Naya Zamana, Naye Subah Sham
Irshad Ahmad Arif92 News658
خوئے بدرا بہانہ بسیار، قومی اسمبلی میں گزشتہ ایک ہفتے سے جو تماشہ چل رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت؟ اپوزیشن؟ منتخب ارکان اسمبلی یا کوئی اور؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو قوم کو مژدہ سنایا گیا کہ اب سیاسی قیادت پختگی کی عمر کو پہنچ چکی، حکومت اور اپوزیشن پارلیمانی جمہوری نظام نامی گاڑی کے دو پہیے ہیں جو مل کر چلیں تو قومی سفر طے ہوتا ہے۔ قسمیں کھائی گئیں کہ حکمران جماعت اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنائے گی نہ اپوزیشن کبھی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرے گی۔ 2008ء سے 2018ء تک دونوں جماعتوں نے کب میثاق جمہوریت پر عمل کیا؟ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہی قوم کو بتا سکتے ہیں۔ یہ لیکن ماضی کا قصہ ہے آج، لمحہ موجود میں حکومت اور اپوزیشن کا وتیرہ کیا ہے؟ تحریک انصاف تو میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتوں میں شامل تھی نہ عمران خان نے کبھی اس دستاویز کومک مکا کے سوا کوئی نام دیا۔ مگر اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا رویہ؟ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہوا تو اپوزیشن نے حماد اظہر کی تقریر کے دوران خوب شور شرابا کیا، ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ سابق وزراء اعظم شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور کئی سابقہ وزراء کا طرز عمل دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس سادہ لوح قوم نے بھی اپنی قسمت ان کھلنڈروں کے حوالے کی ہو گی۔ پارلیمانی روائت کے مطابق بجٹ پر بحث کا آغاز قائد حزب اختلاف کرتے ہیں مگر جمعہ اور پیر کے روز حکومتی وزراء اور سینئر ارکان اسمبلی نے میاں شہباز شریف سے وہ سلوک کیا جو اپوزیشن اب تک وزیر اعظم عمران خان سے کرتی چلی آ رہی ہے۔ جونہی میاں شہباز شریف تقریر کرنے کھڑے ہوئے شور مچ گیا، ہلڑ بازی اور دلآزار نعرے۔ تنگ آ کر سپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ جب میری طرح کے ناتواں اخبار نویس سیاستدانوں کے بارے میں یہ لکھتے اور بولتے ہیں کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ہر بار وہی غلطیاں دہراتے ہیں، جن کی سزا قوم1958ء سے اب تک بھگتتی چلی آ رہی ہے تو سیاست و صحافت کا ناعاقبت اندیش ٹولہ فوراً اسے سیاستدانوں کی کردار کشی اورغیر جمہوری قوتوں کی ترجمانی قراردینے لگتا ہے۔ یہ نہیں سوچتاکہ سیاستدانوں کی عدم برداشت، باہم الزام تراشی، کردار کشی اور دھینگا مشتی کا نتیجہ 1958ء، 1969ء، 1977ء اور 1999ء میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی صورت میں نکلا اور ملک و قوم عرصہ دراز تک جمہوریت سے محروم رہے۔ گزشتہ روز منفرد مزاج اخبار نویس رحمت علی رازی مرحوم کی نمازجنازہ سے پہلے ایک صحافی دوست نے مجھے جب ازراہ تلطّف مخصوص سوچ کا حامل قرار دیا تو میں محظوظ ہوا عہم ہنس دیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ترارحمت علی رازی رپورٹر کے طور پربیورو کریسی کے واقف حال تھے اور دبنگ صحافی۔ مجھے رپورٹنگ کے دوران یہ تجربہ ہوا کہ اگر صحافی مکمل معلومات اور متعلقہ فرد، ادارے، جماعت یا شعبے کے بارے میں معلومات کے بغیر تجزیہ کرے گا تو ٹھوکر کھائے گا۔ حالیہ عام انتخابات کے موقع پر نامور صحافیوں کے تجزیے اس بنا پر غلط ثابت ہوئے اور ان کے پسندیدہ سیاستدان اسی باعث ایوان اقتدار کے بجائے جیلوں، حوالات اور نیب کی تفتیشی ٹیم کے سامنے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ ان بظاہر باخبر اور اونچے ایوانوں تک رسائی کے دعویداروں نے ووٹروں کا مزاج پرکھا نہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل کی چھان پھٹک کی۔ کاتا اور لے دوڑی کے مصداق جو اِدھر اُدھر سے سنا اپنے ناظرین اور قارئین کی نذرکر دیا۔ اب شرمندہ ہونے کے بجائے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق کبھی خلائی مخلوق پرتبرا تولتے ہیں، گاہے محکمہ زراعت پر غصہ جھاڑتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ جب ایک سیاسی جماعت کی قیادت خود ہی عوام کو یہ باور کرا دے کہ طاقتور حلقے اس کی شکست کے خواہش مند ہیں تو کون بے وقوف اپنا ووٹ ضائع کرے گا اور الیکٹ ایبلز کو کس بائولے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ اس کا ٹکٹ لے کر اپنی منزل کھوٹی کریں جبکہ سیاست کو قیادت نے خود ہی نظریات کے بجائے مفادات اور موقع پرستی کا کھیل بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان تو ممکن ہے اپنی ناتجربہ کاری، اپوزیشن اور اس کے ہمنوا دانشوروں کے بقول عمران خان کی غلط تربیت اور جمہوریت سے گہری وابستگی نہ ہونے کی بنا پر ایوان میں ہلہ گلہ کر رہے ہوں لیکن میثاق جمہوریت کی علمبردار جماعتوں کو جو تین تین چارچار بار اسٹیبلشمنٹ سے چھترول کرا چکی ہیں اور قوم کے سامنے شہادتوں، جلاوطنی اورجیلوں کا رونا روتی ہیں کیا ہوا؟ ۔ وہ آخر کیا چاہتی ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ 2008ء سے فوجی قیادت کی یہ بھر پور خواہش نظر آتی ہے کہ برا بھلا جمہوری نظام چلتا رہے’ منتخب حکومتیں اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور انتخابات کا تسلسل برقرار رہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اورجنرل قمر باجوہ میں سے کسی کے بارے میں سینے پر ہاتھ رکھ کر کوئی سیاستدان یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے مارشل لاء لگانے کی کوشش کی۔ 2014ء میں اگر جنرل راحیل شریف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبے کو مسترد نہ کرتے تو میاں صاحب کتنے دن وزیر اعظم رہ سکتے تھے، وہ تو سامان باندھ کرجاتی امرا پہنچ گئے تھے۔ خواجہ سعد رفیق اور کئی دوسرے رہنما انہیں منت سماجت کر کے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس لے گئے۔ 2009ء میں جنرل کیانی نے عدلیہ کی بحالی میں کردار ادا کیا مگر زرداری حکومت گرنے نہ دی جبکہ 2017ء میں بھی جنرل قمر باجوہ نے میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد رابطہ کرنے والے چالیس پچاس مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو بغاوت سے روکا ورنہ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ میاں نواز شریف پانامہ سکینڈل کی وجہ سے جیل میں ہیں اور آصف علی زرداری میاں نواز شریف دور کے مقدمات کے سبب نیب کے مہمان۔ لیکن دونوں جماعتیں مل کر اس شاخ نازک کو کاٹنے پر زور لگا رہی ہیں جن پرتحریک انصاف کے ساتھ ان کا اپنا آشیانہ ہے۔ اگر کئی عشروں تک اقتدار کے ایوانوں میں عیش و عشرت، اختیار و وسائل کے مزے لوٹنے والی دونوں جماعتوں کی عقل کل قیادت کا خیال یہ ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت گرا کر، موجودہ بُرے بھلے جمہوری پارلیمانی نظام کو کمزور کر کے احتساب کی بساط لپیٹ سکتی ہیں اور ماضی کی طرح فوجی قیادت کو سبز باغ دکھا کر ایوان اقتدار میں واپسی ممکن ہے تو یہ ایسی خوش فہمی ہے جس کا علاج کسی ماہر نفسیات کے پاس بھی شائد نہ ہو۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بطور آئی ایس آئی چیف تقرر سے بھی اگر ان چالاک اور سرد گرم چشیدہ سیاسی گرگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو ان کا اور ملکی سیاست کا اللہ حافظ۔ جنرل راحیل شریف نے ایک بار معاشی دہشت گردی کے خاتمے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سیاستدان سمجھ ہی نہیں پائے مگر اب تو حالات کا رخ پہچاننے میں دیر نہ کریں۔ کیا اتنی بات سمجھنے کے لئے بھی کسی کو ارسطو اور افلاطون کی عقل درکار ہے کہ ملک میں آپریشن ردالفساد جاری ہے اور فساد خواہ سیاسی ہو، معاشی، سماجی و مذہبی اس کا خاتمہ ریاست کی ترجیح اول ہے۔ احتساب کے موجودہ طوفان کی زد میں کوئی فوجی آئے یا سویلین، جج یا جرنلسٹ اور مسلم لیگی، پپلیا یا انصافی، بچ نہیں پائے گا اور اہمیت یہاں اداروں کی ہے، افراد کی نہیں، ادارہ سازی کے لئے کوشاں ریاست مریم نواز، بلاول بھٹو ملاقات سے بلیک میل ہو گی نہ اصولوں پر نرمی دکھائے گی۔ ایوان کو چلانا اور ملک کی طرح پارلیمنٹ میں پرامن ماحول پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اپوزیشن بھی" کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے "کی روش اپنا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ البتہ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے خودکشی کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر کون روک سکتاہے لگے رہو منا بھائی، اپوزیشن نے عمران خان کو کئی بار تقریر نہ کرنے دی۔ حکمران پارلیمانی پارٹی اب میاں شہباز شریف سے بدلہ لے رہی ہے۔ سوچئے اگر بدلے کی آگ میں جلتی حکومت اور اپوزیشن نے بجٹ منظور نہ ہونے دیا تو نقصان کس کو ہو گا؟ اور فائدہ کون اٹھائے گادونوں کا مقصد کیا موجودہ نظام کی بساط لپیٹ کر کچھ نیا کردکھانا ہے۔ نیا زمانہ، نئے صبح و شام۔