Tweet Nahi, Bazpurs Aor Goshumali
Irshad Ahmad Arif92 News1007
حکمرانی کے سو دن مکمل ہونے پر کپتان نے اپنے مداحوں کو بتایا کہ جب میں ٹی وی پر کسی ناخوشگوار واقعہ کی خبر یا ویڈیو دیکھ کر اظہار افسوس کرتا ہوں تو خاتون اول بشریٰ بی بی مجھے احساس دلاتی ہیں کہ "خان!اب تم عام شہری نہیں وزیر اعظم ہو، اظہار افسوس کے بجائے حکم جاری کرو، قدم اٹھائو کہ یہ تمہاری منصبی ذمہ داری ہے"۔ سات ماہ بعد پنجاب اسمبلی اور حکومت کے گروہی مفاد پر مبنی اقدام کو سختی سے روکنے کے بجائے اگر عمران خان ٹویٹ کے ذریعے اظہار برہمی کرتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ انہیں ابھی تک اپنے وزیر اعظم ہونے کا یقین نہیں؟ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی اور حکومت ان کی مانتی نہیں؟ یا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ان کی بول چال بند ہے کہ فون پر انہیں ہدایات جاری کرنے کے بجائے عمران خان نے ٹویٹ کا سہارا لیا؟ گر یہ نہیں تو پھر مخالفین کی زبانیں کون بند کر سکتا ہے کہ یہ سیاست ہے، شعبدہ بازی اور ڈرامہ۔ عمران خان صرف وزیر اعظم ہی نہیں تحریک انصاف کے طاقتور، بااختیار اور بلا شرکت غیرے سربراہ ہیں، پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور سردار عثمان بزدار کپتان کا حسن انتخاب۔ پنجاب میں عثمان بزدار کے مخالفین نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ کپتان کی مرضی کے بغیر وزیر اعلیٰ پنجاب کوئی سمری پڑھتے نہ کسی مہمان سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ سرکاری فائلیں پہلے وزیر اعظم ہائوس جاتی ہیں وزیر اعظم کے چیف آف سٹاف نعیم الحق ان کا معائنہ کرتے ہیں پھر یہ دستخطوں کے لئے وزیر اعلیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس تاثر کو درست سمجھتا ہوں نہ عثمان بزدار کو بے اختیار وزیر اعلیٰ، مگر تاثر حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ، کابینہ اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے اپنی تنخواہوں اور مراعات کا ایسا بل کیسے منظور کر لیا؟ جو سادگی اور کفائت شعاری کے حکومتی فلسفے، عوامی امنگوں اور عمران خان کے مزاج کے قطعی منافی ہے اور وزیر اعلیٰ نے عمران خان کو بتانے کی ضرورت محسوس کی، نہ عون چودھری اور شہباز گل نے اپنے لیڈر کو مطلع کیا کہ جنہیں مرکز کے نمائندے اور نگران کے طور پر لاہور بھیجا گیا۔ جس رواروی اور جلد بازی میں تنخواہوں اور مراعات کا بل پاس ہوا اس پر عوام مایوس، اور اسے اپنے ساتھ زیادتی سمجھتے ہیں ارب پتی اور کروڑ پتی عوامی نمائندوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ سات ماہ کے عرصے میں مایوسی اورمہنگائی کے سوا حکومت کچھ نہیں دے پائی۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی مت مار دی ہے۔ وہی تھانہ، کچہری اور وہی سرکاری دفاتر کا ماحول، جو پہلے تھا اب بھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزیروں، مشیروں کے ٹھاٹھ باٹھ میں کمی آئی نہ پٹواری اور تھانیدار کامزاج بدلا۔ کرپشن کے ریٹ بڑھے نہیں تو کم بھی نہیں ہوئے، رواں ماہ دو دن ڈیرہ غازی خان میں گزارے بااختیار سرکاری افسروں اور تخت لاہور پر براجمان سردار کے اہالیوں موالیوں کے بارے میں ایسی داستانیں سننے کو ملیں کہ یقین کرنا محال۔ اسد عمر مژدہ سنا رہے ہیں کہ مہنگائی ابھی اتنی بڑھے گی کہ عوام کی چیخیں دور دور تک سنائی دیں گی۔ تاہم قوم اس بات پر مطمئن ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں، لوٹ مار، نااہلی اور اقربا پروری کے سبب چند ماہ یا سال دو سال مشکل ہیں۔ مفاد پرست حکمران کینسر کے مریض کو درد کش، سکون آور ادویات سے بہلاتے رہے، اب کیمو تھراپی شروع ہے تو تکلیف برداشت کرنی پڑیگی کہ شفا کی امید ہے اور حالات کا تقاضا۔ عوام ابھی عمران خان سے مایوس نہیں اور سمجھتے ہیں کہ بائیس سال تک ان کے دل و دماغ میں امید کی جوت جگانے والا، دردکا درماں کرے گا لیکن اُسے بھی اگر اہم فیصلوں کا علم ٹی وی دیکھ کر ہو اور ان کے بااعتماد ساتھی عثمان بزدار، اسد عمر اور دیگر قبل از وقت کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہ کریں تو عشروں کے سِتم رسیدہ اور بے آسرا عوام کہاں جائیں؟ ۔ بیانات سے بہلانا اور عوام کے ابلتے جذبات پر میٹھے بولوں کا پانی ڈال کر ٹھنڈا کرنا سیاستدانوں کا شیوہ ہے، بھٹو صاحب اس فن میں طاق تھے اور میاں نواز شریف نے بھی مہارت حاصل کر لی تھی مگر عمران خان؟ لوگ انہیں لفظوں کا حاتم طائی نہیں، مرد میدان سمجھتے ہیں ایک عملی شخص جو بول بچن کے بجائے کچھ کر دکھانے پر یقین رکھتا ہے۔ اگر عمران خان واقعی پنجاب کے حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کے اس عمل سے رنجیدہ ہیں، تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی حرکت کو تحریک انصاف کی سادگی و کفائت شعاری مہم کے منافی اور عوام دشمنی پر مبنی اقدام سمجھتے ہیں تو پھر ٹویٹ کیوں؟ اور گورنر پنجاب کو بل روکنے کی ہدائت کے بجائے وزیر اعلیٰ کی باز پرس کیوں نہیں؟ اپنے وسیم اکرم پلس کو وزیروں، مشیروں سمیت بلائیں بہتر ہے کہ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کو طلب کریں اور سب کی اپنے مخصوص انداز میں گوشمالی کریں کہ آپ نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، مجھے لاعلم رکھا، میں تو اپنی افتاد طبع اور کمٹ منٹ کے برخلاف مانگ تانگ کر قومی معیشت بہتر کرنے میں لگا ہوں، مخالفین سے بھکاری کے طعنے سنتا اور ملٹری سیکرٹری سے بھی کم تنخواہ وصول کر رہا ہوں مگر آپ لوگ پرانی ڈگر پر رواں ہیں۔ تنخواہوں اور مراعات سے آگے سوچنے پر ہی تیار نہیں، میری ناک کٹوا دی۔ اس غلطی کی کم از کم سزا یہ ہے کہ اپنا تھوکا خود چاٹیں۔ پنجاب اسمبلی اتفاق رائے سے نہ سہی، کثرت رائے سے یہ بل منسوخ کرے اور آئندہ اس وقت تک یہ حرکت دوبارہ نہ کرے جب تک ملک خوشحال نہیں ہوتا اور عوام کی مراعات اور سرکاری و نجی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی نوبت نہیں آتی۔ عمران خان یہ کر گزریں تو عوام کی اشک شوئی ہو گی اور اعتماد و یقین کا وہ رشتہ برقرار رہے گا جو قوم کو مشکل حالات برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یقین ہے کہ تنخواہوں اور مراعات کا یہ بل اب شائد اپنی موت آپ مرجائے اور جن لوگوں نے تحریک انصاف و عمران خان کی ساکھ خراب کرنے کے لئے یہ باریک کام کیا، انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے۔ کسی کو سزا اگر نہ ملی تو ایسی ہی کوئی حرکت دوبارہ ہو گی جس کا خمیازہ عمران خان بھگتیں گے۔ اس اقدام سے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے بیشتر ارکان، حکومت اور سردار عثمان بزدار کے بارے میں ناقدین کی یہ رائے درست ثابت ہوئی کہ انہیں عمران خان کے سیاسی و سماجی فلسفے سے کوئی سرکار ہے نہ مستقبل بینی اور دانش و بصیرت سے کوئی علاقہ اور نہ عوامی جذبات و احساسات کا ادراک، ورنہ وہ پہاڑ ایسی غلطی کرنے سے قبل اپنے لیڈر سے رہنمائی ضرور حاصل کرتے اور یہ بھی سوچتے کہ ردعمل کیا ہو گا؟ ، پنجاب حکومت کے حلقہ مشاورت میں عوام کا نبض شناس سیاستدان شامل ہے نہ عقلمند بیورو کریٹ اور نہ ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر کسی معاملے کے حسن و قبح پر بے لاگ رائے دینے والا دانشور، مشیر جو ایسے بلنڈرز کے مضمرات سے قبل از وقت آگاہ کر سکے۔ سردار عثمان بزدار اور پنجاب حکومت کی کارگزاری پر ہی عمران خان و تحریک انصاف کی کامیابی و ناکامی اور پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی مستقبل کا انحصار ہے۔ جن قوتوں پر اپوزیشن طعنہ زن ہے کہ انہوں نے عمران خان کو اقتدار دلایا، ان کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہے۔ پنجاب کے سوا مرکز کا اقتدار کیا ہے؟ ۔ سلطنت شاہ عالم، ازدلّی تا پالم۔ لیکن پنجاب حکومت کی فیصلہ سازی اور شاہ عالم کی دانش و بصیرت کا شاہکار یہ فیصلہ ہے جس سے تحریک انصاف کو شرمندگی اور پسپائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ کسی کو بھی احساس نہیں کہ ایسے فیصلوں سے وہ اپنی اور خان کی منزل کھوٹی کر رہے ہیں اور اپنے خیر خواہوں، مداحوں اور ووٹروں کو مایوس در مایوس۔ قومی خزانہ ارکان اسمبلی اور حکمرانوں کی شاہانہ مراعات کا بوجھ سہار سکتا ہے تو عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کی بھر مار کیوں؟ اور اگر عوام کے لئے خزانہ خالی ہے تو مراعات یافتہ طبقہ پر نوازشات کی بارش کا کیا جواز؟ عمران خان نے اپنی ٹیم جلد تبدیل نہ کی تو یہ اسے بار بار شرمندہ کرائیگی۔ ہر بار یوٹرن سے عوام مطمئن ہو سکتے ہیں نہ اعتماد کی بحالی ممکن۔ وہ اسے بھی سیاست ہی سمجھیں گے یعنی شعبدہ بازی اور ڈرامہ۔