جسم میں ٹریکر نصب، عوامی اجتماع سے خطاب اور پاکستان کے بارے میں اظہار خیال پر قدغن، رات کو گھر سے نکلنے پر پابندی اور سوشل و ریگولر میڈیا پر کچھ کہنے، بولنے کی ممانعت۔ یہ توہین آمیز سلوک وہ شخص خوش دلی سے برداشت کر رہا ہے جس کے کارکن الطاف حسین کی ایک چنگھاڑ پر کراچی میں کشت و خون کا بازار گرم کرتے تو حکومت، پولیس اور بسا اوقات رینجرز بھی تماشہ دیکھنے کے سوا کچھ نہ کر پاتی۔ 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے ہنگام ایک ٹی وی چینل پر لائیو پروگرام میں شرکاء اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ ایم کیو ایم دھرنے کا حصہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اچانک میزبان نے اعلان کیا کہ قائد تحریک لائن پر ہیں اور نشریات کا حصہ بننے کے خواہش مند، مجھ سمیت شرکاء بے چارے کیا کہتے۔ ہمہ تن گوش ہو گئے۔ پھر جو بانی ایم کیو ایم مینڈھے کی طرح ڈکارنا شروع ہوئے تو اڑھائی تین گھنٹے تک بے تکان اوربغیر کسی وقفے کے ڈکارتے ہی چلے گئے۔ اوٹ پٹانگ باتیں، کراہت آمیزآواز میں بے وزن شاعری اور آرمی چیف سے رابطے کی اپیلیں، دہشت کا مگر یہ عالم کہ میزبان کو ڈھنگ کا سوال کرنے کی جرأت نہ چینل کے تکنیکی عملے کو رابطہ منقطع کرنے کی توفیق، پی خوب رکھی تھی جب تک ہمت نے جواب نہ دیا یہ پروگرام چلتا رہا اور موصوف یاوہ گوئی کرتے رہے، وہ منظر بھی پوری قوم نے دیکھا کہ بانی کے خطاب کا اعلان ہوا، ٹی وی چینلز کو 90 سے حکم ملا سامعین کے جمع اور قائد کے کیمروں کے سامنے جلوہ افروز ہونے سے پہلے لائیو کوریج شروع کر دی جائے چنانچہ ملک بھرکے چینلز جو مذہبی جماعتوں کے لاکھوں کے اجتماعات کی ایک جھلک بھی بڑی مشکل سے دکھاتے ہیں کئی گھنٹے تک خالی کرسیاں، بچھی دریاں اور بیریئر لگی گلیاں دکھاتے رہے، قائد کی آمد کے بعد، تقریر شروع ہونے سے قبل کسی کو اشتہار دکھانے کی اجازت تھی نہ تقریر روک کر بڑی سے بڑی قومی یا بین الاقوامی بریکنگ نیوز نشر کرنے کا حوصلہ۔
2005ء کا زلزلہ آیا تو برادرم تنویر قیصر شاہد، مظہر برلاس، عامر ہاشم خاکوانی اور یحییٰ مجاہد کے ہمراہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کے مطالعاتی دورے کا پروگرام بنایا۔ پہلا پڑائو مظفر آباد تھا، روز اول سے ٹی وی چینلز پر ایم کیو ایم کے ریلیف کیمپ کی دھوم تھی اور بڑے بڑے دلیر اور گو اینکر ایم کیو ایم کی امدادی سرگرمیوں کی تفصیل بڑے خشوع و خضوع سے بیان کر رہے تھے۔ ہمیں بھی تجسس تھا لہٰذا مظفر آباد پہنچتے ہی یونیورسٹی کیمپس کے قریب اس کیمپ میں پہنچے جہاں ایم کیو ایم کے بینر لگے تھے، بینر تو خوب آویزاں تھے مگر کیمپ خالی پڑا تھا نہ کوئی تنظیم اور کارکن اور نہ کوئی ضرورت مند۔ اردگرد سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ایک دن کچھ لوگ آئے تھے تھوڑی بہت امداد تقسیم کی پھر چلے گئے۔ اب باہر سے آنے والے لوگوں سے پتہ چلتا ہے کہ کیمپ آباد ہے اور امدادی سرگرمیاں جاری مگر یہاں تو ویرانی سی ویرانی ہے۔ جماعت الدعوۃ، مسلم ہینڈز، جماعت اسلامی، الرشید ٹرسٹ اور دیگر درجنوں سماجی، مذہبی اور بعض سیاسی جماعتیں متاثرین کی جی کھول کر مدد کر رہی ہیں مگر ایم کیو ایم ندارد۔ باغ جاتے ہوئے راستے میں ایک کیمپ ملا جس میں وہ کارکن موجود تھے اور کچھ ادویات بھی، ایک کارکن سب رنگ ڈائجسٹ پڑھ رہے تھے اور دوسرے ایک طرف دنیا جہان سے بیزار اکتوبر کی دھوپ سینک رہے تھے۔ پوچھا یہاں روزانہ کتنے مریض آتے ہیں اور اس وقت کیمپ خالی ہے، بتایا کہ درجنوں ٹیمیں ہیں جو علاقے میں گئی ہوئی ہیں یہاں کبھی کبھی کوئی آ جاتا ہے لوگ اچھے نہیں۔ سب رنگ ڈائجسٹ پڑھنے والے صاحب بولے کہ قائد کا حکم تھا ہم آ گئے ورنہ یہ لوگ اس قابل نہیں کہ وقت ضائع کیا جائے۔ ویسے تو کوئی مجھے ایک کروڑ بھی دے تو کبھی یہاں کا رخ نہ کروں۔ ہم ان بھائیوں کے جذبہ خدمت خلق اور خدا ترسی کو داد دیتے چلے آئے۔ لاہور واپسی پر بھی ایم کیو ایم کی امدادی سرگرمیوں کی خبریں میڈیا کے ذریعے تسلسل سے ملتی رہیں ہم چپ رہے ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا۔ بانی تحریک کا کراچی پر جب تک سکہ چلتا رہا معدودے چند باہمت لوگوں کے علاوہ کسی اخبار نویس کو تنقید کا حوصلہ تھا نہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے سوا کسی سیاسی جماعت کو اختلاف کی جرأت۔ حکیم سعید اور محمد صلاح الدین جیسے گوہر نایاب اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہم لاہور میں بیٹھے صحافی بھی خواہش کے باوجود کچھ لکھ اور بول نہ پاتے کہ ہمارے اداروں کے کراچی میں موجود دفاتر کے کارکن ہمارے کیے کی سزا نہ پائیں۔ میڈیا کے دفاتر پر حملے ہوئے، بلدیہ ٹائون میں تین سو جیتے جاگتے انسان زندہ جلا دیے گئے، 12اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کراچی ایئر پورٹ سے باہر نہ نکلنے پائے، درجنوں وکیلوں کو محض احتجاجی ریلی کا حصہ بننے پر گولیوں سے بھون دیا گیا اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود آج تک قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ کسی منتخب حکومت کو کارروائی کا حوصلہ ہوا نہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے قاتلوں کا ہاتھ روکا۔ الطاف حسین نے دہلی میں قیام پاکستان کی مخالفت کی، بھارتی حکومت سے معافی مانگی اور مہاجروں کی دوبارہ واپسی پر احتجاج کا فیصلہ کیا مگر اسے نہ صرف روک دیا گیا بلکہ الطاف حسین کی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ خاطر مدارات کی ہدایت جاری ہوئی۔ قانون قدرت مگر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے مگر لامتناہی ڈھیل نہیں دیتا، خدا کی بے آواز لاٹھی بالآخر برستی ہے اور وہ اپنے فطری انجام کو پہنچتا ہے ؎
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
بلدیہ ٹائون 12 اکتوبر کا قتل عام اور عمران فاروق قتل کیس ہضم ہو گیا۔ دیگر سینکڑوں جرائم پر اسے اور اس کے پاکستان میں موجود ساتھیوں کو سزا نہ ملی، لاکھوں پونڈ گھر سے برآمد ہوئے مگر سیاسی اور سفارتی نزاکتوں کی بنا پر برطانوی حکومت نے مجرم کو ڈھیل دے دی۔ 22اگست کو تشدد پر اکسانے اور پاکستان کو ملیا میٹ کرنے والی تقریر اس کے گلے کا پھندا بن گئی، آج وہ شخص جس کے ایک اشارے پر کراچی خون میں نہا جاتا اور قانون قاتلوں کی پشت پناہی پر تل جاتا تھا ماتحت برطانوی عدالت کے روبرو مجرموں کی طرح کٹہرے میں خاموش کھڑا عبرت کی علامت بنا رہا۔ جج سے بحث نہ پولیس سے تکرار، حد یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن نے ہنگامہ آرائی تو درکنار احتجاجی پریس ریلیز تک جاری نہ کی کہ قائد سے برطانوی اسٹیبلشمنٹ زیادتی کر رہی ہے۔ جانتے ہیں کہ موصوف کی شہریت منسوخ ہو گی اور حوالہ زنداں۔ یہ بک بک صرف پاکستان میں ہو سکتی ہے اور دنیا میں یہی ایک ریاست جہاں آزادی اظہار انسانی و جمہوری حقوق کے نام پررسول اکرم ﷺ اہل بیت اطہارو صحابہ کرام اور ہر قابل احترام ہستی پر کیچڑ اچھالنے کا حق مانگا جاتا ہے۔ پاکستان توڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف سرعام نعرے لگتے ہیں اور اگر کوئی عدالت، ادارہ از قسم پیمرا وغیرہ اس بے ہودگی پر پابندی لگائے تو اودھم مچ جاتا ہے کہ دیکھیں کس طرح انسانی حقوق بالخصوص آزادی تحریر، تقریر کی نفی کی جا رہی ہے۔ عدالت نے الطاف حسین کی تقریریں اور بیانات شائع و نشر کرنے سے منع کیا تو بلاول بھٹو سمیت کئی سیاستدانوں اور ان کے ہمنوا تجزیہ کاروں نے ناک بھوں چڑھائی، پشتون تحفظ موومنٹ بھی بانی ایم کیو ایم کے نقش قدم پر چل رہی ہے مادر پدر آزادی کے علمبردار کسی قدغن کے حق میں نہیں مگر برطانوی عدالت کی پابندیوں کو سب شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ مصطفی کمال نے ایک بار کہا تھا الطاف حسین بیمار ضرور ہیں مگر اپنے جرائم کا حساب دیئے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائیں، ناممکن کہ یہ قانون قدرت کے منافی ہے۔ برطانوی پاسپور ٹ ملنے کے بعد بانی ایم کیو ایم اور ان کے پیروکاروں نے یہ یقین کر لیا تھا کہ اب وہ ہر طرح کے سنگین جرائم اور پاکستان دشمنی کے لئے آزاد ہیں اور کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا مگر تازہ پابندیوں کے بعد صاف نظر آ رہا ہے کہ لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرنے والے کواب پاکستان پر رحم آ گیا ہے، اس کا برا چاہنے والے ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور لندن بھی ان کے لئے جائے پناہ نہیں، جائے عبرت ہے۔ عروس البلاد کو یرغمال بنانے والا فرد ایسی پابندیوں کا شکار ہے جو اس نے کبھی سوچیں نہ اس کے نادان مگر سنگ دل پیروکاروں نے ؎
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!