مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک حکومت اور اصل ہدف یعنی عمران خان کے حقیقی پشت پناہوں پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے؟ درست اندازہ 27اکتوبر کے اردگرد ہو گا، ابھی لبوں اور چائے کے کپ کے درمیان خاصہ فاصلہ ہے۔ مسلم (ن) البتہ منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں اور نامہ و پیام جاری ہے مگر نتیجہ؟ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ ویسے تو پورا ملک ہی منیر نیازی کے بقول آسیب کی زد میں ہے کیا حکومت اور کیا اپوزیشن؟ہر شعبے میں حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ مگر ان دنوں سب سے زیادہ مسلم لیگ(ن) اس مرض کا شکار ہے، فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی کہ مولانا فضل الرحمن کا کھل کر ساتھ دے یا پیپلز پارٹی کی طرح محض اخلاقی تائید و حمائت پر اکتفا کرے۔ میاں نواز شریف اورمریم نواز کی خواہش کو مقدم جاننے والے مسلم لیگی رہنما بھی کسی ٹھوس عملی اقدام کے حق میں نظر نہیں آتے۔ گزشتہ روز احسن اقبال کی قیادت میں مسلم لیگی وفد نے مولانا فضل الرحمن کو میاں صاحب کا خط پیش کیا تو اصولاً زیرک مذہبی رہنما کی خوشی دیدنی ہوتی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، آزردہ، افسردہ اور رنجور۔ مولانا اب اس چند سطری خط کو تفصیل سے پڑھ کر ڈیڑھ ہفتہ بعد مجلس شوریٰ کے اجلاس میں پیش کریں گے، ایک با خبر شخصیت کا اصرار ہے کہ سعودی عرب کے سفیر نواف المالکی سے ملاقات کے بعد مولانا کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا ہے اور انہوں نے راولپنڈی کے باسیوں کو ایک محبت بھرا پیغام بھیجا ہے ؎
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
مگر جب تک مولانا میاں نواز شریف کے مشورے کے مطابق دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کے بہانے، نئی تاریخ نہیں دیتے کوئی بات حتمی نہیں، یہ بات البتہ حتمی اور قطعی ہے کہ اسلام آباد کسی دھرنے کا متحمل ہے نہ ڈنڈا بردار فورس کی پریڈ کاروا دار۔
مولانا فضل الرحمن کے تیّقن اور اعتماد کو دیکھ کر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما حیران ہیں کہ آخر اکتوبر ہی میں تخت یا تختہ کی بازی لگانے پر مُصر کیوں؟ کوئی اشارہ یا اپنی سٹریٹ پاورکا گھمنڈ؟ اشارہ اگر ہے تو ہدف عمران خان ہے یا اس کا "سلیکٹر"؟دونوں صورتوں میں کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ تمام ادارے تا اطلاع ثانی ایک ہی صفحے پر ہیں، منفعت ایک ہے"دونوں " کی نقصان بھی ایک۔ البتہ لانگ مارچ یا دھرنے کے ذریعے عمران خان سے کچھ منوانا اور مذہبی کارڈ کو ہمیشہ کے لئے کُند کرنا مقصود ہے تو یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں، اس صورت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو گناہ بے لذت سے کیا حاصل؟ اسی باعث دونوں کی قیادت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ مولانا کو تاریخ میں تبدیلی کے مشورے دیے جا رہے ہیں اور اپنے کارکنوں کی دلجوئی کے لئے رقعہ بازی جاری۔ مولانا بھی اس رقعے بازی کا مطلب خوب سمجھتے ہیں ع
خط لکھیں گے، گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بازی کا آغاز عام انتخابات سے قبل ہوا۔ میاں نواز شریف کی آمد پر استقبالیہ جلوس کا راستے میں گم ہو جانا اور میاں صاحب کا بصد حسرت ویاس برادر خورد کی راہ تکنا اسی دھڑے بندی کا مظہر تھا۔ کنفیوژن برقرار رکھنا بڑے میاں صاحب کی طے شدہ حکمت عملی ہو سکتی ہے اور دو دھڑوں کا تاثر بھی اسی سلسلے کی کڑی، تاکہ کارکن اورمولانا دونوں خوش رہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کے دروازے بھی بند نہ ہوں، شہباز صاحب اپنا کام جاری رکھیں اور فیصلہ سازوں سے کہہ سکیں کہ آپ نے میری حوصلہ افزائی نہ کی تو میاں صاحب کارکنوں کو مولانا کا ساتھ دینے کی ہدایت کریں گے اور پھر جوہو، سو ہو، میرا ذمہ توش پوش۔ جبکہ سخت گیر قیادت اور کارکنوں کو یہ پیغام ملتا رہے کہ قائد محترم تو حکومت کے خاتمے کے لئے یکسو ہیں اور مولانا کا ساتھ دینے کے لئے بے تاب و پرجوش مگر مصلحت پسند قیادت رکاوٹ ہے۔ میں کیا کروں؟ خوف میاں صاحب کو بھی وہی لاحق جو میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو ہے کہ اگر لانگ مارچ، دھرنے میں اور دھرنا، انتشار و فساد میں تبدیل ہوا تو حالات کیا رخ اختیارکریں گے؟1977ء اور 1999ء کی طرح کھلی مداخلت یا 1993ء سے مشابہ درمیانی راستہ۔ 1993ء میں صورت حال مختلف تھی۔ ریاست کے دو ستونایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم باہم گتھم گتھا تھے اور آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کا کردار ثالث اور سہولت کار کا تھا۔ اب مگر حالات خاصے مختلف ہیں۔ میاں شہباز شریف برادر بزرگ سے کھل کر کہہ پاتے ہیں یا نہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے یا دونوں بھائی مگر یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں، کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں مداخلت ہوئی تو باری ملنے کا امکان تو شاید اب بھی نہیں، یہ ضمانتوں کی سہولتیں، جیلوں اور حوالات میں شاہانہ مراعات اور مقدمات کا التواء جیسی عیاشی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مترادف سرسری سماعت کی عدالتوں میں، ہفتوں بلکہ دنوں میں منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات کا فیصلہ آ سکتا ہے اور لوٹی دولت نکلوانے کے لئے دوست ممالک چین اور سعودی عرب کے تجربات سے فائدہ اٹھانا بھی ممکن بلکہ لازم۔ اب تو نیب پر بے رحمانہ تنقید کی سہولت حاصل ہے اور احتساب عدالت میں قومی اداروں کے خلاف نعرہ بازی کی اجازت بھی۔ نعرے خواہ کتنے ہی دلآزار اورشرمناک کیوں نہ ہوں، برداشت کر لئے جاتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت کا بھرم رکھنا ہے* مداخلت کے بعد گنجائش ہوگی نہ رعائت۔ اس سواد سے محروم ہو گئے تو عمران خان شائد ایک بار پھر شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کے لئے چندہ مہم پر بیرون ملک نکل جائیں، سنگین مقدمات میں ملوث قیدیوں اور ضمانت پر رہا ملزموں کا کیا بنے گا؟ یہی سوچ سوچ کر مسلم لیگ کی سیانی قیادت کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کر پا رہی، فیصلہ ہوا بھی تو صرف یہ کہ لانگ مارچ اور جلسہ جلوس بسم اللہ، دھرنے اور لاک ڈائون استغفراللہ، ہماری کیا ہمارے باپ کی توبہ ؎
دل وچ رانجھے دا خیال
میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال
مولانا دھرنا دیں، لانگ مارچ کریں یا اپوزیشن کی بات مان کر تاریخ آگے بڑھائیں نتیجہ جمعیت علماء اسلام کے لئے ع
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
اس نے وقت غلط چنا، حکومت کی قوت اور اپوزیشن کی یکسوئی و دلجمعی کا اندازہ غلط لگایا اور تکیہ ان پتوں پر کیا جو آشیانے کی آگ بھڑکانے کے لئے ہوا دینے کے عادی ہیں، باغبان کون ہے؟ انہیں غرض نہیں، پروفیسر محی الدین نے آج صبح پروفیسر عبدالغنی جاوید سے ملاقات کے بعد 27، 28اکتوبر اور 17، 18نومبر کی تاریخیں یاد رکھنے اور دسمبر تک انتظار کرنے کا مشورہ دیاہے ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا؟