Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Islamophobia

Islamophobia

یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر زکریا ذاکر کا اللہ تعالیٰ بھلا کرے، "اسلامو فوبیا کا توڑ بذریعہ تعلیم" کے عنوان سے لاہور میں علمی سیمینار منعقد کر ڈالا اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ پنجاب بھر کی جامعات کے وائس چانسلرز، اساتذہ، دانشوروں چیدہ چیدہ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو سیمینار کی زینت بنا کر مجھ ایسے کم علم کو بہت کچھ سننے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ امریکہ کی افغانستان سے پسپائی کے بعد صاف نظر آ رہا ہے کہ نوّے کی دہائی کی طرح پاکستان اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی نئی لہر جنم لے گی، امریکہ اور اس کے اتحادی شکست کا ذمہ دار اپنی غلط سوچ، ناقص حکمت عملی، خبط عظمت کے مرض، موت سے خائف فوج اور زعم کبریائی کو قرار دینے کے بجائے خوئے بدرابہانہ بسیار کی دیرینہ روایت کے مطابق پاکستان پر ڈالیں گے یا پھر اسلام پر، 1980-90ء کی دہائی میں پورا عالم اسلام امریکہ کا اتحادی تھا اور سوویت یونین کے خلاف جنگ میں افغان عوام کے علاوہ جذبہ جہاد سے سرشار عرب وغیرعرب نوجوانوں نے شجاعت و استقامت کی تاریخ رقم کی مگر سوویت یونین کی پسپائی اور شکست و ریخت کے بعد امریکی انتظامیہ اور عسکری اداروں کی طوطا چشمی اور خود غرضی تورہی ایک طرف، وہاں کے سیموئیل پی ہنٹگٹن جیسے دانشوروں نے بھی Clash of civilizationکا راگ الاپنا شروع کر دیا جس کی تائید ہنری کسنجر، نکسن، ایل گور ایسے نامورسیاستدانوں نے بھی کی حالانکہ اس وقت تک امریکہ و مغرب اور مسلم ریاستوں کے مابین بظاہر کوئی عسکری و سیاسی تنازعہ تھا نہ کسی خطے میں مفادات کا براہ راست تصادم۔

"تہذیبوں کے تصادم" کا فلسفہ پروان چڑھا تو مسلمانوں کو قدامت پرست، بنیاد پرست اور انتہا پسند قرار دیا جانے لگا اور سانحہ 9/11کے ظہور سے برسوں قبل اسلام، مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کوبدنام کرنے کی مہم شروع ہو گئی، اس دور میں امریکی تھنک ٹینک پاکستان کی تین چار حصوں میں تقسیم، مشرق وسطیٰ کی نئی نقشہ کشی اور مسلم تہذیب و کنفیوشیس تہذیب کے ملاپ کا دعویٰ کرتے رہے جو تاحال ناقابل حصول خواہش ہے یا دیوانے کا خواب، اسلامو فوبیا نے بھی 9/11سے پہلے جنم لیا اور 9/11بھی حقیقتاً نقطہ آغاز نہ تھا، امریکہ اور یورپ میں پائیجانے والی مسلم مخالف سوچ، افغان مجاہدین سے طوطا چشمی اور بے وفائی اور سب سے بڑھ کر مسلم تہذیب کو مغربی تہذیب کے خلاف مستقبل کا خطرہ قرار دینے کی خطرناک روش کا فطری ردعمل تھا ع

پاتے نہیں جو راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

اب تو صوورتحال مزید گھمبیر ہے کہ افغانستان کے "قدامت پسند۔ بنیاد پرست" اور "سخت گیر" افغانوں نے جدید اسلحے، ٹیکنالوجی اور علم و فن سے لیس چار درجن اتحادیوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا، وال سٹریٹ جرنل نے امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ امریکہ اور یورپ نے اربوں ڈالر کی لاگت سے افغانستان میں جو سیاسی اور عسکری ڈھانچہ قائم کیا وہ افغان طالبان کے مقابلے میں بمشکل چھ ماہ برقرار رہ سکتا ہے پنجابی میں کہتے ہیں "ڈگی کھوتی توں، غصہ کمہار تے" امریکہ اور یورپ افغانوں کے ہاتھوں بدترین ہزیمت کا غصہ بھی اسلام اور مسلمانوں پر نکالیں گے کہ نام نہاد" عالمی برادری "کو سیاسی، عسکری اور نفسیاتی شکست سے دوچار کرنے والے بھی کلمہ گو اور اسلام کے نام لیوا ہیں۔

صلیبی جنگوں کو مسلمانوں نے بھلا دیا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صہیونیوں اور نصرانیوں کی نفرت ہمیں یاد نہ رہی، مگر ہمارے مخالفین کو ایک ایک شکست یاد ہے تبھی 9/11کے بعد افغانستان پر حملے کے ہنگام بش جونیئرز "کروسیڈ" شروع کرنے کا اعلان کیا یعنی مسلمانوں کے خلاف مقدس جنگ۔ بغداد، سپین، خراسان، ترکی اور ہندوستان میں قائم ہونے والی مسلم ریاستوں بلکہ عظیم خلافتوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق یہود و نصاریٰ کو گلے لگایا، غیر مسلموں کے انسانی حقوق کی پاسداری کی، جب روس یہودیوں کو شکستہ کشتیوں میں بٹھا کر سمندر کی لہروں کی نذر کر دیتا اور جرمنی و آسٹریا میں ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا تو خلافت عثمانیہ انہیں ریسکیو کرتی اور پناہ دیتی مگر یہ شرارتیں شروع کر دیتے، سپین میں مسلم خلیفہ نے ایکیہودی سیاستدان کووزیر مقرر کیا تو اس نے پہلی فرصت میں اپنے زیر نگرانی اداروں میں یہودی ملازمین کی برطرفی کا پروانہ جاری کیا کہ یہ شرارتی لوگ ہیں کارسرکا میں روڑے اٹکاتے ہیں۔

1897ء میں پہلی صیہونی کانگریس منعقد ہوئی جس میں اسرائیل کے قیام کا منصوبہ تھیوڈر ہرزل نے پیش کیا تو خلافت عثمانیہ میں کہیں بھی یہودی زیر عتاب نہ تھے، سیمینار میں ایک مقررّ نے درست کہا کہ اسلامو فوبیا کا علاج یہ ہے کہ مسلمان امریکہ و یورپ کو علم و دانش اور عسکری قوت و صلاحیت سے مرعوب کریں، اسلام اور مسلمانوں کا خوف بڑھے گا تو اسلامو فوبیا میں اضافہ ہو گا لیکن اس سے امہ کو کسی قسم کا نقصان نہ ہو گا کہ کسی قوم کے لئے اصل نقصان دہ خودی اور خودداری میں کمی اور اپنی ملّی شناخت سے محرومی ہے، سافٹ امیج کے شوق میں اپنی اقدار و روایات سے دستبرداری اور غیروں کی نقالی وہ مرض ہے جس نے اُمہ کو بحیثیت مجموعی زیر اور مخالفین کو شیر کر دیا، احساس کمتری انسان کو قوت عمل سے محروم اور اصل ہدف سے دور کر دیتا ہے، ہدف کے بغیر زندگی بسر کرنے والی قوم بیگانوں کے لئے نرم چارہ ہوتی ہے اور یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے۔

آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف، غنیمت ہے کہ ایک قلیل گروہ نے محض جذبہ ایمانی اور غیرت ملّی کے بل بوتے پر طاقت و قوت کے سب سے بڑے بُت کو پاش پاش کیا اور فرمان الٰہی کی صداقت ظاہر کی کم من فئتہ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ، اس موقع پر پاکستان کی حکمرانی پر بھی وہ لوگ قابض نہیں جو دولت کے پجاری اور مغرب سے مرعوب ہوں، مغربی اقدار کے دلدادہ اور خود بینی اور خود نگری کے وصف سے عاری۔ دوسروں کا آموختہ دہرانے والے دانشوروں اور غیروں کی چاکری کے شوقین حکمرانوں نے مسلم اُمہ کو ذلت و رسوائی سے دوچار کیا اور اسلامو فوبیا کا توڑ اپنی اور اپنی قوم کی نیک چلنی کے ذریعے کرنا چاہا کہ روشن خیال جدیدیت، سافٹ امیج اور ترقی پسندانہ سوچ کے نعرے بنیادی طور پر ہمارے احساس کمتری کا مظہر ہیں اور اسلامو فوبیا مغرب کے اندرونی خوف کی علامت، علاج اس خوف کا فائدہ اٹھانے میں ہے، کم یا ختم کرنے میں نہیں ؎

نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائیگا

عصا اٹھائو کہ فرعون اسی سے جائیگا

ڈاکٹر زکریا ذاکر کا شکریہ، انہوں نے تعلیمی شعبے کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran