Jo Chahe Aap Ka Husn Karishma Saaz Kare
Irshad Ahmad Arif92 News944
یہ جذبہ حب الوطنی نہیں، تعصب، تنگ نظری، ناعاقبت اندیشی اور شرانگیزی ہے، حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کی اہلیت و صلاحیت زیر بحث ہے نہ ان کی دیانت و امانت پر کسی کو شک، یہ دونوں آئی ایم ایف میں کام کرتے رہے لہٰذا گردن زدنی ہیں، سبحان اللہ۔ گویا جو پاکستانی اپنی محنت، اہلیت، لیاقت، صلاحیت اور ساکھ کی بنا پر کسی عالمی ادارے میں اعلیٰ منصب پر پہنچ جائے، بین الاقوامی سطح پر معتبر ٹھہرے، ریاست پاکستان کو اس کی قابلیت سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں۔ صرف پرلے درجے کے غبی اور کنوئیں کے مینڈک ہی ہماری قسمت میں لکھے گئے ہیں۔ 1990ء تک بھارتی معیشت پاکستان کے مقابلے میں سست روی کا شکار تھی اور اس پر دنیا بھر میں "ہندو گروتھ ریٹ" کی پھبتی کسی جاتی۔ مقصد یہ جتلانا ہوتا کہ پاکستان کی معاشی نمو مسلمان گھرانوں کی شرح پیدائش کی طرح تیز اور زیادہ ہے جبکہ بھارتی معیشت سست اور کم ہے۔ 1991ء میں بھارت کساد بازاری کا شکار ہوا، اقتصادی و معاشی بحران نے جنم لیا تو وزیر اعظم نر سمہا رائو نے انقلابی قدم اٹھایا اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر خزانہ مقرر کر دیا، ڈاکٹر من موہن سنگھ اقوام متحدہ میں کانفرنس آف ٹریڈ ڈویلپمنٹ(UNCTD) میں خدمات انجام دے چکے تھے اپوزیشن نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ٹیکنو کریٹ قرار دے کر تنقید کی اورکانگریس میں بھی بھر پور مزاحمت ہوئی مگر من موہن سنگھ نے کسی کی پروا کئے بغیر اقتصادی و معاشی ڈھانچے میں ادارتی اصلاحات سے بھارت کی تقدیر بدلی اور ایک وقت آیا کہ ان کی انتظامی و معاشی صلاحیتوں کے اعتراف میں کانگریس نے انہیں ملک کا وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ جواہر لال نہرو کے بعد یہ پہلے وزیر اعظم تھے جو اپنی ٹرم پوری کرنے کے بعد دوبارہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ پاکستان میں محمد شعیب، ڈاکٹر محبوب الحق اور شوکت عزیز عالمی مالیاتی اداروں کی ملازمت چھوڑ کر وزیر خزانہ بنے اور اقتصادی و معاشی شرح نمو کو آٹھ فیصد سے اوپر لے گئے۔ محمد شعیب کے دور میں یہ شرح دس فیصد سے زائد رہی جبکہ ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف خان، اسحق ڈار، سلیم مانڈوی والا اور مفتاح اسمٰعیل معروف معنوں میں میڈ ان پاکستان وزیر خزانہ تھے۔ ان کے ادوار میں معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہوئی وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن قابل احترام شخصیت ہیں مگر اسحق ڈار پر تو منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات لگے اور وہ ان الزامات کا سامنا کرنے کے بجائے مفرور ہیں۔ یہی حفیظ شیخ جب پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خزانہ بنے تو بلاول بھٹو اور رضا ربانی کو آئی ایم ایف کا غلبہ نظر آیا نہ شیری رحمان بولی اور نہ مسلم لیگی قیادت کو دردزہ نے بے چین کیا رضا باقر سے پہلے ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹرعشرت حسین، سلیم رضا، یاسین انور اور اشرف وتھرا بھی عالمی مالیاتی اداروں کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان آئے اور سٹیٹ بنک کے گورنر بنے مگر اعتراض صرف رضا باقر پر ہے کہ اس کا تقرر عمران خان نے کیا اور شائد یہی حفیظ شیخ اور رضا باقر کا اصل قصور ہے۔ عمران خان نے ابتدائی ٹیم خوب چھان پھٹک کرنہیں بنائی، آٹھ ماہ سوچ بچار میں ضائع کر دیے، غلط کیا، حفیظ شیخ اور رضا باقر سے بہتر لوگ ملک میں موجود تھے بوجوہ انہیں درخور اعتنا نہ سمجھا، سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور ان لوگوں کو اٹھانا چاہیے جو ملکی معیشت کی بہتری اور عمران خان کی کامیابی چاہتے ہیں مگر یہ اعتراض کہ دونوں ٹیکنو کریٹ، غیر منتخب اور عالمی اداروں کے ساتھ عرصہ دراز سے وابستہ ہیں؟ شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔ اپوزیشن اگر حفیظ شیخ اور رضا باقر کو اس الزام میں چارج شیٹ کرے کہ ماضی میں انہوں نے کسی مرحلے پر قومی مفادات کے خلاف کام کیا، امریکہ یا اس کے گماشتہ عالمی اداروں کے ایجنٹ کا کردار نبھایا اور جہاں جہاں انہیں ذمہ داری سونپی گئی، وہ ناکام رہے تو عوام تنقید پر کان دھریں گے۔ سعودی عرب میں حفیظ شیخ اور مصر میں رضا باقر کی حکمت عملی، کارگزاری کو وہاں کی حکومتوں اور عالمی اداروں نے ناقص اور دشمن قرار دیا تو سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے اورہمارے عوام کو علم ہونا چاہیے مگر شورفقط یہ مچا ہے کہ دونوں آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں، آئی ایم ایف کی فرمائش پر تعینات ہوئے اور پاکستان کے منتخب حکمرانوں کے علاوہ قومی مفادات کے حوالے سے غیر معمولی طور پر حساس اداروں قومی عزت و عظمت اور اقتدار اعلیٰ پر سمجھوتہ کرتے ہوئے یہ ڈکٹیشن قبول کر لی۔ جھوٹ بولے کوا کاٹے۔ پاکستان کی بیورو کریسی کو ہم نے اس مفروضے پر تباہ کر دیا کہ یہ انگریز نے اپنے نوآبادیاتی نظام کی بقا و استحکام کے لئے تیار کی تھی اور ہم اسے عوام کی خادم بنانا چاہتے ہیں۔ بیورو کریسی نے عوام کا خدمت گار تو خیر کیا بننا تھا۔ عوامی خدمت کا نعرہ لگا کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والوں نے اسے ذاتی غلام بنا کر میرٹ، اہلیت، صلاحیت اور دیانت و امانت کا کباڑہ کر دیا۔ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ بنتے ہی سردارعطاء اللہ مینگل نے پنجاب سے تعلق رکھنے والی ساری بیورو کریسی کو صوبہ بدر کر دیا غلام مصطفی کھر سمجھاتے ہی رہ گئے کہ مقامی اہلکار صوبہ چلانیکی اہلیت نہیں رکھتے، وہ دن اور آج کا دن صوبہ مقامی وڈیروں جاگیرداروں اور سرداروں کی چراگاہ ہے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال کے بقول ترقیاتی فنڈز کا ستر فیصد ارکان اسمبلی، بیورو کریٹس اور وزیروں مشیروں کی جیب میں چلا جاتاہے۔ مقامی عصبیت کی بنا پر بی ایل اے اور دوسری علیحدگی پسند تنظیمیں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، انجینئروں، بیوروکریٹس کو تہہ تیغ کر کے تنگ نظر طبقے سے داد پاتی ہیں جبکہ عوام تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔ پاکستانی جوہر قابل جہاں ہے جس منصب پر ہے ہمارا قومی اثاثہ ہے ڈاکٹر محبوب الحق کو ہمارے مفاد پرست جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے ملک سے بھگا دیا کہ وہ زرعی ٹیکس، سیلز ٹیکس اور پروفیشنل ٹیکس کی بات کرتا تھا۔ ایک ایسا ماہر معاشیات جس نے پائیدار ترقی کا تصور پیش کر کے عالمی ایوارڈ حاصل کیا، پاکستان کی بدمعاشیہ نے قبول نہ کیا، جونیجو صاحب نے اس کی جگہ یاسین وٹو مرحوم کو وزیر خزانہ بنایا جن کا معاشی علوم سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا ایڈم سمتھ کاپاکپتن سے۔ منتخب لوگوں کو وزیر خزانہ بنانے کا تجربہ کم از کم پاکستان میں تو ناکام رہا اقتصادی و معاشی شعبے کی پیچیدگیوں سے نابلد، ارکان اسمبلی کے زیر اثر اور عوام میں مقبول ہونے کے خواہش مند یہ وزراء خزانہ صرف وزیر اعظم کی خوشنودی اور اگلے الیکشن کا سوچتے ہیں ملک اورقومی معیشت جائے بھاڑ میں۔ حفیظ شیخ اور رضا باقر بھی اگر ڈلیور نہیں کر پاتے تو یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہو گی لیکن انہیں مناسب وقت دیے اور نتائج دیکھے بغیر ظالمانہ تنقید حب الوطنی نہیں، تعصب، تنگ نظری اور ناعاقیت اندیشی ہے۔ عمران خان کی حکومت ٹیکسوں اور بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ بھی نہ لے اور ملک میں دودھ، شہد کی لہریں بہا دے، یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ ۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی نے اربوں ڈالر قرضہ لیا جس کی ادائیگی موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ملک کو اربوں ڈالر کا مقروض کرنے والے حکمران اور وزراء خزانہ پاکستان کے خیر خواہ تھے، محب وطن اور غیرت مند و خودمختار، مگر ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہاتھ پائوں مارنے والے عمران خان، حفیظ شیخ اور رضا باقر امریکہ و آئی ایم ایف کے گماشتہ ہیں، یہ پاکستان کو ایک بار پھر چین کے حلقہ ارادت سے نکال کر امریکی غلامی میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ سبحان اللہ پاکستان نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ مجرم، مفرور اور نالائق ہمیں پسند اور لائق، دیانتدار اور جذبہ خدمت سے سرشار گردن زدنی۔ خرد کانام جنوں پڑ گیا جنوں کا خردجو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے