میاں نواز شریف نے وہ کام کیا جو تبت کے دیوتا نے اڑھائی ہزار سال قبل اپنے مسکین داس کے ساتھ کیا تھا، وہ داس بڑا بھائی تھا اور وہ دیوتا کو مانتا تھا، اس نے دیوتا کی مورتی بنا رکھی تھی، وہ روز اس مورتی کے سامنے ماتھا ٹیکتا تھا، اسے ہار پہناتا تھا اور اس کے پاؤں میں پھول چڑھاتا تھا جب کہ دوسرا بھائی دیوتا اور اس کی مورتی کی توہین کرتا تھا، وہ دیوتا کا مذاق بھی اڑاتا تھا اورموقع دیکھ کر کبھی کبھار مورتی کو تھپڑ اور جوتا بھی لگا دیتا تھا، دونوں بھائیوں کے درمیان اس معاملے پر اکثر جھگڑا رہتا تھا، ایک دن چھوٹے بھائی نے مورتی کی طرف دیکھ کر اعلان کیا " میں کل صبح اٹھتے ہی تمہاری مورتی توڑ دوں گا، تم اسے بچا سکتے ہو تو بچا لو" بڑا بھائی پریشان ہو گیا، وہ مورتی کے سامنے بیٹھا اور گڑگڑا کر دیوتا سے دعا مانگنے لگا، دعا کے دوران اسے اونگھ آ گئی، دیوتا نیند کے دوران اس کے خواب میں آیا اور اس نے اپنے داس سے کہا " تمہارا چھوٹا بھائی بہت بدتمیز ہے، یہ کل صبح واقعی میری مورتی توڑ دے گا، میں تمہیں حکم دیتا ہوں، تم میری مورتی بچاؤ، اگر تم نہ بچا سکے تو میں کل تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا"
داس ڈر گیا، اس نے دیوتا کے پاؤں پکڑ لیے اور اس سے عرض کیا " جناب میں تو آپ کو ماننے والا ہوں، میں نے ہمیشہ آپ کی اطاعت کی، میں نے ہر روز آپ کی عبادت کی جب کہ میرا بھائی ہمیشہ آپ کی توہین کرتا ہے مگر آپ اسے سزا دینے کے بجائے میری ٹانگیں توڑ دیں گے، کیوں؟ آپ نے اگر انتقام ہی لینا ہے تو آپ اس گستاخ سے لیں، آپ میری ٹانگیں کیوں توڑیں گے؟ " دیوتا نے افسوس میں سر ہلایا اور دکھی آواز میں بولا " میں اسے کیسے روک سکتا ہوں، وہ تو مجھے مانتا ہی نہیں "۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی تنخواہ دار طبقے کے ساتھ دیوتا جیسا سلوک کیا، یہ بھی ان لوگوں کی ٹانگیں توڑ رہے ہیں جو انھیں ہمیشہ مانتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی مانتے رہیں گے۔
پاکستان میں اگر کوئی طبقہ پوری ایمانداری سے ٹیکس دیتا ہے تو یہ تنخواہ دار بالخصوص پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے لوگ ہیں، ان بے چاروں کو تنخواہ بعد میں ملتی ہے اور ٹیکس پہلے کاٹ لیا جاتا ہے، ان میں زیادہ مظلوم وہ لوگ ہیں جن کی تنخواہیں 60 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ ہیں، حکومت اس بجٹ سے قبل ان کی تنخواہوں سے 25 فیصد ٹیکس کاٹتی تھی گویا آپ اگر ماہانہ پانچ لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں تو آپ کو عملاً 3 لاکھ 75 ہزار ملتے تھے، آپ کا سوا لاکھ روپے ٹیکس کٹ جاتا تھا، یہ لوگ اس سلوک پر ہمیشہ خاموش رہے کیونکہ یہ انتہائی پڑھے لکھے، سمجھ دار اور محب وطن لوگ ہیں، یہ لوگ جانتے ہیں قوموں اور معاشروں کے لیے ٹیکس ضروری ہوتا ہے، اگر لوگ ٹیکس نہیں دیں گے تو اسکول، اسپتال اور سرکاری ادارے نہیں چلیں گے، سڑکیں، پل اور ڈیم نہیں بنیں گے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت عام غریب لوگوں کو امداد نہیں ملے گی۔
یہ لوگ ہمیشہ اپنی تنخواہوں سے چپ چاپ ٹیکس کٹوا دیتے تھے، انھوں نے کبھی ٹیکس چوری کے وہ راستے اختیار نہیں کیے جو اس سسٹم نے جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور سیاستدانوں کے لیے کھلے چھوڑ رکھے ہیں مگر اس خاموشی، اس قربانی کے باوجود حالیہ بجٹ میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، ان کا ٹیکس تیس پینتیس فیصد کر دیا گیا، وزیر خزانہ سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اسحاق ڈار نے جواب دیا " یہ صرف تین ہزار ایک سوچودہ لوگ ہیں، ہم ریاست کو31 سو لوگوں کا غلام نہیں بنا سکتے" ڈار صاحب کی بات درست ہو گی، ریاست کو یقیناً کسی گروپ، کسی مافیا کا غلام نہیں بننا چاہیے لیکن یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں، یہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کا ملک ہے، اس ملک میں صرف تین ہزارایک سو چودہ ایسے لوگ ہیں جو سالانہ 60 لاکھ روپے یا اس سے زائد تنخواہ لیتے ہیں، کیا یہ شرح افسوس ناک نہیں؟
کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہم اٹھارہ کروڑ لوگ 65 برسوں میں صرف اکتیس سو ایسے لوگ پیدا کر سکے ہیں جو اپنی تعلیم، مہارت اور محنت سے اس سطح پر پہنچے کہ یہ اپنی تنخواہ کا پچیس فیصد حصہ ریاست کو دے سکیں، کیا یہ شرم ناک نہیں؟ دو، کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو ننانوے فیصد سیلف میڈ، انتہائی پڑھے لکھے اور ماہر ہیں، یہ اپنی اپنی فیلڈ میں اس سطح پر پہنچے ہیں جہاں پرائیویٹ ادارے انھیں ماہانہ پانچ لاکھ سے زائد تنخواہ دینے پر مجبور ہوئے؟ یہ لوگ یقیناً اپنے اداروں کو ماہانہ کروڑوں روپے کما کر دیتے ہیں اور ریاست اس کمائی پر بھی ٹیکس وصول کرتی ہے، یہ لوگ اداورں کو مہینے میں اتنا سرمایہ کما کر دیتے ہیں کہ مالکان ایک دن کی کمائی انھیں بطور تنخواہ ادا کرتے ہیں، یہ تمام لوگ پرائیویٹ ملازم ہیں، یہ پوری پارلیمنٹ اور پچاس ہزار زمینداروں اور جاگیرداروں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر ریاست اس کے بدلے میں انھیں کوئی سہولت نہیں دیتی، اس ملک میں اس میٹرک پاس سرکاری چپڑاسی کو بھی، جو ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتا، تعلیم، صحت، سرکاری ٹرانسپورٹ اور چھٹیوں کی مفت سہولت حاصل ہے لیکن یہ اکتیس سو لوگ اپنے بچوں کو اپنی جیب سے تعلیم دلواتے ہیں، اس فیس پر بھی ٹیکس کٹواتے ہیں، یہ سر درد سے لے کر کینسر تک ہر مرض کا علاج ذاتی جیب سے کرواتے ہیں اور اس پر بھی ٹیکس دیتے ہیں، یہ گاڑی بھی ذاتی استعمال کرتے ہیں، بجلی اور گیس کے بل بھی دیتے ہیں، یہ بیچارے اپنی سیکیورٹی تک کا بندوبست خود کرتے ہیں اور ان پر بھی ٹیکس کٹواتے ہیں اور ریاست کسی جگہ انھیں سپورٹ نہیں کرتی، ان اکتیس سو لوگوں میں کوئی ایک ایسا شخص نہیں جو جاہل ہو، جو کرپٹ ہو یا جو ریاست کی مدد نہ کرتا ہو جب کہ ان کے مقابلے میں آپ پارلیمنٹ کو دیکھ لیجیے۔
2012-13ء کے اعداد و شمار کے مطابق پارلیمنٹ کے 305 ارکان کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر نہیں تھا، 69فیصد ارکان اسمبلی نے ٹیکس جمع نہیں کرایا، 2011ء میں صدر آصف علی زرداری سمیت34 وزراء نے ٹیکس ریٹرن ہی جمع نہیں کروائی او ان میں وزیرداخلہ رحمن ملک بھی شامل تھے اورپاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کریم احمد خواجہ نے 3ہزارچھ سوچھتیس، حاجی سیف اللہ خان بنگش نے چار ہزار چھتیس، بی این پی کی نسیمہ احسان نے چار ہزار 2 سو 80 اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے 82 روپے ٹیکس جمع کرایا تھا لیکن آپ ان کی مراعات دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے، ہمارے وزراء تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں سے دس دس گاڑیوں کے فلیٹ میں سفر کرتے تھے، یہ بلٹ پروف گاڑیوں کے مزے بھی لوٹتے تھے، یہ چارٹر ہوائی جہازوں میں بھی سفر کرتے تھے، ان کی بجلی، گیس، ٹیلی فون اور علاج فری تھا اور یہ آج بھی فری ہے، 2011-12ء میں 15 ارکان اسمبلی اور اہم ملکی شخصیات نے غیر ممالک سے 12 کروڑ روپے میں اپنا علاج کرایا، یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا ہوئی جب کہ ان کا ٹیکس ہزاروں روپے میں تھا۔
پاکستان میں آج بھی ہزار ہزار مربعے کے مالک جاگیردار ٹیکس نہیں دیتے، کاروباری طبقے کا ٹیکس بھی عوام کے سامنے ہے اور آج تک سیاسی جماعتوں کے فنڈز اور چندوں کا اصلی آڈٹ نہیں ہو سکا، میاں نواز شریف کل تک دعویٰ کرتے تھے ہم فوج اور آئی ایس آئی کا بجٹ قومی اسمبلی میں ڈسکس کرائیں گے لیکن یہ کم از کم اس بجٹ میں نہیں ہو سکا مگر دیوتاؤں کی طاقت ماننے والے اکتیس سو داسوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا اور وزیرخزانہ نے فرمایا ہم ریاست کو تین ہزار لوگوں کا غلام نہیں بنا سکتے، گویا ریاست ان پانچ لاکھ ڈاکٹروں، ایک لاکھ وکیلوں، دس لاکھ ٹھیکیداروں، پچاس ہزار جاگیرداروں اور دو ہزار سیاستدانوں کی غلام بن سکتی ہے جو ایک ایک دن میں دس دس لاکھ روپے کما لیتے ہیں اور ریاست کو دھیلا نہیں دیتے مگر ان اکتیس سو لوگوں کی گردن سے چھری نہیں اٹھا سکتی جو اس معاشرے کے رول ماڈل ہیں، جو روز اپنی ایڑھیوں سے چشمہ رواں کرتے ہیں اور پورے معاشرے کی پیاس بجھاتے ہیں۔
حکومت اگر کراچی شہر میں ٹی ٹی پستولوں پر ٹیکس لگا دیتی، یہ ٹول پلازوں سے گزرنے والی بڑی گاڑیوں کے ٹول میں سو فیصد اضافہ کر دیتی، یہ جاگیرداروں سے ٹیکس وصول کر لیتی، یہ سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرا دیتی، یہ غیر ملکی اثاثوں پر ٹیکس لگا دیتی، یہ کنال سے بڑے گھروں اور فارم ہاؤسز پر ٹیکس لگا دیتی، یہ غیر ملکی سفر پر ٹیکس بڑھا دیتی، یہ ارکان اسمبلی کے ٹیکس میں سو فیصد اضافہ کر دیتی، یہ بڑے لوگوں کے کتوں کو ٹیکس نیٹ میں لے آتی، یہ مجروں پر ٹیکس لگا دیتی، یہ ویسٹ کوٹوں، کلف کے لگے سوٹوں پر ٹیکس لگا دیتی اور یہ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور مراعات کو ان کی کارکردگی سے وابستہ کر دیتی تو یہ یقیناً اربوں روپے ٹیکس جمع کر لیتی لیکن کیونکہ اسحاق ڈار صاحب کے پیٹی بھائی اس ریاست کو تسلیم ہی نہیں کرتے چنانچہ جب بھی ٹانگیں توڑنے کی باری آتی ہے تو حکومت ان بے چارے اکتیس سو لوگوں کو مزید چھوٹا کر دیتی ہے۔
یہ انھیں اپنے بازوؤں پر چک مارنے پر مجبور کر دیتی ہے جو ریاست کو دیوتا مانتے ہیں، جو اس کے گلے میں ہار ڈالتے ہیں، یہ اس سزا کے حق دار بھی ہیں کیونکہ یہ اس ریاست کو ریاست مانتے ہیں، یہ دل سے اس پاک سرزمین کو شاد باد کہتے ہیں، یہ بے چارے کوئٹہ کے پہاڑوں پر چڑھ کر شہر پر میزائل نہیں پھینکتے، یہ گیس پائپ لائن نہیں اڑاتے اور یہ قائداعظم کی رہائش گاہ کو آگ نہیں لگاتے، یہ ملک سے محبت کرنے والے محنتی لوگ ہیں جب کہ ریاست صرف لوٹنے والوں کا احترام کرتی ہے، یہ صرف مارنے اور جلانے والوں کو مانتی ہے، یہ ہڑتال کرنے والے سرکاری ملازموں کی سن لے گی، اس کے پاس ان اکتیس سو لوگوں کے لیے وقت ہو گا اور نہ ہی رحم، جن میں ہر شخص کامیابی اور محنت کی عظیم مثال ہے، جس نے اپنی محنت سے اس ملک کی معاشی فلاسفی بدل کر رکھ دی جس میں آج بھی سیاستدان کو سیاست اور وزیر کو وزارت کے ہجے نہیں آتے، جس میں مسجد کمیٹی کے رکن چندہ، انکم سپورٹ پروگرام کے متولی غریبوں کے ہزار روپے اور مذہبی امور کے بابو حاجیوں کا زادہ راہ کھا جاتے ہیں اور ریاست خاموشی سے لٹیروں کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔