جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر پر مخالفانہ ردعمل بھارت سے زیادہ پاکستان میں دیکھنے کو ملا۔ بھارتی میڈیا پر عمران خان کی تقریر کے ناقدین کو وہ مخالفانہ نکات تک نہیں سوجھے جو وزیر اعظم کے پاکستانی مخالفین نے ریگولر اور سوشل میڈیا پر اٹھائے، واقعی انسان تعصب اور تنگ نظری کے موذی مرض میں مبتلا ہو تو اُسے ایک شاہکار تقریر بھی لفظوں کی تکرار لگتی ہے۔ جن دانشوروں اور سیاستدانوں نے سوچ رکھا تھا کہ عمران خان خودکش جیکٹ پہن کر اقوام متحدہ کی عمارت میں داخل ہوں گے، ڈائس پر آتے ہی دونوں بازو ہوا میں لہرائیں گے اور پھٹ پڑیں گے ان کی مایوسی بجا ہے۔ عمران خان کی تقریر پر مخالفانہ دلائل سن اور پڑھ کر پتہ چلا کہ کچھ لوگوں کے نزدیک جنرل اسمبلی اکھاڑہ ہے جہاں سربراہان مملکت و حکومت کبڈی کھیلنے جاتے اور مخالفین کو کیمروں کے سامنے پچھاڑ کر، فاتحانہ واپس آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بس ایک ہی اعتراض کئے چلے جا رہے ہیں کہ عمران خان نے وہاں تقریر ہی تو کی، کون سا معرکہ مارا ہے، بعض تعصب کے ماروں، جہل خرد کے علمبرداروں کو نریندر مودی کی تقریر بہتر اور بامقصد لگی، جسے بھارتی دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے کم تر درجے کی انتخابی تقریر قرار دیا، جو عالمی فورم پر دہرانے کے قابل نہ تھی۔
92 نیوز کے پروگرام کراس ٹاک میں اینکر اسداللہ خان نے سوال کیا کہ ایک مسلم لیگی لیڈر کے مطابق تقریر تو عمران خان نے 30 اکتوبر 2011ء کو بھی عمدہ کی تھی، اب بھی کر لی مگر نتیجہ؟ میں نے عرض کیا کہ اکتوبر 2011ء کی تقریر کے آفٹر شاکس پاکستانی سیاست میں اب تک محسوس کئے جا رہے ہیں، اسی مشہور زمانہ تقریر کے بعد پاکستانی سیاست نے پلٹا کھایا تب کے حکمران آصف علی زرداری اور مدمقابل میاں نواز شریف جیل میں ہیں، صرف اکیلے نہیں، فریال تالپور، مریم نواز، حمزہ شہباز اور اپنے دیگر قابل اعتماد ساتھیوں سمیت۔ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ مینار پاکستان پر ہونے والی ایک سیاسی تقریراتنی موثر اور نتیجہ خیز تھی تو جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر سے نریندر مودی کو ڈرنا چاہیے نریندر مودی کہیں اپنے خاندانی دوست میاں نواز شریف کی طرح خوش فہمی میں نہ مارے جائیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا حقیقت یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کی تقریر اکتوبر 2011ء کی تقریر سے کہیں زیادہ مدلل، موثر اور فکر انگیز تھی۔ اُمہ اور کشمیری عوام کا دکھ درد اس میں جھلکتا تھا اور ہیوسٹن میں ٹرمپ و مودی کی اسلام و پاکستان مخالف تقریروں نے عمران خان کو مہمیز دی، جس تقریر پر بھارت میں چوٹی کا کوئی لیڈر، تجزیہ کار اور دانشور ڈھنگ سے تنقید نہ کر سکے، کیڑے نکالنا دور کی بات ہے اس پر مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو اور اس قماش کے سیاسی و مذہبی لیڈروں اور "عمرانو فوبیا "کے مہلک مرض میں مبتلا خود ساختہ دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی تنقید، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے سوا کیا ہے؟ ع
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
ریاست مدینہ سے الرجک عناصر ہوں یا توہین رسالت (ﷺ) کے سنگین اور غیر انسانی جرم پر اظہار رائے کی آزادی کا لیبل لگانے والے بدبخت، دونوں تقریر سے برافروختہ ہیں۔ بھارت کے شردھالو جہاد کشمیر سے خائف تھے، عمران خان کی سفارت کاری اور خطابت نے انہیں بدحواس کر دیا ہے، اسلامو فوبیا، جہادکشمیر اور بھارتی انتہا پسندی و ریاستی دہشت گردی کی تکرار اُن کے لئے سوہان روح ہے۔ شریف اور زرداری خاندان کے دسترخواں سے شکم کی پیاس بجھانے والوں کا دکھ سانجھا ہے۔ حیرت ان لوگوں پر ہے جو نظریات، آدرشوں اور فکر و فلسفے کا بھاشن دیتے اور تقریر کی تاثیر، معنویت اور افادیت سے انکار کرتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کو قائل کرنے، انسانی دل و دماغ پر اثرانداز ہونے، اپنی بات منوانے اورجیتے جاگتے انسانوں کو کسی اقدام پر آمادہ کرنے کا موثر ترین ہتھیار تقریر ہے اور یہ جوایک ارب تیس کروڑکلمہ گو، اتنے ہی بلکہ اس سے زائد مسیحی اورکچھ کم بدھ دنیا میں موجود ہیں، تقریروں اور خطبات، لفظ و معانی کے متاثرین ہیں، واقعہ کربلا کے بعد یزید ملعون کے دربار میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک تقریر نے جنگ کے فاتح کو رہتی دنیا تک مردود اور مظلوم خاندان کو اَبد الآباد تک زندہ جاوید کر دیا، قائد اعظم اور ان کے مخلص ساتھیوں کی موثر تقریروں اور خطبات کا ثمر قیام پاکستان کی صورت میں ملا اور انگریز کی عسکری قوت، ہندو کی ظالمانہ اکثریت کو شکست تسلیم کرنی پڑی۔ اگر جنرل اسمبلی میں تقریر کی کوئی اہمیت ہی نہیں تو امریکہ سمیت تمام ممالک کے سربراہان ہر سال وہاں کیا لینے جاتے ہیں اور ماضی میں ہمارے صدر، وزیر اعظم بشمول ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف علی زرداری کون سی توپ چلاتے رہے کہ عمران خان نہ چلا سکے، یہ البتہ درست ہے کہ تقریر دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے زبان و دہن کے چسکے اور شکم پروری و شکم پُری میں مددگار نہیں، یہ ذہنوں کو مسخر کرتی ہیں، پیٹ کے پجاریوں کے لئے باعث اطمینان بنی ہیں نہ بن سکتی ہیں۔
تقریر پر لایعنی اعتراضات کی بوچھاڑ کرنے والے کرم فرمائوں کو یہ بھی احساس نہیں کہ ستم رسیدہ کشمیری عوام کو وہ کیا پیغام دے رہے ہیں؟یہی کہ عمران خان کی تقریری کارگزاری سے خوش اور مطمئن ہونے کی ضرورت نہیں، وہ یو ٹرن اور لفاظی کا بادشاہ ہے اور کچھ کرنے کا ارادہ ہرگز نہیں رکھتا لہٰذا بہتر ہے اپنی جانیں، عزتیں گنوانے، کاروبار تباہ کرنے کے بجائے نریندر مودی کے سامنے کورنش بجا لائو اور مزاحمت کا راستہ ترک کر کے ہماری طرح دل و دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنا سیکھو نو نقد نہ تیرہ ادھار، پاکستان سے رشتہ کیا، لاالہ الااللہ کے نعرے سے تم لوگوں کاپیٹ بھر سکتا ہے، نہ آزادی کی نعمت سے سرے محل اور ایون فیلڈ کے فلیٹ تعمیر ہوں گے لیکن عمران خان کی ناکامی اب تحریک انصاف کی ناکامی نہیں پاکستان اور کشمیری عوام کی اس نسل کو مایوس اور بے بسی کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے جو ہرچہ باداباد کی پالیسی پر عمل پیرا، پاکستان کو بدلتے، کشمیر کو آزاد ہوتے دیکھنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر قربانی دینے پر تیار ہے۔ اپوزیشن کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کی تمام تر کوششوں اور دھمکیوں کے باوجود دھرنے کی تاریخ پر متفق ہے نہ پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے دستبردار ہونے پر آمادہ، مسلم لیگ (ن) عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے مگر اخلاقی جرأت کا یہ عالم ہے کہ وہ نواز شریف و مریم سمیت اپنے سرکردہ لیڈروں کی گرفتاری پر بطور احتجاج اسمبلیوں اور سینٹ کو خیر باد کہنے پر تیارنہیں۔ عمران خان ایک موثر تقریر کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ یہ سارے مل کر تو ایسی تقریر کے اہل نہیں جو قوم کے قلب کو گرما دے، روح کو تڑپا دے۔ جنرل اسمبلی میں بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری کی تقریریں ہوں یا کشمیر کمیٹی کے اجلاسوں میں مولانا فضل الرحمن کے خطبے سب کے سب بے مغز، منطق و استدلال سے عاری اور جذبات کی آمیزش سے قطعی مبرا، محض تکرار لفظی، بد ذوقی کا شاہکار۔ ایک تقریر سے بہت سوں کی خوش ذوقی، دانش، ترجیحات اور انصاف پسندی کا بھرم کھل گیا، عمران خان دنیا کو اسلاموفوبیا کے خوفناک نتائج سے آگاہ کرنے نیو یارک پہنچے، یہاں عمرانو فوبیا کا علاج کون کریگا۔