قدرت موقع ہر ایک کو عطا کرتی ہے، بھر پور فائدہ سب نہیں اٹھاتے، قدرت کا اشارہ سمجھنے والے فائدے میں رہتے ہیں۔
2014ء میں ایک سو چھبیس دن کے دھرنے سے تحریک انصاف کا جان چھڑانا مشکل ہو گیا تھا۔ تذبذب سے عمران خان دوچار تھے ڈاکٹر طاہر القادری سیانے نکلے، پہلے ہی حالات کا رخ بھانپ کر بھکر میں ہونے والے ایک ضمنی انتخاب میں مصروف ہو گئے، ایک موقع دونوں کو قدرت نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی صورت میں فراہم کیا تھا، فائدہ نہ اٹھا سکے، اب کسی طرف سے فیس سیونگ کی توقع تھی نہ یکطرفہ طور پر دھرنا ختم کرنے کا حوصلہ۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ اے پی ایس کا المناک واقعہ ہوا عمران خان اور اس کے قریبی ساتھیوں نے مشاورت کی اور پشاور روانگی سے قبل دھرنا شہدا اے پی ایس کے سوگ میں ختم کر دیا گیا۔ خواجہ آصف جیسے بے رحم مخالفین مذاق اڑانے کی پوزیشن میں تھے نہ میاں نواز انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی کمشن کے قیام سے انکار کرنے کے قابل۔ باقی تاریخ ہے۔
لیاقت پور کے قریب ریلوے حادثہ نے پوری قوم کو تڑپا دیا ہے۔ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لئے رائیونڈ جانے والے کئی درجن باریش کلمہ گو افراد اور دیگر معصوم مسافر ریلوے انتظامیہ اور چند مسافروں کی غیر ذمہ داری، غفلت اور بے احتیاطی کی بھینٹ چڑھ گئے ہر درد مند دل دکھی اور نرم دل انسان اشکبارہے، اللہ تعالیٰ ایسی ناگہانی موت سے محفوظ رکھے۔ موجودہ حکومت سے توقع تھی کہ یہ اداروں کو ٹھیک کرے گی اور انسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی مگر ہنوز دلی دور است، ریلوے حادثات بدستور جاری ہیں اور اب تک کسی بڑے کو سزا نہیں ملی جو عمران کا وعدہ تھا۔ پاکستان کے عوام ابھی اتنے خوش قسمت کہاں کہ کسی واقعہ کی ذمہ داری قبول کر کے وزیر استعفیٰ دے اور اعلیٰ افسران کو قرار واقعی سزا ملے۔
ریلوے سانحہ میں زیادہ تر تبلیغی جماعت کے ارکان جاں بحق ہوئے جو رائیونڈکے اجتماع میں شرکت کے لئے گھروں سے نکلے تھے، بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان مسافروں کی اگلی منزل اسلام آباد تھی، جہاں وہ مولانا کے دھرنے میں مذہبی خشوع و خضوع سے شرکت کرتے، دونوں صورتوں میں مولانا فضل الرحمن کی نیک مقصد کے لئے گھروں سے نکلنے والے ان مسافروں سے ہمدردی غیر معمولی ہونی چاہیے۔ آزادی مارچ سے مولانا فضل الرحمن نے اپنے آپ کو سیاست کا اہم کھلاڑی ثابت کر دیا ہے یہ کامیابی کم نہیں کہ ان کے مارچ میں شرکاء کی تعداد میاں نواز شریف کے جی ٹی روڈ سے زیادہ ہے جو موصوف نے مقبولیت کے زعم میں راولپنڈی سے لاہور تک کیا، حکومتی وسائل، میڈیا کی سپورٹ اور منتخب ارکان اسمبلی کی تمام تر جدوجہد کے باوجود مسلم لیگ (ن) جی ٹی روڈ پر اتنے لوگ اکٹھے نہیں کر پائی جو مولانا سندھ اور بلوچستان سے لے کر نکلے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) نے آزادی مارچ سے جو سلوک روا رکھا، وہ غیرت مند پشتون اور مذہبی رہنما کے طور پرمولانا کو زندگی بھر یاد رہے گا۔ کسی بڑے لیڈر نے کہیں استقبال کیا نہ چند قدم ساتھ چلنے کی زحمت گوارا کی، عمومی تاثر یہی ہے کہ دونوں جماعتوں نے آزادی مارچ سے جو فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا، مولانا نے تندور گرم کیا، شریف خاندان نے فی الفورروٹی لگا لی، نواز شریف کو آٹھ ہفتے بعد ضمانت کے لئے عثمان بزدار کی ضرورت پڑ سکتی ہے لہٰذا مسلم لیگ مارچ سے بیگانہ، اسٹیبلشمنٹ کو باور کرارہی ہے ہم اچھے بچوں کی طرح آپ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں، مولانا اور ان کے مارچ سے ہمارا لینا دینا نہیں، لاہور میں تو کمال ہو گیا پرویز رشید، پرویز ملک اور آصف سعید کرمانی کی سطح کے کسی لیڈر نے بھی شرکت گوارا کی نہ میاں نواز شریف نے چند منٹ مزاج پرسی کا وقت دیا۔ مسلم لیگ(ن) کے حامی دانشور، صحافی اور تجزیہ کار تبّرا میاں شہباز شریف پر تول رہے ہیں، ملاقات سے انکار قائد انقلاب میاں نواز شریف فرما چکے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
احسن اقبال اور مریم اورنگزیب نے 31 اکتوبر کا جلسہ ملتوی ہونے کا اعلان کیا تو جمعیت علماء اسلام اور اے این پی نے فوری تردید کی۔ مسلم لیگی لیڈروں نے التوا کے اعلان کورہبر کمیٹی کا فیصلہ قرار دیا مگر مولانا فضل الرحمن، عبدالغفور حیدری، اسفند یار ولی اور زاہد خان نے رہبر کمیٹی کے کسی اجلاس یا باہمی مشاورت سے انکار کیا۔ اسفند یار ولی نے اسلام آباد پہنچ کر مسلم لیگ(ن) پر طنز کیا کہ کوئی اور پہنچے نہ پہنچے ہم اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب جلسہ کر کے واپس چلے جائیں گے بار بار کے طعنوں سے تنگ آ کر بلاول بھٹو نے بھی جلسے میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی قیادت نے مسلم لیگی فیصلے کی لاج رکھی، جس کو فی الحال وہ لانگ مارچ ناکام کرنے کی سازش اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی حکمت عملی قرار دے رہی ہے تو آج اسفند یار ولی اور بلاول بھٹو دستیاب نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن میں تفریق و انتشار کا بھانڈہ پشاور روڈ پر پھوٹ جائے گا۔ اور مولانا اپنے کارکنوں کے ساتھ اکیلے رہ جائیں گے۔ مولانا کے سامنے راستے دو ہیں قانون کو ہاتھ میں لے کر مضطرب و مشتعل کارکنوں کے جذبات کی تسکین کریں یا اس معاہدے کی پاسداری جو جمعیت کی قیادت حکومت سے کر چکی ہے۔ اہل مذہب وعدوں کی پاسداری نہ کریں، دل مانتا نہیں مگر پنجابی کا محاورہ ہے، مجبورعورت گھر میں بسنا چاہتی ہے، محلے کے نوجوان بسنے نہیں دیتے۔ مولانا تو سیاسی زندگی میں کبھی تصادم اور محاذ آرائی کے حامی نہیں رہے، اے پی ڈی ایم بننے کے بعد انہوں نے میاں نواز شریف اور قاضی حسین احمدکے مشوروں کو ٹھکرا کر پرویز مشرف کو صدر بننے میں مدد دی جس کا فائدہ اٹھا کر میاں نواز شریف نے بھی عمران خان، قاضی حسین احمد اور محمود اچکزئی کو بائیکاٹ کا چکمہ دیا، الیکشن میں کود گئے اور پنجاب میں حکومت بنا لی۔ تینوں اتحادی میاں صاحب کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر آپریشن کے موقع پر مولانا پتلی گلی سے نکل لئے اور ان کے ہم مسلک علماء و طلبہ منہ دیکھتے رہ گئے۔ اب مگر بعض سیاسی و صحافتی نابغے بغض عمران میں ریاست سے ٹکرانے اور ایک ساتھ دو استعفے کا مطالبہ منوانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اگر مولانا ہر صائب مشورے کو ٹھکرا کر چند ہزار کارکنوں کے ساتھ پشاورموڑ پر بیٹھ گئے تو یہ اندیشہ موجود ہے کہ کسی وقت یہ مجمع بے قابو ہو کر اپنی حدود سے تجاوز کرے اور ڈی چوک جا کر قوت و طاقت دکھانے کے شوق میں ریاست سے ٹکرا جائے۔ نتیجہ جو بھی نکلے مولانا، جمعیت علماء اسلام ان کے ہم مسلک مدارس اورجمہوریت کے لئے ہرگز خوشگوار نہ ہو گا۔ تباہ کن اور باعث رسوائی۔
قدرت نے سانحہ لیاقت پور کی صورت میں انہیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ نماز فجر یا جمعہ کی ادائیگی کے بعد ریلوے حادثہ کے شہدا کے حق میں دعا کریں اور ان کے سوگ میں دھرنا یا اجتماع کو منسوخ کرنے کا اعلان فرمائیں یہ اعلان بھی کریں کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان گھروں میں تعزیت کے لئے جائیں گے جن کے سربراہ خالق حقیقی کو جا ملے، خدا توفیق دے تو دھرنے، لانگ مارچ اور اجتماع کے اخراجات سے بچ جانے والی کروڑوں کی رقم وہ ان غریبوں کے لواحقین کے لئے وقف کر سکتے ہیں جو ناگہانی موت کا شکار ہوئے۔ اظہار یکجہتی کے اس مظاہرے پر وہ لوگ بھی مولانا کے حق میں کلمہ خیر کہنے پر مجبور ہوں گے جو ان کے سیاسی مخالف اور اس سرگرمی کو مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔ کون سنگدل ہو گا جو ایک عالم دین کے اس جذبہ رحمدلی اور انسان دوستی کی قدر نہ کرے۔ قدرت کے فراہم کردہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا مولانا کے اختیار میں ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔