Ghalti Aur Hatdharmi
Irshad Ahmad Arif92 News749
تحریک انصاف نے پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر سینئر بیورو کریٹ ناصر محمود کھوسہ کا نام واپس لے کر اپنے لیے جگ ہنسائی مول لی۔ بہت بُرا ہوا۔ 2013ء میں ناپختگی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث شکست سے دوچار ہونے والی جماعت اب سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی عادت ڈالے۔ اگر ناصر کھوسہ کا نام پیش کرنے سے قبل مناسب ہوم ورک کر لیا جاتا، نام پیش کرنے والے غالباً جہانگیر ترین پر اعتماد کرنے کے بجائے وسیع تر مشاورت ہوتی، ناصر کھوسہ کا ملازمتی پس منظر کھنگالا جاتا، شریف خاندان سے ان کی قربت اور مرکز و پنجاب میں دوران ملازمت ان کے طرز عمل کو دیکھا جاتا تو نام پیش کرنے اور شرمندگی اٹھانے کی نوبت نہ آتی مگر جو ندامت مقدر میں لکھی جا چکی اسے کون ٹال سکتا تھا۔ ہونی ہو کر رہی اور مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کے علاوہ عمران خان کے روائتی ناقدین کو ٹھٹھا مخول کا موقع ملا، مخالف کی غلطی پر مذاق اڑانے کا موقع ملے تو آدمی ضائع کیوں کرے۔ تحریک انصاف نے روائتی محاورے"نانی نے خصم کیا، بُرا کیا، کر کے چھوڑ دیا، اس سے بھی زیادہ بُرا کیا" کو عزت بخشی اور ایک شریف آدمی کو بھی آزمائش میں ڈال دیا جو اپنے دوست، احباب، رشتہ داروں اور شریف خاندان کے چہیتے بیورو کریٹس سے داد وصول کر چکا تھا۔ مگر یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے، جلد باز جذباتی معاشرے میں عموماً دوسرا پہلو دیکھنے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ غلطی کرنا تو انسانی فطرت ہے، کوئی انسان بشری کمزوریوں سے مبرا ہے نہ کوئی گروہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ کبھی غلطی کا مرتکب نہیں ہوا، کیا غلطی کے ارتکاب پر اس کا اعتراف اور رجوع کرنا بہترین عمل ہے یا اُس پر ڈٹ جانا؟ قبائلی معاشرے میں غلطی پر ڈٹے رہنا اور اس کا بحیثیت فرد یا گروہ خمیازہ بھگتنا مردانگی ہے جبکہ مہذب گروہ اور شائستہ اطوار و افراد غلطی کی نشاندہی پر ڈٹے رہنے کے بجائے اسے سدھارنے کی سعی و تدبیر کرتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس مردود ٹھہرا کہ اُس نے غلطی پر ڈٹے رہنے کو ترجیح دی اور توبہ و رجوع کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ہر کلمہ گو اس امر سے آگاہ ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ آدمی غلطی سے نہیں غلطی پر ڈٹے رہنے سے تباہ ہوتا ہے مگر قبائلی جاہلیت اور گروہی عصبیت ہمارے دل و دماغ پر اس حد تک مسلط ہے کہ جانتے بوجھتے ہم اس شخص یا گروہ کا مذاق اڑاتے ہیں جو غلطی کی نشاندہی پر اپنے فیصلے سے رجوع اور اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرتا ہے۔ میاں نواز شریف آج جس باعث ندامت صورت حال کا شکار ہیں اس کا سبب کیا یہ نہیں کہ موصوف پر غلطی آشکار ہوئی، پانامہ سکینڈل منظر عام پر آیا تو انہوں نے قوم کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور آئندہ ایسی کسی غلطی کا اعادہ نہ کرنے کے بجائے اپنی پاک دامنی کی قسمیں کھائیں، عدالت عظمیٰ کو مداخلت کی دعوت دی اور یہ کہا کہ اگر عدالت نے میرے اور میرے خاندان کے مالی معاملات میں گڑ بڑکی طرف ہلکا سا اشارہ بھی کیا تو میں ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر گھر چلا جائوں گا مگر عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے ان کے خلاف فیصلہ سنانے کے بعد آمدنی سے زائد اثاثے بنانے اور ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرنے کا معاملہ احتساب کورٹ کو ریفر کر دیا مگر میاں صاحب آج تک ڈٹے ہوئے ہیں کہ نہیں ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی اور وہی حق پر ہیں۔ نتیجہ یہ کہ نثار علی خاں ایسے قابل اعتماد ساتھی دور ہو گئے اور میاں شہباز شریف ان کا دفاع کرنے سے معذور ہیں اس ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) بند گلی میں داخل ہو چکی اور میاں صاحب کی فوج و عدلیہ کے خلاف مہم جوئی امریکہ و بھارت کے علاوہ دیگر ملک دشمن عناصر اور قوتوں کی تقویت کا باعث بن رہی ہے۔ تعصب کے مارے، تنگ نظر افراد کے نزدیک میاں صاحب کا اپنی ہی عدلیہ اور فوج کے خلاف ڈٹ جانا جواں مردی ہے اور مزاحمت کی علامت، لیکن کیا مردانگی اور مزاحمت اسی کا نام ہے کہ تین بار وزیر اعظم بننے والے شخص کے صاحبزادے مفرور، اپنی پاکستانی شہریت سے دستبردار، مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار، اور اپنے پریشان، بیگانے خورسند۔ یہ مزاحمت نہیں دور جاہلیت کی قبائلی ہٹ دھرمی ہے جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ بلوچستان میں ایک قبائلی جنگ اڑھائی تین سو سال تک چلی دونوں قبائل تباہ ہو گئے، سبب ایک خاتون تھی جسے حاصل کرنے کے لیے دو قبائلی سردار ایک دوسرے سے الجھ گئے اور اگلی دو تین نسلیں تباہ کر ڈالیں جب کچھ لوگ جنگ کا پس منظر جانے بغیر ان دونوں سرداروں کو مزاحمت کے استعارے کے طور پر پیش کرتے ہیں تو مجھے حیرت کے بجائے تاسف ہوتا ہے مگر یہاں عقل و خرد کی کون مانتا ہے۔ سردار فاروق احمد خان لغاری نے کرپشن، نااہلی اور پرلے درجے کی اقربا پروری کی بنا پر بے نظیر حکومت توڑی تو قبائلی طرز کی وفاداری کے خوگر دانشوروں اور سیاسی مفاد پرستوں نے شریف النفس سردار پر تبرّا کیا، اب بھی وہ عدالت عظمیٰ، فوج اور قومی اداروں کے مقابلے میں فرد واحد کے گن گاتے ہیں کہ غلامانہ ذہنیت، قبائلی سوچ، مفاد پرستی کا یہی تقاضا ہے غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جنہیں توفیق دے وہ اپنی غلطیوں کو سدھارتے اور سبق حاصل کرتے ہیں اپنے آپ کو ہر غلطی سے پاک وہ لوگ سمجھتے ہیں جو تکّبر کے متعدی مرض میں مبتلا ہوں یا جنہیں توبہ کی توفیق سے اللہ تعالیٰ محروم کر دے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ناصر کھوسہ کا نام دے کر غلطی کی جس کا اعتراف کرتے ہوئے کپتان اپنے حلقہ مشاورت کا جائزہ لے اور ناقص لوگوں کو دور کرے۔ میری اطلاع کے مطابق ناصر کھوسہ میاں محمود الرشید نہیں جہانگیر ترین کا انتخاب تھا، شاید جسٹس آصف سعید کھوسہ تک رسائی اور نظرثانی میں رعائت کی خواہش یا کچھ اور؟ لیکن جو ہوا برا ہوا، ناصر درانی سے پوچھے بغیر ان کے نام کا انکشاف اور نیک نام پولیس افسر کی معذرت اور دھچکا ہے آخر تحریک انصاف کب تک ایسی غلطیاں کرتی اور نشانہ تضحیک بنتی رہے گی؟ کیا بیس سال گزارنے کے باوجود یہ جماعت عمران خان کا فین کلب ہے؟ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے سے قاصر اور یو ٹرن لینے کی ماہر۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے یہ اچھا سرٹیفکیٹ نہیں۔ قبائلی طرز کی ہٹ دھرمی کا شکار نہ ہو مگر جلد بازی میں فیصلہ کرنے اور آئے دن بدلنے کی شہرت بھی نقصان دہ ہے جس کا ازالہ نہ ہوا تو مخالفین کے لیے یہ آسان چارہ ہو گی؟ جو اسے تباہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔