23-24 کا اکنامک سروے آف پاکستان سامنے آیا تو جستہ جستہ ورق گردانی کے دوران مختلف شعبوں میں اہداف پورے نہ ہونے کی مایوس کن باتیں نظر سے گزریں، یہ پڑھ کر البتہ جی خوش ہوا کہ 2021-22ء کی طرح 2023-24ء میں بھی گدھوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ دو برسوں میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ سے بڑھ کر 59لاکھ ہوگئی۔ البتہ گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا۔ یہ حکومت کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے؟ مارکیٹ میں گدھوں کی بڑھتی ہوئی طلب کا رجحان؟ یا گدھا پروری کا فیضان؟ حکومت کے اقتصادی و معاشی ماہرین ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ اقتصادی سروے کی مصدقہ اطلاع سے مجھے اپنا ایک پرانا کالم یاد آگیا ہے جو قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔
"صدر جنرل پرویزمشرف نے گزشتہ دنوں کراچی کی ایک تقریب میں عجیب و غریب خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کراچی سٹی گورنمنٹ کے نائب ناظم طارق حسن سے کہا کہ ان کا جی گدھوں کی ریس دیکھنے کو چاہتا ہے۔ نائب ناظم نے کہا کہ وہ جلد ہی گدھوں کی ریس کا انتظام کریں گے تاکہ صدر صاحب اس میں شریک ہوسکیں۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں صدر صاحب کی اس فرمائش یا خواہش کا کیا مطلب لیں مگر میرے خیال میں یہ ان کی گدھا پروری ہے ورنہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے انواع و اقسام کی گھڑ سواری اور گھڑ دوڑ کے مواقع عطا کیے ہوں، اسے گدھا ریس کے بارے میں سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں گدھا ایک کم عقل اور ڈھیٹ جانور کے طور پر مشہور ہے۔ اس کی ضد اور ڈھٹائی کی وجہ کم عقلی ہے یا کم عقلی کا سبب ضد اور ہٹ دھرمی، اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا۔ عام طور پر اسے سخت جان، بے ضرر اور محنت کش جانور سمجھا جاتا ہے جو سب کا بوجھ اٹھاتا ہے مگر احتجاج تک نہیں کرتا۔ یہ اپنا مالک تبدیل ہونے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتا اور لیڈر کی تبدیلی کو بھی بخوشی قبول کرلیتا ہے۔ یہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور سر جھکا کر چلتا ہے۔ تاہم سب گدھے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہ اور بات کہ ہمارے ہاں سب سے ایک جیسا سلوک ہوتا ہے۔
مغرب میں اسے ایک عقلمند اور پسندیدہ جانور سمجھا جاتا ہے۔ اپنے بش صاحب کا انتخابی نشان تو ہاتھی ہے۔ غالباً اپنے انتخابی نشان سے متاثر ہوکر وہ خود بھی بدمست ہاتھی کی طرح دنیا جہان کو روندے چلے جا رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں لیکن امریکہ کی دوسری بڑی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو گدھا پسند ہے اور وہ ہر انتخاب گدھے کے انتخابی نشان پر لڑتی ہے جس سے گدھے کی مقبولیت، اہمیت اور خوش بختی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں شیر، تیر اور سائیکل کا مقابلہ ہوتا ہے اسی طرح امریکہ میں گدھا اور ہاتھی ایک دوسرے کے بالمقابل رہتے ہیں اور ہر مرتبہ ہاتھی گدھے کو نہیں پچھاڑتا بلکہ گدھا بھی اپنی باری لیتا ہے۔ تاہم ان دنوں ا مریکی عوام اور اقوام عالم ہاتھی کے رحم وکرم پر ہیں۔
پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں گدھے کو ووٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ آدمی کسی طرح اپنی طرح کے جیتے جاگتے انسان کو ووٹ دے مگربعد میں وہ گدھا نکلے اور اسکی کم عقلی ضد و ہٹ دھرمی کا خمیازہ ووٹروں کے علاوہ قوم اور اس کے اداروں کوبھگتنا پڑے۔ تاہم عام مشاہدہ یہی ہے اور ماضی میں ہونے والی وسیع ہارس ٹریڈنگ سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹوں کی ضرورت گھوڑوں کو پڑتی ہے جو اپنے حسب نسب، ذات برادری اور اعلیٰ صفات کے زور پر اپنے ہم جنسوں سے اپنی قیادت منوا لیتے ہیں جبکہ گدھے کو کسی نے اس قابل نہیں سمجھا۔ شاید اس کا محنت کش اور بے ضرر ہونا وہ خامی ہے جو اسے قیادت کی دوڑ میں شامل ہونے سے محروم رکھتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے گدھا ریس کی فرمائش کرکے کراچی کی ضلعی انتظامیہ کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ایوب خان کے دور میں یہ لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ ایک کمہار نے اپنے بیٹے سے کہا: "سب گدھے اکٹھے کرو محنت مزدوری کرنے چلیں" بیٹے نے ترنت جواب دیا: "ابا وہ تو سب بی ڈی ممبر بن کر ایوب خان کو ووٹ دینے گئے ہیں، میں انہیں کہاں ڈھونڈتا پھروں؟" بہت سے ستم ظریف یہ سوچ سکتے ہیں کہ جنرل صاحب کا جی گھوڑوں، گھڑ دوڑ اور گھڑ بازاری سے بھر گیا ہے۔ حالانکہ پچھلے سال مدتوں بعد اسلام آباد میں گھڑ بازاری کا رواج پڑا تھا اور بہت سے گھوڑوں کو سرکاری اصطبل میں لانے کے لیے منہ مانگی قیمت ادا کی گئی تھی مگر چھ سات ماہ کے دوران یا تو گھوڑوں کی بجائے گدھا ریس سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں معاملہ صرف گدھا ریس تک محدود رہنا چاہیے کیونکہ گدھا نوازی بسا اوقات مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔
گدھا ایک ایسا بیوقوف جانور ہے جو دولتی جھاڑتے وقت ہر گزنہیں دیکھتا کہ یہ کس کو پڑ رہی ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے اورہاں ریس میں حصہ لینے والے گدھوں کو ایل ایف او کے تحت اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ راستے میں ضد اورہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور کان لپیٹے دوڑتے چلے جائیں گے تاکہ ریس کا مزہ کرکرا نہ ہو"۔
گدھوں کی افزائش کا تذکرہ اکنامک سروے آف پاکستان میں ہوا، دو سال کے دوران وطن عزیز میں مردار خور گِدھوں کی تعداد بھی بڑھی ہے مگر اس کا ذکر پھر کبھی۔