Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Mauqa

Mauqa

کرونا وائرس نے انسان کو ایک بار پھر سوچنے کا موقع دیا ہے ؎

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

یہ اللہ وحدہ لا شریک تھا جس نے تہذیب و تمدن، سائنس و ٹیکنالوجی کے تصور سے نا آشنا انسان کو چاروں طرف پانی سے گھری زمین پر زندہ رکھا، زندہ رہنے کا گر سکھایا، خداداد عقل کو بروئے لا کر تسخیر کائنات(سائنس و ٹیکنالوجی پر دسترس)کا حوصلہ دیا اور قوانین قدرت پر کاربند رہنے کے فوائد بتلائے۔ سائنس کی ترقی، سائنس دانوں کی خدمات اور ان کے طفیل انسانوں کو کرۂ ارض پر میسر آسائشات کا اعتراف واجب۔ یہ لا متناہی انسانی ریاضت کا ثمر ہے اور شکر گزاری لازم، اللہ تعالیٰ اپنے اور عالم انسانیت کے محسنوں کے شکرگزار بندوں کو پسند کرتا ہے۔ فرمایا:" ولئن شکرتم لا زیدنکم"(اگر تم شکر کرو گے تو نعمتوں میں اضافہ ہو گا) اور یہ بھی "من لم یشکرالناس لم یشکراللہ" (جوشخص اپنے محسن انسان کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہیں)۔

کرونا وائرس یہ احساس دلا رہا ہے کہ انسان خالق حقیقی کو بھول کر سائنس و ٹیکنالوجی کو خدا سمجھ بیٹھے، صرف اس پر بھروسہ کرنے لگے تو سرکشی اور بغاوت کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ جو ابتلا و آزمائش سے دوچار کرتا ہے۔ ایک معمولی جرثومے کے سامنے عالم انسانیت کی بے بسی، موت کا ڈر، بھوک کا خوف، دستیاب آسائش چھن جانے کا غم، یاد دہانی ہے کہ وہ ذات یکتا جب چاہے امیر و غریب، طاقتور و کمزور، عالم و جاہل اور ترقی یافتہ اور پسماندہ سب کو ایک صف میں کھڑا کر دے ؎

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

دنیا بھر میں انسان کو کرونا سے بچائو کے لیے تخلئیے(Isolation) پر آمادہ کیا جا رہا ہے اور وہ لوگ بھی رضا کارانہ تخلئیے پر مجبور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی اس عادت کا مذاق اڑاتے، عملی زندگی کے حقائق سے فرار قرار دیتے ہیں۔ باقی دنیا کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی ایک ایک کر کے سرکاری، کاروباری ادارے، شاپنگ مالز، ریستوران اور کلبز بند ہو رہے ہیں اور کاروباری سرگرمیوں کو رات کے پہلے پہر تک محدود کیا جا رہا ہے حقیقت پسندی کا تقاضہ ہے کہ یہ سرگرمیاں ترقی یافتہ اور مہذب دنیا کی طرح چھ سات بجے تک محدود کر دی جائیں کہ پیسہ کمانے کی مشینیں شام اپنے بہن بھائیوں، بیوی بچوں کے ساتھ گزار کر سکون اور مسرت کے ان لمحات سے لطف اندوز ہو سکیں جنہیں عرصہ دراز سے انہوں نے خود تیاگ رکھا ہے۔ ہمارے بال بچوں، بھائی بہنوں کو صرف پیسوں ٹکوں نہیں ہماری صحبت، مہر و محبت اور پیار بھرے بولوں کی بھی ضرورت ہے۔ تیس پینتیس سال پہلے تک پاکستان میں بھی امریکہ اور یورپ کی طرح بازار چھ سات بجے بند ہو جایا کرتے تھے اور ماں باپ اپنے پیارے پیارے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیں لگاتے، پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھتے یا پھر سینما ہالوں، پارکوں وغیرہ میں دو تین گھنٹے گزار کر جسم اور دماغ کی تھکاوٹ دور کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں نماز مغرب کے بعد انارکلی بازار میں بچے کرکٹ کھیلتے اور مال روڈ کے فٹ پاتھ شرفائے شہر کی چہل قدمی کے لیے وقف تھے، نامور سیاستدان، دانشور، صحافی اور اساتذہ پرانی انارکلی سے چیئرنگ کراس تک ٹہلتے، ایک دوسرے سے گپ شپ، سلام دعا کرتے اور پرانے چائے خانوں کے چکر لگا کر گھر چلے جاتے۔ کرونا وائرس نے سرعام چہل قدمی اور گپ شپ کا موقع تو چھین لیا، مگر گھروں کی رونقیں لوٹ رہی ہیں اور بچے خوش ہیں کہ اب امی ابو مجبوراً سہی، انہیں وقت دینے، کچھ ان کی سننے، کچھ اپنی سنانے کے لیے دستیاب ہیں، ورنہ یہ بے چارے ان کا چہرہ ہفتے میں صرف ایک دن دیکھتے تھے۔

دستیاب وقت کو بسر کرنے کے لیے ہر عمر، مزاج اور ذوق کے لوگوں کی دلچسپیاں الگ ہوں گی لیکن اللہ تعالیٰ کی یاد اور قادر مطلق کے وضع کردہ اصول و قواعد، قوانین قدرت سے انحراف کے نتائج و عواقب پر غور کرنے کے لیے یہ بہترین وقت ہے، غنیمت ہے کہ قدرت نے ہمیں یہ مہلت فراہم کی، ہمیں سوچنے کا موقع دیا کہ قوانین قدرت سے انحراف اور سرکشی کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ پنج وقتہ نماز اور نوافل کی ادائیگی، حضور اکرمﷺ پر بکثرت درود و سلام اور آیت کریمہ کا ورد، آزمائش کی اس گھڑی میں قلبی و روحانی سکون سے آشنا کر سکتا ہے جس کا ہر انسان طلبگار ہے۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آخر قدرت بار بار انسان کو اپنی اوقات کیوں یاد دلاتی ہے؟ عرض کیا کہ انسان کی بار بار سرکشی اور لایعنی غرور کے سبب۔ یہ یاد دلانے کے لیے کہ "اے انسان تجھے اپنے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے مغرور کر دیا" اپنی غلطیاں سدھارنے، کمزوریوں پر قابوپانے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے یہ بہترین وقت ہے، فرصت کے ان لمحات کو مطالعہ کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے، گھر میں موجود کتابیں جو عدم فرصت کے سبب نہ پڑھی جا سکیں، وہ موضوعات جن پر غور و غوض کا موقع نہ ملا اور وہ گھریلو کام جو خواہش کے باوجود پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ انہیں پڑھنے، سوچنے اور مکمل کرنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں، موسیقی کے شوقین دل کھول کر موسیقی سنیں اور شطرنج، تاش، لڈو، کیرم بورڈ، سنوکر، ٹیبل ٹینس کھیلیں، باغبانی کریں، گھر چھوٹا ہے تو نرسری کے گملوں میں نشونما پانے والے پودے لائیں اور گھر کو سجائیں کہ یہ صحت بالخصوص آنکھوں کی بینائی، پھیپھڑوں کی دھڑکن کے لیے مفید ہے۔

سہل کوش حکومتیں اگر اس شر سے خیر کا پہلو دریافت کرنے میں سنجیدہ ہوں تو وہ جملہ کاروباری سرگرمیوں کو شام چھ سات بجے تک محدود کر کے معاشرتی زندگی میں انقلاب لا سکتی ہیں۔ قدرتی آفت ٹل جانے کے بعد بھی یہ مشق برقرار رہے، دن کاروبار، رات اہل خانہ بالخصوص بیوی، بچوں، بھائی بہنوں، بیٹوں، بہوئوں کے ساتھ مل بیٹھنے، دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے اور نیند پوری کرنے کے لیے وقف رہے تو ہم بہت سی بیماریوں، سماجی قباحتوں اور بجلی کے ضیاع کے علاوہ جرائم پیشہ عناصر کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں کہیں بھی رات دس گیارہ بجے تک کاروبار ہوتا ہے نہ ریستوران کھلے رہتے ہیں۔ صبح نو دس بجے جاگنے اور گیارہ بجے ناشتے کی عیاشی بھی صرف پاکستانی قوم کو میسر ہے، جس پر پچھتانے کے بجائے ہم اتراتے پھرتے ہیں، وقت پر کھانا پینا نہ سونا جاگنا، نتیجہ بے آرامی، بدہضمی، شوگر، بلڈ پریشر اور چڑچڑاپن۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے پر قوم کو توقع تھی کہ معاشرتی نظم و ضبط بحال ہو گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، کرونا وائرس نے البتہ حکومت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ معاشرتی نظم و ضبط لا کر بہت سے سماجی اور معاشی مسائل پر قابو پائے، صبح مارکیٹوں کا جلد کھلنا اور شام کو بروقت بند ہونا۔ خاندانی زندگی کی بحالی، طبی اصولوں کی پاسداری اور بجلی کی بچت۔ کئی فوائد صرف ایک رضا کارانہ پابندی کے مرہون منت، آم کے آم گٹھلیوں کے دام!قدرت موقع فراہم کرتی ہے فائدہ مگر صرف سلیم الفطرت انسان اٹھاتے ہیں۔ ہم کون؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran