب کے لئے کھلا۔ میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی سے رکھے، علاج کے بعد آرام کے لئے بھی برطانیہ و امریکہ کی آب و ہوا موزوں ہے اگر ان کے خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، طلال چودھری جیسے کارکنوں اور مریم نواز وسلمان شہباز جیسے برخورداروں نے کھنڈت نہ ڈالی، بڑھکیں مار کر کام خراب نہ کیا تو وہ خود اور عمران خان پرامن بقائے باہم کے اصول کے مطابق اچھا وقت گزار لیں گے لیکن اگر ایک بار پھر انہوں نے وعدہ خلافی کر ڈالی تو حالات شائد پرویز مشرف دور سے مختلف ہوں کہ اس فوجی آمر کو اقتدار کے جواز اور امریکی خوشنودی کی مجبوری لا حق تھی اب ایسا کچھ نہیں، اسلام آباد نہ راولپنڈی میں کوئی مجبور و بے بس ہے، باقی شریف برادران خود سیانے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور خیالی پلائو پکانے کا انجام مولانا نے دیکھ لیا کسی اور کو شوق ہے تو سو بسم اللہ!