31 اکتوبر دور نہیں، اکرم درانی، مولانا مفتی کفائت اللہ اور دیگر رہنما اب تک دھرنے اور لاک ڈائون کو حتمی قرار دے رہے ہیں مگر مولانا فضل الرحمن قومی و بین الاقوامی میڈیا اور مغربی سفارت کاروں کے روبرو صرف لانگ مارچ کی بات کر رہے ہیں۔ دھرنے اور لاک ڈائون کو وہ میڈیا کی اختراع قرار دیتے ہیں، مولانا عبدالغفور حیدری نے حکومتی ترجمان کی طرف سے لانگ مارچ کی مشروط اجازت دینے کے بیان پر محتاط ردعمل دیا، کہا کہ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر لانگ مارچ کریں گے، دھرنا اور لاک ڈائون کے ذکر سے گریز کیا۔ حکومتی ترجمان اور مولانا عبدالغفور کے بیان کو ملا کر پڑھا جائے تو سیدھا سادہ مطلب یہی نکلتا ہے کہ دونوں فریق ایک ایسے پرامن لانگ مارچ پر متفق ہیں جو اسلام آباد میں بے ضرر جلسے پر ختم ہو، چند تقریریں، استعفیٰ کا مطالبہ اور پھر گھروں کو روانگی۔ رہا دھرنا تو دونوں کی لغت اور ایجنڈے میں تھا، ہے، نہ ہو گا۔
افغانی قالین فروش جب دس ہزار روپے نرخ بتا کر اپنا قالین دو سوروپے میں فروخت کرتا ہے تو بیو پاری اور خریدار دونوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، ایک اپنی چیز بیچنے پر خوش اور دوسرا دس ہزار کی چیز دو سو روپے میں خریدنے پر خورسند۔ کوئی قالین فروش کو ملامت نہیں کرتا کہ وہ اپنے نرخ پر قائم نہیں رہا اور خریدارکو بھی نہیں کہتا کہ وہ لٹ گیا۔ یہی ون، ون (Win Win) پوزیشن ہوتی ہے۔ مولانا کے بعض عقیدت مندوں کا خیال ہے کہ مولانا کی تیاریاں اور عزم دیکھ کر حکومت گھبرا گئی، چاروں صوبوں سے لاکھوں افراد کو روکنا اس کے بس میں نہ تھا۔ لانگ مارچ کی اجازت دینے پر مجبور ہوئی۔ ایک بار مولانا کولشکر لے کر اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچنے دیں، پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ وہ عمران خان کا استعفیٰ لے کر ہی ٹلیں گے، صرف عمران خان ہی نہیں، بہت کچھ اور بھی الٹ پلٹ دیں گے۔ اگر اس تھیوری کو درست مان لیا جائے تو پھر اُمید رکھنی چاہیے کہ جس اجلاس میں وزیر اعظم نے مذاکراتی کمیٹی سے طویل مشاورت کے بعد پرامن لانگ مارچ کی اجازت دی اس میں لامحالہ اپنا استعفیٰ بھی مذاکراتی کمیٹی کے حوالے کیا ہو گا تاکہ مولانا جلسے کے اختتام پر اپنے سامعین کو دکھا کر انہیں خوشی خوشی گھر جانے کی تلقین کر سکیں۔ اسلام آباد میں کسی ہنگامہ آرائی کا خدشہ باقی نہ رہے، کہنے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جن قوتوں کے اشارے پر مولانا نے لانگ مارچ کا پروگرام ترتیب دیا انہی کے دبائو پر وزیر اعظم نے لانگ مارچ کی اجازت دی لیکن ان سازشی کہانیوں میں جھول یہ نظر آتا ہے کہ اگر آصف علی زرداری میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو لانگ مارچ کی کامیابی اور دھرنے کے وقوع پذیر ہونے کا ایک فیصد چانس بھی نظر آتا تو وہ یوں لاتعلق نہ ہوتے، میاں شہباز شریف نے تو نواز شریف کی ناراضگی مول لے لی، دھرنا درکنار، لانگ مارچ میں شرکت پر آمادہ ہوئے نہ لاہور میں مولانا فضل الرحمن کی پذیرائی اور استقبال پر تیار۔ تقاضائے ادب ہے کہ برادر بزرگ اور حضرت مولانا سے کہہ نہیں پائے ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں مُلّا ہوں غازی
حکومت اور جمعیت علماء اسلام کے مابین انڈر سٹینڈنگ یہ نظر آتی ہے کہ مولانا بھر پور جلسے میں ملکی اور بین الاقوامی معاملات، مشرقی، مغربی سرحدی صورتحال اور عوام کو درپیش مشکلات کا تذکرہ کر کے سامعین کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ رکھیں گے، جس میں وزیر اعظم کا استعفیٰ سرفہرست ہو گا، حکمرانوں کو وارننگ دیں گے کہ اگلے سال کی فلاں تاریخ تک یہ فہرست من و عن نہ مانی گئی تو اس سے دوگنے بلکہ چوگنے لوگ لے کر وہ پھر اسلام آباد پہنچیں گے اور اس وقت تک بیٹھ رہیں گے جب تک مطالبات مان نہیں لئے جاتے۔ ظاہر ہے اس پر حکومت کو اعتراض نہ اسٹیبلشمنٹ کو انکار، اس کے برعکس اگر لانگمارچ کے نام پر قانون شکنی ہوئی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو پائوں تلے روندا گیا، تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بہانے سازو سامان سے لیس کارکنوں کو اسلام آباد پہنچانے کی سعی ہوئی اور علماء کرام کی جماعت وعدہ خلافی کی مرتکب پائی گئی تو پھر ریاست ایکشن میں آزاد ہو گی، تحریک لبیک سے پہلے بھی کچھ مذہبی و سیاسی عناصر وعدہ خلافی اور اپنی طے شدہ حدود سے تجاوز کی سزا بھگت چکے اور اب تک اپنے زخم سہلا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے، ان کی بیماری کے سبب مسلم لیگی کارکن اور لیڈر تو ویسے بھی مولانا کے شریک سفر ہونے سے رہے، یہی حال پیپلز پارٹی کاہے، اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کی شرکت عدم شرکت برابر ہے۔ تین میں نہ تیرہ میں۔ اکیلے مولانا کے مذہبی کارکنوں کا اسلام آباد میں اجتماع اگر غیر ملکی سفارتی نمائندوں اور میڈیا کو کرائی گئی یقین دہانیوں کے برعکس ہوا اور سعودی عرب کا دوستانہ مشورہ نہ مانا گیا تو ریاست بھر پور قانونی ایکشن میں حق بجانب ہو گی۔ جس کا احساس و ادراک مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ہے، اکرم درانی مفتی کفائت اللہ، اسماعیل بلیدی اور دیگر رہنمائوں کوشائد نہیں۔ ریاست کے اہم ادارے لانگ مارچ اور دھرنے کے مقاصد سے پوری طرح آگاہ ہیں، ٹائمنگ کے حوالے سے فکر مند اور سپانسر شپ پر حیران۔ فاٹا کے انضمام پر ایک سیاسی رہنما نے کس ملک سے کتنی رقم وصول کی، انہیں معلوم ہے اور لانگ مارچ و دھرنے کی کامیابی سے کہاں کہاں جشن کا سماں ہو گا وہ جانتے ہیں، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ حتیٰ کہ ان سینیٹر صاحب کی سرگرمیاں بھی الم شرح ہیں، جن کے اسلام آباد میں " گہرے رابطوں" نے مولانا کو ڈی چوک کی راہ دکھائی اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری کے تعاون سے ان ہائوس تبدیلی اور من پسند قومی حکومت کے قیام کا خواب دکھایا۔ حکومت کے ترجمان اور مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان کو ملا کر پڑھا جائے تو پرامن لانگ مارچ یقینی اور دھرنا ناممکن نظر آتا ہے مگر پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے، مولانا فضل الرحمن پوری ریاستی مشینری کو چکمہ دے کر ڈی چوک پہنچتے اور دھرنا دیتے ہیں؟ یا جلسہ کے بعد پُرامن منتشر ہو جاتے ہیں؟ 31 اکتوبر دور نہیں۔