عمران خان کا اللہ بھلا کرے، مذہبی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے پہلے عالمی دن کے موقع پر اس نے مظلوم کشمیریوں کو یاد رکھا، عالمی برادری کو باور کرایا کہ وہ محض عقیدے کی بنا پر فوجی جبرو تشدد کا نشانہ بننے والوں سے بھی اظہار یکجہتی کرے جن سے عیدالاضحیٰ اور نماز جمعہ کی ادائیگی کا حق چھین لیا گیا اور امکانی قتل عام کا راستہ روکنے کے لئے متحرک ہو۔ میں سارا دن مختلف نیوز چینلز پر کسی مذہبی و سیاسی جماعت، انسانی حقوق کی تنظیم اور شہریوں آزادیوں کی علمبردار این جی اوز کی طرف سے کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے منعقد ہونے والے سیمینار اور احتجاجی مظاہرے کی فوٹیج اور خبر تلاش کرتا رہا مگر کہیں بھی مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ عمران خان کا ٹویٹ پڑھ کر تحریک انصاف چاہتی تو سرگرمی دکھا سکتی تھی مگر وہ بھی خاموش رہی۔ گزرے زمانوں میں پاکستان فارن فنڈڈ این جی اوز کے لئے جنت تھا سندھ میں، کسی غریب، سماجی جبر کا شکار ہندو لڑکی کے قبول اسلام، سرگودھا میں مسلمانوں کے نقطہ نظر سے دلآزار لٹریچر کی تقسیم میں ملوث بک سیلر کی گرفتاری اور جائیداد کے تنازعہ میں کسی مسیحی اور مسلمان کی باہمی لڑائی کے موقع پر یہ فارن فنڈڈ این جی اوز آسمان سر پر اٹھا لیتی تھیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں دھواں دھار تقریریں ہوتیں، مہنگی گاڑیوں سے اُتر کر فیشن ایبل خواتین و حضرات چوکوں چوراہوں میں پمفلٹ تقسیم کرتے اور خوب نعرے بازی ہوتی، اقلیتی فرقے کی کوئی خاتون ذاتی دشمنی کی بھینٹ چڑھتی تب بھی اسے مذہبی امتیاز کا مسئلہ بنا کر پاکستانی معاشرے اور قوانین کو خوب رگیدا جاتا، بات قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سے شروع ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن تک پہنچتی، درمیان قرار داد مقاصد کے بخیے بھی ادھیڑے جاتے اور پاکستان کے بانیوں پر زبان طعن دراز ہوتی کہ انہوں نے ایک مذہبی ریاست بنا کر ہندو مسلم تفریق پیدا کر دی ورنہ متحدہ ہندوستان میں ہم مزے سے اکٹھے بیٹھے آلوگوشت کھا رہے ہوتے، انہیں ہماری شراب نوشی پر اعتراض ہوتا نہ ہم گائے کا موتر پینے والوں سے تعرض کرتے، مابخیرشما بسلامت۔
کشمیر میں حشر بپا ہے مسلم حق خود ارادیت مانگنے کی پاداش میں نہتے اور بے قصور کشمیری مردوزن، بزرگوں اور بچوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے، بی بی سی کے بقول گھروں پر شب خون مارکر بھارتی فوج نوجوانوں کو اٹھاتی، وحشیانہ تشدد کانشانہ بناتی اور پھر غائب کر دیتی ہے، اپنے باپ بھائی اور شوہر کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنے والی کشمیری خواتین سے بھی یہی سلوک ہوتا ہے مگر پاکستان کے طول و عرض میں گزشتہ اٹھارہ روز کے دوران انسانی حقوق بالخصوص حقوق نسواں کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک بھی تنظیم نے سڑکوں پر نکلنا اور نریندر مودی کے خلاف نعرے لگانا درکنار ہلکا پھلکا پریس ریلیز جاری کرنا ضروری نہ سمجھا۔ آئین و قانون شکنی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کسی غیر معروف سوشل میڈیا ایکٹو سٹ، فاٹا اور بلوچستان میں علانیہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد کی گرفتاری پاکستانی حکومت، عسکری اداروں اور عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو ملاحیاںسنانے والوں نے کشمیر کے درجنوں اخبارات کی بندش، صحافیوں کی آزادانہ آمدورفت پر قدغن، صحافیوں، دانشوروں کی گرفتاری اور فون انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کے انقطاع کو احتجاج کا موضوع نہیں بنایا، یوں لگتا ہے منافقت کی حد ہے۔ یہ تنظیمیں وفات پا چکی ہیں یا ان کو بھارت، ناروے، جرمنی، امریکہ اور برطانیہ سے موصولہ فنڈز سے چلانے والے دانشور و تجزیہ کار سورگباش ہو گئے؟قبرستان کی سی خاموشی ہے یہ کلمہ گو کشمیریوں سے عناد ہے پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ کے نعرے سے نفرت یا کشمیریوں کے سفیر عمران خان اور کشمیریوں کے حقوق کے لئے آخری حد تک جانے والی فوجی قیادت سے بغض؟ وثوق سے کچھکہنا مشکل ہے مگر دال میں کالا ضرور ہے ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ایک بات البتہ سو فیصد سچ ہے کہ چونکہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنا دنیوی لحاظ سے منافع بخش سودا نہیں، کشمیری عوام اور ان سے ہمدردی رکھنے والے پاکستانی مسلمان ان این جی اوز اور سماجی کارکنوں و لیڈروں کی نقد خدمت کر سکتے ہیں نہ انہیں عالمی سطح پر شاباش ملنے کی اُمید ہے اور نہ حقوق انسانی کا اعلیٰ ایوارڈ ملنے کی توقع لہٰذا خاموشی بہتر ہے چندہ خورموم بتی مافیا سے اس کے سوا توقع بھی کیا تھی؟قابل رشک کردار مگر اسلام کی نام لیوا اور ؎
ایک ہوں مسلم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کا نعرہ لگانے والی مذہبی جماعتوں کا بھی نہیں، مولانا فضل الرحمن عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لئے ملین مارچ اور لاک ڈائون کی دھمکیاں دے رہے ہیں، دو آل پارٹیز کانفرنسیں بھی ہو چکی ہیں مگر دس سال تک کشمیر کمیٹی کا سربراہ رہنے کے باوجود تاحال انہوں نے مظلوم اور ستم رسیدہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مارچ کا اعلان نہیں فرمایا۔ جماعت اسلامی کے سوا دیگر مذہبی تنظیموں کا بھی یہی حال ہے، حافظ سعید شائد خیرہ کن اجتماعات سے فوری بیداری کی مہم برپا کرتے مگر وہ پابند سلاسل ہیں اور ہماری کوتاہ اندیشی کی زندہ مثال۔ آج جمعتہ المبارک ہے ہمارے علماء کرام، خطیب اور واعظ حضرات وہ کام کر سکتے ہیں جو انہیں وارث منبر رسولﷺکے طور پر کرنا چاہیے پاکستان کی لاکھوں مساجد میں کشمیریوں سے یکجہتی، مودی سرکار کی مذمت اور جہاد کے احکامات کی تبلیغ وہ کام کر سکتی ہے جو کسی حکومت، سیاسی جماعت اور غیر سرکاری تنظیم کے بس کی بات نہیں۔ برسر پیکار کشمیری عوام، بالخصوص نوجوان بھارت اور نریندر مودی کے پاکستان دشمن عسکری عزائم کے مدمقابل پاکستان کی پہلی دفاعی دیوار ہیں جس کی حفاظت ہماری قومی ذمہ داری ہے، عمران خان عالمی برادری کو متوجہ کرنے کے لئے روزانہ ٹویٹس کر رہے ہیں، وزیر خارجہ بھی متحرک ہیں لیکن پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلامی رشتوں کا پرچار کرنے والی جماعتیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔ سوات میں چند سکولوں کی بندش پر آواز بلند کرنے اور دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر نوبل انعام لینے والی ملالہ یوسفزئی پرحیرت ہے جسے کسی نے جموں و کشمیرمیں ہزاروں سکولوں کی بندش کے بارے میں بتایا نہ کمسن بچوں اور بچیوں پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کا علم ہے اور نہ جس کو کشمیریوں کی نسل کشی پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی توفیق ہوئی۔ ملالہ کے دکھ میں پوری پاکستانی قوم شریک تھی اور لوگوں نے اس بچی کے نوبل انعام کو پاکستان کا اعزاز سمجھا مگر اس کے موقع پرست باپ نے ہمدردیاں کیش کیں، اسے پاکستان سے دور کر دیا۔ وہ ہمارے کسی دکھ میں شریک نہ درد اور تکلیف پر بے چین۔ حد ہے سنگدلی اور خود پرستی کی۔ یہ محترمہ بھی پاکستان کی وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں، ماشاء اللہ!