Ya Munafiqat Tera Aasra
Irshad Ahmad Arif92 News1619
پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلی بار رجوع کیا نہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اقتصادی و معاشی بحران کا شکار ہوئی، عالمی مالیاتی ادارے امریکہ کے دست نگر ہیں مگر روس و چین بھی اس کے رکن ہیں اور یہ چاہیں تو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو اپنے کسی دوست ملک مثلاً پاکستان سے غیر معمولی التفات پر مجبور کر سکتے ہیں، پاکستان ہی نہیں ترکی، ملائشیا اور کئی دیگر ممالک کی قیادت ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو امریکہ و یورپ کا گماشتہ اور مرغ دست آسوز سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو انکل سام کے عالمی ایجنڈے کا حصہ قرار دیتی، پاکستان میں ایک طبقے کی یہی رائے ہے اور اس سازشی کہانی کو عوامی سطح پر ہمیشہ پسند کیا گیا۔ ایوب خان کے دور میں انہی عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہم نے تعمیر و ترقی کی راہیں طے کیں، منگلا اور تربیلہ ڈیم بنائے اور صنعت، تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقی کی، یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو سے لے کر نواز شریف تک جمہوری ادوار میں ہماری شرح نمو چھ فیصد سے کم رہی، زرداری کے دور میں صرف دو اعشاریہ آٹھ فیصد جبکہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے عہد آمریت میں زیادہ سے زیادہ گیارہ اورکم سے کم آٹھ فیصد، میاں نواز شریف کے وزیر خزانہ اسحق ڈار پانچ اعشاریہ چھ فیصد پر فخر کیا کرتے تھے۔ خراب معاشی و اقتصادی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اکیس بار پاکستان نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا اور بائیسویں بار بھی حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا، جس پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی معترض ہیں پاکستان میں کرپشن، اقربا پروری، مالی بدنظمی، فضول خرچی اور کام چوری کا کلچر ورلڈ بنک یا آئی ایم ایف کا عطیہ ہے نہ نااہلی، میرٹ کے قتل عام اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں کی لوٹ سیل کا مشورہ ان اداروں نے دیا، سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر منافع بخش قومی ادارے آئی ایم ایف کے کسی پروگرام کی وجہ سے خسارے کا شکار نہیں ہوئے، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ یہ ہمارے منتخب حکمرانوں، وزارت خزانہ کے مفاد پرست و بددیانت بابوئوں اور محصولات کی وصولی کے ذمہ دار اہلکاروں کی نالائقی، نااہلی، غفلت شعاری اور غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور اسراف و تبذیرکے حوالے سے قوم کی اجتماعی نفسیات بدعادتی کا ثمر۔ چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کے ہم عادی نہیں اور دوسروں کو دیکھ کر تھپڑوں سے اپنے گال سرخ کرنے کا ہمیں شوق ہے، آمدنی پچاس ہزار ہے اور خرچہ ایک لاکھ کرتے ہوئے ہم گھبراتے ہیں نہ شرماتے ہیں۔ برادرم منیر احمد منیر نے گزشتہ روز اپنی نئی کتاب"205ہفتے "دنیا" میں " بھیجی ورق گردانی کے دوران قائد اعظمؒ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی دیانت و امانت، فرض شناسی، کفائت شعاری، قومی وسائل اور املاک کی حفاظت اور مالی معاملات میں احتیاط کے واقعات پڑھ کر دھنگ رہ گیا۔ جب تک امانت و دیانت کے پتلے ہمارے حکمران رہے پاکستان تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا جونہی ندیدوں، شہدوں، لفنگوں اور لٹیروں کو اقتدار و اختیار ملا اور عزت نفس قومی حمیت اور وقار کے بنیادی انسانی اوصاف سے عاری لوگ قوم کی قسمت کے مالک بنے، زوال اور پستی کا سفر شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے۔ قائد اعظمؒ اور ان کے قریبی ساتھیوں کے علاوہ پاکستان کے ابتدائی، حکمرانوں کا طرز عمل اور انداز فکر کیا تھا ملاحظہ فرمائیے"حسن اصفہانی"قائد اعظم جناحؒ جیسا میں انہیں جانتا ہوں "میں لکھتے ہیں "جب کبھی ان کی دیانتداری کی تعریف کی جاتی تھی، مسٹر جناح یہ دو ٹوک جواب دیا کرتے تھے کہ جو لوگ میری تعریف کرتے ہیں مجھے اس سے خوشی نہیں ہوتی، نہ میں اسے باعث فخر سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ بات فطری ہے یہ ہر شریف آدمی کا بنیادی وصف ہے اگر وہ ایسا نہیں تو وہ مصنوعی ہے"گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے چیف سکیورٹی آفیسر ایف ڈی ہنسوٹیا کہتے ہیں کہ قائد اعظمؒ بڑا honest(دیانتدار) آدمی تھے۔ قومی مال وملکیت کو ضائع نہیں کرنے دیتے تھے۔ گورنر جنرل ہائوس کی جو موٹرز تھیں ان کو استعمال نہیں کرنے دیتے تھے کسی کو ذاتی کام کے لئے۔ یہ اتنے بااصول تھے کہ ڈیوٹی کے علاوہ کوئی شخص سرکاری موٹر استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ ایک روز ان کی پھوپھی آئیں۔ کہنے لگیں "جب محمد علی بچہ تھا تو میرے ہاتھ سے کباب بنوا کے بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ میں اس کے لئے کچھ کباب بنا کے لائی ہوں۔ سیخ کباب، گورنر جنرل قائد اعظمؒ اپنی پھوپھی سے نہیں ملے۔ اگلے روز ہنسوٹیا کو انہوں نے اس کی وجہ بتائی۔"میں مانتا ہوں کہ وہ میری رشتے دار ہیں۔ لیکن میں کسی کو نزدیک اس وجہ سے نہیں آنے دیتا کہ وہ اس کا کوئی فائدہ نہ اٹھا لیں۔ ناجائز فائدہ"جنرل گل حسن ان کے ابتدائی اے ڈی سی تھے بتاتے ہیں "۔ گورنر جنرل ہائوس کراچی میں جب قائد اعظمؒ قیام پذیر ہوئے تو گورنر جنرل ہائوس کا کوئی پردہ کوئی فرنیچر، کوئی قالین، غرضیکہ کوئی بھی چیز تبدیل نہیں کی۔ خواہ مخواہ پیسہ کیوں ضائع کیا جائے۔ جب کوئی پارٹی ہوتی تو صرف ایک دو مشروب رکھے جاتے۔ مہمانوں کی تواضع ضرور کی جاتی لیکن اس انداز سے کہ قومی پیسہ ضائع نہ ہو۔ گورنر جنرل قائد اعظمؒ کے آخری اے ڈی سی کیپٹن این اے حسین کہتے ہیں "مہینے کے آخرمیں ملٹری سیکرٹری سارے اکائونٹس ان کی خدمت میں لے جاتا جنہیں وہ خود پڑتال کرتے۔ وہ قومی پیسے کو ایک مقدس امانت سمجھتے اور اسے ایک امین کی احتیاط سے خرچ کرتے۔ خود انہوں نے جو چیز خریدنا ہوتی اس کے لئے چٹ جاری کرتے۔ گورنر جنرل قائد اعظمؒ جب باہر جاتے ملیریا بھولے جی یا کہیں بھی کوئی کرفر نہیں۔ نہ کوئی موٹر سائیکل سوار آگے نہ پیچھے۔ نہ عملے کی بھر مار نہ ہٹو بچو سرکار کا منظر۔ پچھلی سیٹ پر ان کے ساتھ ان کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہوتیں ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر ایک اے ڈی سی بس۔"قائد اعظم جناح" میں حسن اصفہانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ گورنر جنرل ہائوس میں ان کا یہ معمول تھا کہ غیر ضروری روشنیوں کو گل کر دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ "روپیہ کو ضائع کرنا ایک گناہ ہے اور اگر وہ عوام کا روپیہ ہو تو اور بھی بڑا گناہ ہے"۔ قائد اعظمؒ کے رفقا بھی ان کے نقش قدم پرچلتے رہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نواب افتخار حسین ممدوٹ نے وزیر اعظم لیاقت علی خاں ؒ کے بیٹے نوابزادہ ولایت علی خاں کو کچھ الاٹمنٹ کر دیں کہ یہ ان کا حق تھا۔ پھر بھی لیاقت علی خاں، کو پتا چلا تو لاہور پہنچے، جب تک وہ الاٹمنٹ کینسل نہ کرا دیں واپس نہیں گئے۔ بریگیڈیئر(ر) گلزار احمد راوی ہیں۔"میں گرلزگائیڈ کے سلسلے میں وزیر اعظم ہائوس گیا۔ بیگم رعنا سے تنظیمی امور پر گفتگو ہوئی اور اتنے میں چائے آ گئی۔ خاتون اول نے کہا کہ راشن بندی کے باعث وزیر اعظم ہائوس کو تھوڑی مقدار میں جو چینی ملتی ہے وہ آج کل بالکل ختم ہو گئی ہے اس لئے ہم دونوں پھیکی چائے پئیں گے"۔ جب وزیر اعظم لیاقت علی خاں ؒ کی جرابیں پنجوں اور ایڑیوں سے گھس جاتیں تو خاتون اول بیگم رعنا انہیں خود مرمت کر کے پہننے کے قابل بناتیں۔ جب انہوں نے جام شہادت نوش کیا تو اچکن کے نیچے جو معمولی پاپلین کی قمیض وہ پہنے ہوئے تھے اسے پیوند لگے ہوئے تھے اور بنیان پھٹی ہوئی تھی۔ وزیر اعظم چودھری محمد علی نے 56ء کا آئین بنایا۔ بیمار پڑ گئے۔ صدر سکندر مرزا نے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کے لئے بھیجنا چاہا۔ انکار کر دیا کہ میں قومی خزانے کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ نہیں کر سکتا۔ سردار عبدالرب نشتر پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر اور پھر گورنر پنجاب رہے۔ بیمار ہوئے تو علاج کے لئے پشاور میں اپنا جدی گھر بیچنے کا سوچ رہے تھے کہ اس اثنا میں انتقال کر گئے۔ ملک غلام محمد گورنر جنرل، ان کے سیاسی اقدامات پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے لیکن مالی طور پر دیانتدار تھے۔ غلام محمد کا بیٹا بینک میں جونیئر افسر تھا۔ بینک منیجر نے اس کے ذریعے گورنرجنرل کو تحفہ بھیجا۔ جواب میں موچی گیٹ کی زبان میں سخت ڈانٹ ملی اور تحفہ واپس۔ آج مگر ہم کیا ہیں؟ مقروض اور کشکول بدست مقروض ملک کے ایوان صدر میں مشاعرے پر چوبیس لاکھ روپے خرچہ اٹھتا ہے اور عدالتی سزا یافتہ شخص کی دیکھ بھال کے لئے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے چوبیس ڈاکٹروں کی ڈیوٹی لگتی ہے۔ لاڑکانہ میں ایڈز کا مرض نزلے زکام کی طرح پھیلے یا جنوبی پنجاب میں ہیپا ٹائٹس سی اور بی وبائی شکل اختیار کر لے کسی کو پروا نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے لئے گئے سودی قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے نیا قرض لینا پڑے تو یہ قومی مفاد کا سودا اورغیرت کے منافی ہے۔ یا منافقت تیرا آسرا۔