Shahon Ki Majlis Main Mazdooron Ka Zikar
Irshad Ahmad Arif92 News1388
تبدیلی اور کس چڑیا کا نام ہے۔ عشائیہ میں وزیر اعظم عمران خان اچانک اُٹھے، ولی عہد سے فرمائش کی کہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو اپنا سمجھیں کہ یہ میرے دل کے قریب ہیں، جیلوں میں بند تین ہزار پاکستانیوں کی حالت زار پر رحم کریں اور عازمین حج کو جدہ کے بجائے پاکستان کے ایئر پورٹس پر امیگریشن کی سہولت فراہم کریں اور ان کی دعائیں لیں، ولی عہد نے یہ کہہ کر میزبان کی عزت بڑھائی کہ میں آپ کو انکار نہیں کر سکتا، مجھے آپ سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں، عازمین حج کی امیگریشن اور قیدیوں کے معاملے پر ہمدردانہ غور ہو گا اور دوسری صبح دو ہزار ایک سو سات قیدیوں کی رہائی کا پروانہ جاری ہو گیا۔ یہ قیدی پچھلے چھ ماہ میں گرفتار ہوئے نہ ماضی کی کسی حکومت نے آواز بلند کی اور نہ سعودی حکومت کا دل پسیجا۔ یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے عمران خان کی قسمت میں لکھی تھی حاصل کر لی، ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند۔ بیرون ملک پاکستانی قوم اور حکمران اشرافیہ کے محسن ہیں۔ ہمارے مجموعی قومی محاصل سے زیادہ اور برآمدات کے برابر یہ تارکین وطن زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ کسی حکومت نے انہیں باعزت روزگار فراہم کیا نہ ریاست نے اپنا جانا۔ بیمار، لاچار اور سن رسیدہ ماں باپ، بنیادی انسانی ضرورتوں کے محتاج بہن بھائیوں اور آبائو اجداد کی قبروں کو اپنے حال پر چھوڑ کر یہ پردیس گئے۔ ایک ایک کمرے میں درجن بھر افراد کی رہائش اور جاں گسل محنت کے ثمر قابل قدر حصہ یہ ڈالروں، ریالوں، درہم و دینار کی شکل میں پاکستان بھیجتے اور صبح و مسا اپنے وطن کی سلامتی و استحکام کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔ بیرون ملک انہیں پاکستانی سفارت خانے قابل اعتنا سمجھتے ہیں نہ اندرون ملک ریاستی ادارے درد کا درماں کرتے ہیں واپسی پر ایئر پورٹ سے گھر تک ان سے "حسن سلوک" کی داستانیں اکثر میڈیا پر نشر و شائع ہوتی ہیں۔ شنوائی کا قابل اعتماد میکنزم آج تک وضع نہیں ہو پایا۔ جائیداد خریدیں تو قبضہ گروپ کی دستبردسے محفوظ نہیں اور کسی خاندانی و مالی تنازع کا شکار ہوں تو قوانین اور ادارے مدد کرنے سے قاصر۔ چند سال قبل امریکہ میں ایک بھارتی خاتون سفارت کار جرم کی مرتکب ہوئی امریکی قوانین کی گرفت میں آئی تو ہندوستان نے وہ شور مچایا کہ سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ امریکی سفارت خانے کو نئی دہلی میں پروٹوکول اور سکیورٹی سے محروم کر دیا گیا مگر ہمارے ریاستی ادارے بیرون ملک بے قصور اور معصوم پاکستانیوں کی اعانت پر آمادہ نہیں ہوتے، سلسلہ جنبانی کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے مگر یہ مسئلہ اٹھایا اور ان حرماں نصیبوں کو اپنے دل کے قریب بتایا، رہائی کا پروانہ جاری ہو گیا۔ کیا شاہد خاقان عباسی، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری موجودہ یا سابقہ سعودی حکمران سے یہ فرمائش نہیں کر سکتے تھے؟ کرتے تو انکار ہوتا؟ ترجیحات میں مگر بے آسرا لوگ شامل ہوتے تو کوئی زحمت گوارا کرتا؟ قیدیوں کی رہائی دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی تارکین وطن کے لئے پیغام ہے کہ آپ بے آسرا نہیں ریاست خبر گیری کے لئے تیار ہے۔۔ عازمین حج کی پاکستان میں امیگریشن کی فرمائش اگر سعودی حکومت نے پوری کر دی تو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان دوسرے حکمران ہوں گے جسے پاکستانی قوم عشروں یاد رکھے گی۔ بھٹو نے پاسپورٹ کا حصول آسان کیا، خلیج میں پاکستانیوں کی ملازمت کے دروازے کھولے اور عربوں کو احساس دلایا کہ پاکستان ان کے لئے دفاعی حصار ہے۔ قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل عرب عوام سے کہا تھا کہ اگر برصغیر میں ایک ہندو ریاست قائم ہو گئی اور پاکستان نہ بنا تو کوئی عرب ریاست انتہا پسند، تنگ نظر اور گائے کے پجاریوں سے محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ بادشاہوں کی محفل میں مزدوروں کی بات کر کے عمران خان نے صرف رحم دل حکمران کا تاثر اجاگر نہیں کیا ملک بھر کے مزدوروں، تجارتی، زرعی، صنعتی کارکنوں کے دل جیت لئے۔ ولی عہد سے یہ درخواست اس شخص نے کی جس کو مخالفین بددماغ، متکبر، انا پرست اور نہ جانے کیا کچھ کہتے نہیں تھکتے۔ انا پرستی کا بت وہ شوکت خانم ہسپتال کی چندہ مہم کے دوران توڑ چکا ہے۔ جب اس نے عام شہریوں کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور پاکستانیوں نے اس کی جھولی بھر دی۔ چند ماہ قبل سابق سیکرٹری اطلاعات احمد نواز خان سکھیرا سے ملاقات کے دوران عمران خان کی بطور وزیر اعظم پہلی تقریر کا ذکر چھڑا تو میں نے پوچھ لیا کہ تقریر کی ریکارڈنگ کے دوران کوئی مشکل پیش تو نہیں آتی بولے! نہیں۔ ایک جملہ منت سماجت سے حذف کرایا جس میں خان صاحب نے ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں سے ترسیلات زر بنکوں کے ذریعے بھیجنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ" میں نے زندگی بھر اپنے باپ سے بھی کچھ نہیں مانگا مگر پاکستان کی خاطر آپ سے مانگ رہا ہوں "۔ عمران خان چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا کے دوروں پر گئے تو سیاسی مخالفین نے اپنے ملک کے وزیر اعظم پر بھکاری کی پھبتی کسی، یہ نہ سوچا کہ وہ کس کے لئے مانگ رہا ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم کے ہاتھ میں کشکول تھمانے والے کون ہیں؟ سابقہ حکمران اور ان کی مددگار اشرافیہ جس نے لوٹ مار سے پاکستان کو کنگال کیا۔ عمران خان بذات خود کیا ہے اس کی کتاب "میں اور میرا پاکستان" پڑھ کر پتہ چلتا ہے لکھا"ہمیشہ میں نے یہی چاہا کہ اپنے اخراجات اپنی آمدنی تک محدود رکھوں، اللہ کا شکر ہے کہ اپنی ضرورت کے لئے کبھی کسی سے سوال نہیں کیا ہمارے معاشرے میں والدین سے طلب کرنے میں تامل نہیں کیا جاتا، مجھے مگر اپنے والد سے پیسے مانگنے پر الجھن محسوس ہوتی اب ایک اور مرحلہ تھا مجھے اپنا انداز فکر بدلنا تھا(شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لئے) میرے پاس پیسے کم پڑے تو میرے پاس کوئی چارہ کار نہ رہا کہ میں باہر نکلوں اور دست سوال دراز کروں۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ اس احساس کو میں لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتا۔ میرے لئے وہ لمحات کس قدر اذیت ناک ہوتے جب کوئی مالدار مجھے انتظار میں بٹھائے رکھتا، ان میں ایسے بھی تھے جو متکبر جان کر دانستہ میری توہین کرتے"ایک ہسپتال کے لئے اپنی انا کو قربان کرنے والا عمران خان اب پاکستان کے لئے نگر نگر امداد، تجارت اور سرمایہ کاری کی صدا لگا رہا ہے اپنے عوام نے اسے مایوس کیا نہ پاکستان کے دوست، خیر خواہ اور ہمدرد ممالک کی قیادت اس سے وہ سلوک کر رہی ہے جو پاکستان کے نودولتیے، مالدار کرتے رہے۔ سعودی ولی عہد کا یہ جملہ تو پورے دورے کا حاصل تھا کہ "ہم ایسے لیڈر کے انتظار میں تھے جس کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ پاکستان عمران خان کی عظیم قیادت میں درست سمت میں جا رہا ہے"ولی عہد کے دورے پر برہم صرف وہ ہیں جو پاکستان کا کھاتے مگر بھارت، افغانستان اور امریکہ کے گن گاتے اور انہیں ہر خرابی پاکستان میں، اچھائی بھارت میں نظر آتی ہے۔ انہیں ولی عہد کی آمد پر یمن یاد آتا ہے مگر کشمیر میں شہادتوں پر کبھی دکھ نہیں ہوا۔ اسلام، پاکستان اور عمران خان سے بغض کا شکار یہ ناکام و نامراد گروہ دو دن تک سوشل میڈیا پر اودھم مچاتا رہا کسی کو ایران سعودی عرب چپقلش کا مروڑ اٹھا اور کسی کو ترکی میں قتل ہونے والے صحافی خشوگی کی یاد نے ستایا۔ ولی عہد نے مگر بیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدوں اور دو ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی سے ان کے منہ میں خاک ڈال دی قل موتوا بغیظکم۔ بیس ارب ڈالر کی سعودی اور اس سے کہیں زیادہ چینی سرمایہ کاری سے پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوا اور تعلیم و صحت کی سہولتیں بڑھیں، تو مایوس ذہنوں کاکیا بنے گا؟ یہ تو بے موت مر جائیں گے:منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمیدنا اُمیدی اس کی دیکھا چاہیے