34 میں سے 27 وزارتوں کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی طرف سے ریڈ لیٹر کا اجراء حکومت کی ایک سالہ ناقص کارگزاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مطلب یہ کہ چونتیس میں سے ستائیس یعنی تین چوتھائی سے زائد وزیر نکمے، نااہل اور کام چور ہیںجو اپنے ماتحتوں سے کام لے سکے نہ اپنا سکّہ جما سکے۔ اپوزیشن یا میڈیا یہ بات کہے تو حکمرانوں کو مرچیں لگتی ہیں، منفی پروپیگنڈا قرار دیا جاتا ہے اور تبدیلی کی علمبردار حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کا الزام لگتا ہے مگر وزیر اعظم عمران خان اگر ستائیس وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری کرتے ہیں تو یہ محض الزام اور منفی پروپیگنڈا نہیں، وہ سچ ہے جو اکثر سر چڑھ کر بولتا ہے۔
موجودہ حکومت کو ابتدائی ایام میں جارحانہ تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو ذمہ دار کوئی اورنہیں عمران خان اور ان کے ناتجربہ کارساتھی تھے، جو انتخابی مہم کے دوران بلکہ گزشتہ ایک عشرے تک عوامی توقعات بڑھاتے رہے۔ اس کے باوجود سنجیدہ حلقوں نے اس تنقید کو بے وقت کی راگنی قراردیا کہ کسی حکومت کے لئے چالیس پچاس سال کا گند صرف دو چار ماہ میں صاف کرنا آسان ہوتا ہے نہ ممکن، ایک سال مگر کسی حکومت کی کارگزاری جانچنے کا معقول عرصہ ہے۔ عمران خان نے وعدہ تو عوام سے یہی کیا تھا کہ وہ اپنے وزیروں مشیروں کی کارگزاری ہر تین ماہ بعد ان کے سامنے رکھا کریں گے مگر یہ روائتی معشوق کا وعدہ تھا جسے ایفا ہونا تھا نہ ہوا، ایک سال بعد مگر شائد وزیر اعظم کو خود احساس ہوا کہ نکمے اور کام چور وزیروں مشیروں، سیکرٹریوںکی خبر لیں اور ریڈ لیٹرجاری کریں۔ یہ کون سی 27وزارتیں ہیں جنہیں"سرخ خط" جاری کیا گیا ذرائع ابلاغ نے تاحال تفصیل نہیں بتائی مگر لوگ ان سے واقف ہیں۔ باقی سات بھی اندھوں میں کانا راجہ ہیں ورنہ حال سب کا پتلاہے۔ وزارت اطلاعات سے میڈیا تنگ ہے۔ ریلوے سے مسافروں کو شکایات ہیں، وزارت قانون نے عوام کو عدل و انصاف کی بلا تفریق و ارزاں فراہمی کے لئے ایک سال میں کچھ نہیں کیا اور وزارت داخلہ کی کارگزاری ملک بھر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے عیاںہے۔ وزیر صحت عامر کیانی اربوں روپے ڈکار کر کرپشن کے الزام میں منصب سے فارغ کئے گئے، توقع یہ تھی کہ خاں صاحب اپنے وعدے کے مطابق کرپٹ وزیر کو وہی سزا دیں گے جو چین میں نافذ ہے، فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دینے کی سزا، مگر انہیں وزارتی منصب سے ہٹا کر پارٹی کی تنظیم نو کا فرض سونپ دیا گیا دریا کی لہریں گننے کی اس ذمہ داری سے وہ کیسے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں؟ ان کی اہلیت و صلاحیت پر منحصر ہے کپتان نے کھلاڑی کو موقع فراہم کر دیا ہے اگے تیرے بھاگ لچھئے۔
وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کے سامنے تو شائد کپتان بھی بے بس ہے، حفیظ شیخ اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے چہیتے ساتھی حماد اظہر کو فل وزیر بننے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں چلتا کیا اور سب چپ سادھ لئے۔ وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کا شاہکار وہ ہوشربا مہنگائی و بے روزگاری ہے جس نے غریب عوام کا جینا حرام کر دیا ہے یا پھر کاروباری طبقے کی گو سلو پالیسی جس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رکا ہوا ہے اور حفیظ شیخ اس پوزیشن میں نہیں کہ اسے راضی کر سکیں۔ جن وزارتوں کو ریڈ الرٹ جاری ہوا ان میں وزارت خزانہ ہرگز شامل نہ ہو گی کہ اس کی کارگزاری شاندار ہے۔ اتنی شاندار کہ ملکی معیشت کو تباہی کے کنارے پہنچا کر دم لینے والے سابق حکمران بھی اس پر انگلی اٹھاتے ہیں اور کوئی انہیں ٹوکتا نہیں، تحریک انصاف کے حامی بے چارے بھی چپ سادھ لیتے ہیں کہ سب سے زیادہ مایوسی اور شرمندگی سے وہی دوچارہیں۔ ایک آدھ کے سوا کسی وزیر کا دفاع ان کے بس میں ہے نہ کسی وزیر اعلیٰ کی حسن کارکردگی کو وہ فخریہ پیش کر سکتے ہیں۔ پولیس کی تحویل میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت، روز افزوں مہنگائی و بے روزگاری اور آئے روز مضحکہ خیز اقدامات میں سے کس کا دفاع ممکن ہے؟
پنجاب میں ایک سال تک تو ٹھنڈ پروگرام چلتا رہا، کہا گیا کہ وسیم اکرم پلس کی آن جاب ٹریننگ جاری ہے۔ اب کہیں جا کر حکومت نے انگڑائی لی اور ابتدا وزارت صحت سے کی گئی، ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں داخلہ فیس پچاس روپے مقرر کر کے ٹیچنگ ہسپتالوں کو نجی بورڈ آف گورنرز کے حوالے کر دیا گیا۔ پرنسپل فارغ اور معاملات اب صنعت کار، بیورو کریٹس، ریٹائرڈ ماہرین اور مخیر حضرات چلائیں گے۔ پاکستان میں مارکیٹ اکانومی کا چلن عام ہوا تو سنجیدہ فکر اصحاب نے سوال اٹھایا کہ ریاست مدینہ کی طرز پر بننے والے پاکستان میں ظالمانہ مارکیٹ اکانومی غریب اور بے آسرا افراد کا کچومر نکال دے گی۔ مضبوط رفاہی نظام کی عدم موجودگی میں سرکاری سرمائے سے چلنے والے ہسپتال اگر نجی ہاتھوں کو منتقل ہوئے تو وہی حشر ہوگاجو تعلیمی اداروں کا خود مختاری ملنے کے بعد ہوا۔ فیسیں کئی گنا بڑھ گئیں، تعلیمی معیار گر ا اور سفارش کا چلن عام ہو گیا۔ یہی سلوک اب سرکاری ہسپتالوں اور ٹیچنگ اداروں کا ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم کے کزن نوشیرواں برکی امریکہ میں رہتے اور امریکی انداز میں سوچتے ہیں، جانتے ضرور ہیں مگر مانتے نہیں کہ خود مختار طبی اداروں میں غریب بلکہ کم آمدنی والے متوسط طبقے کو کس عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ تعلیم و صحت کی سہولتیں پہلے ہی مفقود ہیں جو تھوڑی بہت موجود تھیں وہ بھی سیٹھوں اور بیوروکریٹس کے حوالے کر کے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازمتوں سے فارغ ہونے پر قابل ڈاکٹر بالخصوص استاد ان ہسپتالوں میں اپنا وقت کیوں ضائع کریں گے اور اس جوہرقابل کونجی شعبہ اچکنے میں دیر کیوں لگائے گا؟۔ یہ سوچنا وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کام ہے مگر ان کے ذمے وضاحتیں پیش کرنا ہے سو وہ کر رہے ہیں۔ اللہ اللہ خیرسلا۔
عمران خان کے بارے میں یہ سن کر اطمینان ہوتا تھا کہ وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں مگر برادرم ہارون الرشید کی اطلاع کے مطابق اب وہ جلد دفتر سے اٹھنے لگے ہیں، اگرچہ مجھے ذاتی طور پر کسی حکمران یامنصب دارکی یہ ادا کبھی پسند نہیں آئی کہ وہ دوسروں کے حصے کا کام بھی خود کرے اورسسٹم کوٹھیک کرنے، ٹیم ورک پر توجہ دینے کے بجائے شہنشاہ جہانگیر بنا رہے کہ ہر سائل اس سے رجوع کرے، مگر تازہ اطلاع کے بعد ناامیدی مزید بڑھنے لگی ہے اور رہی سہی کسر ریڈ لیٹر نے نکال دی ہے۔ اگر چونتیس میں سے ستائیس وزارتوں کی کارکردگی ناقص ہے اور عمران خان نااہل، نکمے اور کام چور وزیروں کے علاوہ بیورو کریٹس کونکالنے کے بجائے تنبیہ تک محدود رہتے ہیں تو یہ بے بسی کا اظہار ہو گا، جس کی توقع ایک ایسے سیاستدان اور حکمران سے نہیں کی جا سکتی جس نے بائیس سال تک خوابوں کی فصل کاشت کی، عوامی توقعات کو آسمان تک پہنچایا اور ایاک نعبدو ایاک نستعین کے ورد سے نوجوان نسل کو صرف خدائے واحد اور اپنی ذات پر بھروسے کی راہ دکھائی۔ عمران خان نے تعلیم، صحت اور انسانی فلاح و بہبود و ترقی کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر یہی تین شعبے ایک سال میں سب سے زیادہ زوال پذیر نظر آتے ہیں۔ احتساب کا عمل تیز ہوا تو اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت نے لیا مگر اب بیورو کریسی و کاروباری طبقے کے حوالے سے پسپائی کے ارادے ہیں۔ اگر ایک سال بعد بھی حکومت دوچار شعبوں میں کریڈٹ لینے کے قابل نہیں اور ڈی جی آئی ایس پی اگرمعیشت کی بہتری کے لئے پانچ سال مانگتے ہیں تو عمران خان کے حقیقی بہی خواہ اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریں؟ ع
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے
جب تک خان صاحب آٹھ دس وزیروں، پندرہ بیس سیکرٹریوں اور تیس چالیس دیگر اہلکاروں کو گھر نہیں بھیجتے معاملہ سدھرنے سے رہا۔ خان کے مُشیریہ کرنے دیں گے؟