Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Na Khanjar Uthega Na Talwar Unse

Na Khanjar Uthega Na Talwar Unse

سردار فاروق احمد لغاری کے انتقال پر ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا تو پیپلز پارٹی نے ٹکٹ 2008ء میں الیکشن لڑنے والے امیدوار کو دیا۔ انہی دنوں یہ لطیفہ مشہور ہوا کہ پی پی کے اُمیدوار نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا "مجھے 2008ء کے عام انتخاب میں جتنے ووٹ پڑے، وہ تو پکِے ہیں، کس قدر اضافے کی اُمید رکھوں؟ "ڈرائیور بولا" سائیں 2008ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث کافی ووٹ پڑ گئے اب توقع نہ رکھیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کی شہرت، عزت اور مقبولیت میں جس قدر اضافہ کر دیا ہے اگر آپ خود بھی شہید ہو جائیں تو شائد اتنے ووٹ نہ ملیں جتنے 2008ء میں پڑے۔ یہ لطیفہ یا واقعہ مجھے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بیانات پڑھ کر یاد آیا جس میں آصف علی زرداری کی متوقع گرفتاری پر ممکنہ شدید ردعمل سے قوم اور حکومت کو ڈرایا گیا۔ باور یہ کرایا جا رہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری گرفتار ہوئے تو ملک میں بھونچال آجائیگا۔ ہیجان برپا ہو گا اور سندھ کو سنبھالنا مشکل ہو گا، ایک لیڈر نے تو یہ بھی کہا کہ سندھ میں وسیع پیمانے پر گڑ بڑ ہو سکتی ہے معلوم نہیں یہ دھمکی ہے یا طے شدہ سکرپٹ کا قبل از وقت افشا؟ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ میں خوب توڑ پھوڑ ہوئی ذوالفقار مرزا نے ایک موقع پر انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی کے جذباتی رہنما اور کارکن تو جیٔ سندھ کا نعرہ "پاکستان نہ کھپے" اپنانے کو تیار تھے مگر آصف علی زرداری نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا دیا۔ اب بھی شائد کسی کے ذہن میں یہ خناس موجود ہو لیکن حالات بظاہر کسی گڑ بڑ کے لئے سازگار نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی گزشتہ دس سال سے بلا شرکت غیرے برسر اقتدار ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت کو اس قدر زیادہ مالیاتی وسائل میسر تھے کہ اگر وہ چاہتی تو اور کچھ نہیں اس صوبے کو پنجاب کے برابر لا سکتی تھی مگر بھوک، ننگ، افلاس، جہالت، پسماندگی اور بے روزگاری سندھ کے باسیوں کا مقدر ہے اور کرپشن حکمرانوں کی پہچان۔ اربوں روپے کے فیک اکائونٹس، لانچوں میں کرنسی بیرون ملک منتقل کرنے، ایان علی جیسے کرداروں کے ذریعے روزانہ کروڑوں روپے باہر بھیجنے اور ترقیاتی فنڈز ذاتی عیش و عشرت پر خرچ کرنے کا دھندا گزشتہ دس سال سے جاری اور جے آئی ٹی کی تحقیق و تفتیش کے ذریعے سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود اگر زرداری خاندان اور ان کے ارادت مند، حلقہ بگوش اور خوشہ چین خوش گماں ہیں کہ لوگ مسٹر ٹین پرسنٹ کی گرفتاری پر خود سوزی کریں گے ’2007ء کی طرح سندھ کے طول و عرض میں گڑ بڑ ہو گی، تو آدمی اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہے عوہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھاپاکستان میں اجتماعی سیاست دم توڑ چکی، دیانتدار سیاسی کارکنوں کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے خود ہی مایوس کر کے گھروں میں بٹھا دیا، جو کان نمک میں نمک ہوئے وہ سیاسی کارکن نہیں چند خاندانوں کے "جھولی چک" ہیں اور چوری کھانے والے مجنوں۔ سیاسی کارکن نام کی مخلوق، باقی رہتی تو 13جولائی کو لاہور ایئر پورٹ پر میاں نواز شریف اور مریم نواز کی بے بسی دیدنی نہ ہوتی۔ دونوں باپ بیٹی لاکھوں متوالوں کے منتظر رہے اور متوالے مال روڈ پر "میاں دے نعرے وجن گے" سے اپنا اور اپنی لیڈر شپ کا دل پشوری کرتے رہے۔ میاں صاحب ایسے ہی کرب سے 2007ء میں اسلام آباد ایئر پورٹ پر بھی گزرے تھے۔ پیپلز پارٹی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں، ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ سندھ میں حکمرانی کے طفیل اس کا دم غنیمت ہے لیکن اگر کرپشن فیک اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے الزام میں آصف علی زرداری کی گرفتاری پر سندھ پیپلز پارٹی نے ریاست کو للکارا اور قانونی معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تو وفاقی حکومت کے پاس وہ آپشن موجود ہے جو 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں اختیار کیا، گورنر راج۔ ریاست اس وقت عدم استحکام اور ہلڑ بازی کی متحمل ہے نہ کوئی ریاستی ادارہ بلیک میل ہونے کے موڈ میں۔ بعض تجزیہ کار ملک گیر تحریک کا امکان دیکھتے ہیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) مولانا فضل الرحمن اور اچکزئی کے ساتھ مل کر چلائیں گے مگر تحریک کس نعرے پر چلے گی؟ کرپشن بچائو، احتساب مکائو اور حکومت گرائو کے نعرے پر تحریک چلانے والوں کا ساتھ کون اور کیوں دے گا؟ "مجھے کیوں نکالا" کا نتیجہ سامنے ہے ممکنہ تحریک کا انجام شائد جی ٹی روڈ تحریک سے بھی زیادہ بھیانک ہو۔ بظاہر وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا اندازہ درست ہے کہ ؎نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سےیہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی جماعتوں اور کارکنوں پر وہ گرفت رکھتی ہے جو الطاف حسین کو تھی نہ دونوں جماعتوں کے پاس کارکنوں کی وہ کھیپ ہے جو کسی شہر اور علاقے کو مفلوج کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو۔ پے درپے غلطیوں اور ریاست کے علاوہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے نتیجے میں آج الطاف حسین کہاں ہے؟ ۔ چندہ مانگتا ہے کوئی دیتا نہیں، فون کرتا ہے کوئی سنتا نہیں اور فریاد کرتا ہے کوئی توجہ نہیں دیتا۔ مسلسل لوٹ مار، خلق خدا سے بے اعتنائی اور عوام کو بے وقوف بنانے کی عادت۔ کیا سیاست اسی کا نام ہے اور جمہوریت کو مضبوط و مستحکم کرنے کا یہی طریقہ ہے؟ ۔ امریکہ میں زرداری کا فلیٹ کوئی سربستہ راز نہیں مگر سرے محل کی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت قوم کو بے وقوف بنانے کے درپے ہے۔ ایک دوسرے سے بیان ملتا نہ بے سروپا دعوئوں میں مطابقت ہے۔ فلیٹ ہے، نہیں ہے، ظاہر کیا، نہیں کیا۔ یہی موقف جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ حضور! رپورٹ میں جھول کہاں ہے اور کس رکن نے شہزاد اکبرکے ساتھ مل کر غلط کہاں اور کیا کیا ہے؟ اس سیدھے سادے سوال کا جواب لطیف کھوسہ کے پاس ہے نہ فاروق ایچ نائیک اور شیریں رحمان کے پاس۔ جے آئی ٹی نے تو رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی ہے۔ بینکنگ کورٹ ایف آئی اے کے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں آپ سے پوچھ گچھ کر رہی ہے مگر آپ مسلم لیگ (ن) سے مل کر ملک گیر تحریک کی دھمکیاں اور تین سال والوں کو طعنے دیتے ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ اگر میرا اندازہ درست ہے کہ ریاست اپنے آپ کو سدھارنے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ قانون سے بالاتر کوئی سیاستدان ہے، جنرل نہ حکمران، تو پھر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جائز وجوہات کی بنا پر گرفتاری سے ہنگامہ کھڑا ہو گا نہ جمہوریت کو کوئی خطرہ، کہ جمہوریت کا استحکام قانون کی حکمرانی اور عدل و مساوات سے مشروط ہے، چند افراد اور خاندانوں کی ترقی، خوشحالی، لوٹ مار اور قانون شکنی سے نہیں۔ اداروں کو مضبوط کرنے سے ہے، دو خاندانوں کی حرص کی تسکین اور لوٹی ہوئی دولت میں اضافے سے نہیں۔ اگر عدلیہ، نیب، ایف آئی اے اور دیگر ادارے اپنا فرض نیک نیتی سے ادا کر رہے ہیں اور قانون سے بالاتر کوئی نہیں تو پھر جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ پارلیمنٹ اگر قومی اداروں کے خلاف الزام تراشی کا مرکز بنی رہی، کروڑوں اور اربوں روپے لوٹنے والے ملزموں کوشاہی پروٹوکول ملااور سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اکرم چودھری ہتھکڑیوں میں بندھے ضمانت سے محروم ہوں، یونیورسٹی کے لاہور کیمپس کے ڈائریکٹر کی ہتھکڑیاں مرنے کے بعد بھی نہ کھلیں اور قومی ڈاکوئوں کے روبرو اعلیٰ افسران کورنش بجا لائیں تو جمہوریت کے لئے خطرہ برقرار ہے، اس خطرے کا تدارک حکمران اور سیاستدان کریں۔ رہی قوم تو اب وہ کسی لٹیرے کے لئے سڑکوں پر نکلے گی نہ کسی کی جائیدادیں بچانے اور منی لانڈرنگ کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے جیوے، جیوے کے نعرے لگائے گی۔ پیپلز پارٹی کے انتخابی اُمیدوار کے غریب ڈرائیور کو جو بات سمجھ آ گئی تھی وہ قیادت کو کب سمجھ آئے گی؟ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran