عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور شاہ فیصل کی گرفتاری کیا ان کے تازہ مودی مخالف مؤقف کی بنا پر ہے؟ یا کسی گریٹ گیم کا حصہ؟یہ سوال آج کل نئی دہلی کے کشمیری حلقوں میں زیر بحث ہے، سرینگر کی سوچ کیا ہے؟ جب تک مودی کا مارشل لاء نہیں اٹھتا، سیاسی، سماجی، صحافتی اور علمی حلقوں کو اذن کلام نہیں ملتا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ صرف گھر سے نکلنا مشکل نہیں، باہمی رابطوں کا ہر ذریعہ معطل ہے ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور باہمی میل جول۔ پاکستان میں ہم لوگ اس بات پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ بالآخر عمر عبداللہ، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی نظریہ پاکستان اور قائد اعظم کی یاد آئی، شاہ فیصل نے بھی بھارتی سیکولرزم، جمہوریت اور پارلیمنٹ سے مایوسی ظاہر کی اور حریت کانفرنس و مجاہدین کو کشمیری عوام کا اصل نمائندہ قرار دیا، بجا، سوچنے کی بات مگر یہ ہے کہ مودی سرکار کے ایک اقدام نے سارے بھارت نواز کشمیری قائدین بلکہ زیادہ بہتر الفاظ میں بھارتی ایجنٹوں کی کایا کلپ کر دی ہے؟ یا یہ گہری چال ہے؟ کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ دہی اور کئی عشروں سے جموں و کشمیر کی کربلا میں کھڑے سید علی گیلانی ایسے جری لیڈروں کے مقابلے میں عوام بالخصوص حریت پسند نوجوانوں کے لیے قابل قبول بنانے کی تدبیر؟
1940ء میں قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد ہندوستان بھر میں قائد اعظم مسلمانوں کے بلاشرکت غیرے لیڈر قرار پائے، عوام نے علامہ حسین احمد مدنی، ابوالکلام آزاد، علامہ عنایت اللہ مشرقی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو یکسر مسترد کیا تو کانگریس نے صوبہ سرحد میں سرخ پوش رہنما خان عبدالغفار خان، بلوچستان میں محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی اور کشمیر میں شیخ عبداللہ جیسوں کو میدان میں اتارا۔ بلوچستان کے سردار اور خیبرپختونخوا کے عوام سیانے نکلے، کوئی سرحدی گاندھی کے دام میں الجھا نہ بلوچی گاندھی کے جال میں پھنسا۔ چرب دماغ کشمیریوں کی قسمت پھوٹی شیخ عبداللہ کی بات مان لی اور آج تک پچھتا رہے ہیں۔ جو پچھتاوا عمر عبداللہ اور ان کے والد گرامی فاروق عبداللہ کو آج ہو رہا ہے وہ پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں شیخ عبداللہ کو بھی ہوا مگر اس پچھتاوے کو انہوں نے جواہر لال نہرو اور اس کی سپتری اندرا گاندھی کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کیا اور ہمیشہ آزادی، قومی عزت و وقار پر اقتدار کو ترجیح دی۔ 5اگست کے تباہ کن اقدامات کے بعد جموں و کشمیر میں کوئی احمق ہی بھارتی یونین کی وفاداری، مودی کے اقدامات کی حمایت اور جمہوریت و سیکولرزم کا راگ الاپ سکتا ہے۔ محبوبہ مفتی، عمر فاروق اور شاہ فیصل بہرحال فاتر العقل نہیں، سیانے کوے ہیں۔ لہٰذا ان کی گرفتاریوں سے خوش ہونے کی ضرورت ہے نہ ان کے بیانات سے پچھتاوے کا تاثر ابھارنا دانش مندی۔ قرین قیاس یہ ہے کہ کانگریس اور بھارت کے یہ ایجنٹ سانپ کی طرح کینچلی بدل کر کشمیری عوام کی دلیرانہ جدوجہد کو ڈسنا چاہتے ہیں ع
نیال جال لائے پرانے شکاری
یہ امکان بھی خارج از امکان نہیں کہ نریندر مودی اور بھارتی ایسٹیبلشمنٹ نے سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کے دیگر رہنمائوں بالخصوص یاسین ملک کا اثرورسوخ کم کرنے، عوام کو جھانسا دینے اور کٹھ پتلیوں کو آگے لانے کے لیے ان تینوں لیڈروں کو گرفتار کیا، انہیں عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے سخت بیانات دینے پر آمادہ کیا ہو کہ چند روزہ قید و بند کے بعد یہ شیخ عبداللہ کی طرح فاتحانہ انداز میں باہر آئیں اور نیا راگ الاپ کر کوئی گھٹیا چال چلیں۔ شاہ فیصل کی گرفتاری 14اگست کو ہوئی اور وہ بھی بی بی سی کو دیئے گئے ایک بے ضررانٹرویو پر جس میں موصوف نے کوئی انقلابی بات کہی نہ عوام کو سڑکوں پر نکل کر آزادی کے نعرے لگانے پر اکسایا۔ شاہ فیصل کی اٹھان مشکوک ہے اور گرفتاری مشتبہ، کشمیری عوام تو دودھ کے جلے ہیں اب شاید چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پئیں، مگر اس حوالے سے پاکستان کی سول و عسکری قیادت کو یکسر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف نے محبوبہ مفتی کی اعتدال پسندی سے متاثر ہو کر حریت کانفرنس کی تقسیم کی راہ ہموار کی اور سید علی گیلانی کو ناراض کیا۔ آخری تجزیے میں سید علی گیلانی درست ثابت ہوئے اور پرویز مشرف کا فارمولہ کشمیریوں کی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بنا۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ہم قدم و ہم آہنگ ہے اور دفاعی، سفارتی اور سیاسی محاذ پر اقدامات قوم کے نقطہ نظر سے اطمینان بخش۔ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لیے آرمی چیف مقرر کر کے بھارت، امریکہ اور عالمی برادری کو واضح پیغام دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے اندر اور لائن آف کنٹرول پر جنگی صورتحال، امریکہ طالبان مذاکرات، قومی سطح پر معاشی بحران اور بلا تفریق احتساب کا عمل صرف قومی پالیسیوں ہی نہیں قیادت میں تسلسل کا تقاضہ کرتے ہیں۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر حالت جنگ میں ہے اور عقلمند لوگ جنگ کے میدان میں کبھی گھوڑے تبدیل نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ نے یہ فیصلہ مخصوص حالات میں قبول کیا ہے ورنہ وہ ذاتی طور پر 29نومبر کے بعد ایک دن اپنے منصب پر فائز رہنے کے حق میں نہ تھے۔ پہلی کور کمانڈر کانفرنس کے علاوہ ملک کے سینئر صحافیوں کی ایک نشست میں انہوں نے اپنا مافی الضمیر بیان کیا تھا۔ تا ہم یہ بھی کہا تھا کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو روم میں آگ لگی ہو تو بیٹھ کر بانسری بجاتے ہیں۔ عدلیہ، پارلیمنٹ، وزارت خارجہ اور دیگر قومی اداروں کو فوج کی طرح مضبوط، مستحکم اور خود مختار دیکھنے کے خواہش مند جنرل باجوہ ہمیشہ اس خیال کے حامی رہے کہ معاشرے میں اہمیت افراد کی بجائے اداروں کو ملنی چاہیے اور ادارے اس قدر مضبوط ہوں کہ قیادت کی تبدیلی سے پالیسیاں بدلیں نہ روزمرہ امور میں خلل پڑے۔ عمران خان نے انہیں مزید تین سال آرمی چیف کے منصب پر برقرار رکھنے کا فیصلہ دورہ امریکہ کے بعد کیا مگر اطلاعات پہلے سے گشت کر رہی تھیں، پینٹاگان میں انہیں توپوں کی سلامی ملنے کے بعد عسکری معاملات کی شدبد رکھنے والے تجزیہ کاروں کے لیے یہ کہنا آسان ہو گیا تھا کہ یہ جانے والے نہیں، آنے اور برقرار رہنے والے پاکستانی سپہ سالار کا استقبال ہے۔ پروقار اور شایان شان۔ اداروں کی تشکیل، استحکام اور بالادستی کے خواہاں آرمی چیف کو مزید تین سال دے کر عمران خان نے چیلنج قبول کیا ہے۔ جنرل باجوہ جیسے جمہوریت پسند جرنیل کے خوش دلانہ تعاون کا فائدہ اٹھا کر عمران خان اگر تحریک انصاف کو فین کلب کے بجائے مضبوط سیاسی، جمہوری پارٹی میں تبدیل نہیں کرتے، پارلیمنٹ جدید جمہوری ریاستوں کی مقننہ کی طرح اپنا قومی کردار ادا نہیں کر پاتی، احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک لے جانے میں کامیابی نہیں ملتی اور معاشی و سماجی پالیسیوں کے ثمرات عوام نہیں سمیٹتے بلکہ پرنالہ وہیں پر رہتا ہے جہاں آج ہے یا ایک سال پہلے تھا تو عمران خان ایک ایسے حکمران کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جو ایسٹیبلشمنٹ کے خوش دلانہ تعاون کے باوجود پاکستان کو اقبال ؒو قائدؒ کے خوابوں کی تعبیر ریاست نہ بنا سکا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کی توقعات پر پورا اترنا اکیلے عمران خان کی ذمہ داری ہے، ٹیم میں مناسب تبدیلی اور بہتر افراد کار کے انتخاب کے بغیر اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ میاں نواز شریف جنرل قمر جاوید کی صلاحیتوں، جذبہ اخلاص اور پرجوش تعاون سے فائدہ نہ اٹھا سکے، انجام معلوم، اب عمران خان کی باری ہے۔ مجھے ایک بریفنگ میں ڈیڑھ سال قبل جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہے گئے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں "ہمارا کام پیچھے رہ کر اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ شخصیات کے بجائے ادارے مضبوط ہونے چاہئیں اور میڈیا بھی شخصیات کے بجائے "ایشوز پر بحث کرے" سول ملٹری مثالی تعلقات کا فائدہ پاکستان، جمہوریت اور عوام اٹھائیں تو مزہ آئے۔ کوٹ لکھپت، اڈیالہ جیل اور نیب کی حوالات میں توسیع کی خبر کس نے کیسے سنی؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟