میں نے پیرس شہر میں ریستوران میں پانی مانگا، ویٹرس میرے سامنے بار پر گئی، اس نے ٹونٹی کھولی، جگ میں پانی بھرا، اس میں پودینے کے دو پتے ڈالے اور جگ میرے سامنے رکھ دیا۔
میں نے جگ کی طرف دیکھا اور ویٹرس سے پوچھا " کیا یہ منرل واٹر ہے" اس نے ہنس کر جواب دیا " جی نہیں یہ ٹیپ واٹر (ٹونٹی کا پانی) ہے" میں نے حیرت سے پوچھا " کیا واٹر سپلائی پینے کے لیے محفوظ ہے" اس نے ہنس کر جواب دیا " پیرس کی ساری آبادی یہ پانی پیتی ہے" میں نے پوچھا " وزیراعظم اور صدر بھی" اس نے جواب دیا " ملک کی پوری کابینہ، تمام ارکان پارلیمنٹ، پیرس کے ارب پتی تاجر اور ملک کے عام لوگ، سب یہ پانی پیتے ہیں " میں نے پوچھا "فرانس کا منرل واٹر پوری دنیا میں مشہور ہے، آپ لوگ یہ کیوں نہیں پیتے" اس نے جواب دیا " ہم لوگ پانی کی بوتلیں صرف سفر کے دوران خریدتے ہیں، ہم گھروں، دفتروں اور ریستورانوں میں عام نلکے کا پانی پیتے ہیں " میں نے پوچھا " یہ پانی آلودہ تو نہیں ہوتا؟ " اس نے ہنس کر جواب دیا " منرل واٹر میں 9 منرلز ہوتی ہیں جب کہ سپلائی کے پانی میں 21 منرل ہیں اور یہ منرل واٹر سے زیادہ صاف اور زیادہ محفوظ ہے" میں نے گلاس میں پانی ڈالا اور بے خطر پی گیا لیکن ساتھ ہی اپنے آپ سے پوچھا " کیا میں یہ رسک پاکستان میں بھی لے سکتا ہوں " میرا جواب "نہیں " تھا، میں نے اپنے آپ سے مزید پوچھا " کیا میں بچپن سے منرل واٹر پی رہا ہوں " اس کا جواب بھی " نہیں " تھا۔
ہم سب، صدر آصف علی زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک ایک لمحے کے لیے ماضی میں چلے جاتے ہیں، ہم 80 کی دہائی میں چلے جاتے ہیں اور اس وقت کے پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں، پاکستان میں اس وقت منرل واٹر کا نام و نشان نہیں تھا، پورا ملک نلکے اور میونسپل کمیٹی کی سپلائی کا پانی پیتا تھا، گلیوں، چوکوں اور سڑکوں پر واٹر سپلائی کے لیے ٹونٹیاں لگی ہوتی تھیں اور ہم سڑک اور گلی میں کھڑے ہو کر ہاتھ کی " اوک" بنا کر پانی پی جاتے تھے اور میاں نواز شریف سے لے کر صدر آصف علی زرداری تک کسی کا پیٹ خراب ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی بیمار ہوتا تھا لیکن آج پاکستان کے کسی شہر، کسی قصبے حتیٰ کہ کسی گائوں کا پانی صاف نہیں، آج لوگ دیہات اور قصبوں تک میں منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں۔
آپ حد ملاحظہ کیجیے واسا کے اہلکار بھی منرل واٹر پیتے ہیں اور واٹر سپلائی کی میٹنگز میں بھی میز پر منرل واٹر کی بوتلیں پڑی ہوتی ہیں، صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور گورنر سمیت ملک کی تمام کابینوں اور تمام اسمبلیوں کے ارکان بھی منرل واٹر پیتے ہیں اور ملک کے تمام سرکاری دفاتر، تمام پرائیویٹ کمپنیوں اور تمام فیکٹریوں میں بھی منرل واٹر پیا جاتا ہے۔ آپ بیڈ گورننس کی انتہا دیکھئے پاکستان کی کوئی حکومت کسی صوبائی دارالحکومت میں صاف پانی فراہم نہیں کر پا رہی، اسلام آباد پاکستان کا صاف ستھرا، مہنگا ترین اور جدید ترین شہر ہے، اس شہر میں بھی آپ واٹر سپلائی سے وضو نہیں کر سکتے کیونکہ شہر میں واٹر سپلائی کے پائپ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے ہیں، ان میں سیوریج کا پانی شامل ہو رہا ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے پینے کے پانی میں دو دو انچ لمبے کیڑے دیکھے ہیں۔
اگر وفاقی حکومت دارالحکومت میں صاف پانی فراہم نہیں کر سکتی تو آپ باقی ملک کا اندازہ خود لگا لیجیے، اگر سی ڈی اے کے ملازمین منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں تو آپ باقی شہریوں کی صورتحال خود سمجھ سکتے ہیں۔ آپ پانی کی طرح اسپتالوں، اسکولوں اور سیکیورٹی کی صورتحال کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں، مجھے یقین ہے 80 کی دہائی تک میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری اپنا علاج سرکاری اسپتالوں میں کراتے ہوں گے اور پاکستانی کمپنیوں کی بنائی ادویات کھاتے ہوں گے لیکن کیا یہ آج بھی سرکاری اسپتالوں میں جاتے ہیں اور میڈ ان پاکستان دوائیں کھاتے ہیں، آپ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے بیرون ملک دوروں کا ڈیٹا نکال لیں، آپ کو یہ درجنوں بار اپنا میڈیکل چیک اپ کرانے یا اپنے خاندان کا علاج کرانے کے لیے ملک سے باہر جاتے دکھائی دیں گے۔
میاں شہباز شریف ہر دوسرے مہینے میڈیکل چیک اپ کے لیے لندن جاتے ہیں، ہم عام لوگ بھی 80 کی دہائی میں سرکاری ڈاکٹروں اور سرکاری اسپتالوں میں جاتے تھے لیکن آج ہم بھی پرائیویٹ کلینک میں جاتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے ہم باہر سے ادویات منگوا کر کھائیں۔ 80 کی دہائی تک ہمارے حکمران، بیورو کریٹ، فوج اور بزنس کلاس کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے بھی سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی لیکن آج ان سب کے بچے امریکن اسکولوں میں پڑھتے ہیں یا پھر بیرون ملک زیر تعلیم ہیں، ہم عام لوگ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں اور 80 کی دہائی تک ہمارے گھروں کے سامنے کوئی سیکیورٹی گارڈ نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے دروازے رات بارہ بجے تک کھلے رہتے تھے اور ہمارے بچے گلیوں میں رات گئے تک کھیلتے رہتے تھے اور کسی کو ذرا برابر خوف نہیں ہوتا تھا، میں نے اپنی آنکھوں سے وزیروں، مشیروں اور کروڑ پتی بزنس مینوں کو اکیلے پھرتے دیکھا لیکن کیا آج ہم اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ سکتے ہیں، کیا ہم اپنے بچوں کو گلی میں کھیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور کیا آج گارڈز اور اسلحے کے بغیر ملک کا کوئی تاجر، کوئی سینئر بیورو کریٹ اور کوئی سیاستدان اپنے ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل سکتا ہے، ملک کی حالت یہ ہے کہ عوام کے محبوب ترین لیڈر کو اپنے حلقے میں جانے کے لیے پولیس، ایلیٹ اور رینجرز کی بھاری نفری چاہیے اور آئی جی پولیس، ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر سیکیورٹی کے بغیر گھروں سے نہیں نکلتے۔
ہم اگر 80 کی دہائی کے پاکستان کا 2012سے تقابل کریں تو ہمیں 80 کا پاکستان آج کے پاکستان سے ہزار درجے اچھا دکھائی دیتا ہے، اس وقت ٹریفک اتنی بے ہنگم نہیں تھی، پالوشن بھی نہیں تھی، شہروں میں گندگی اور کوڑا کرکٹ بھی نہیں تھا، چوری چکاری، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت گری بھی نہیں تھی، اس وقت شیعہ سنی اور سنی شیعہ سے چھپتا نہیں پھر رہا تھا اور اس وقت پشاور صرف پشتونوں، لاہور صرف پنجابیوں، کوئٹہ صرف بلوچوں اور کراچی صرف مہاجروں یا سندھیوں کا شہر نہیں تھا، پاکستان کے سارے شہر ہمارے تھے اور ہم بلا روک ٹوک پورے ملک میں پھرتے تھے لیکن آج میرا شناختی کارڈ میری موت کا پروانہ بن گیا ہے، میں اگر شیعہ اکثریت کے علاقے میں فاروق ہوں تو مارا جائوں گا اور اگر میرے نام کے ساتھ نقوی، مشہدی، حسین یا علوی آ گیا تو میں سنیوں کے ہاتھوں مارا جائوں گا۔
میں پنجابی ہوں تو میں کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں محفوظ نہیں ہوں اور اگر میں سندھی، پشتون اور بلوچی ہوں تو پھر پشاور، کراچی، کوئٹہ اور لاہور میرے لیے غیر محفوظ ہو جائیں گے چنانچہ ہمیں آج اس ملک میں 80 کا پاکستان بھی نہیں مل رہا، ہم اس سے بھی دور ہو گئے ہیں اور ہماری لیڈر شپ کس قدر بانجھ ہے، یہ کسی ایک شہر کو بین الاقوامی نہیں بنا سکے، یہ کسی ایک شہر کو صاف پانی، اعلیٰ تعلیم، شاندار سرکاری اسپتال اور سیکیورٹی نہیں دے سکے، یہ اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی یا کوئٹہ ہی کو محفوظ ترین شہر بنا دیں، یہ لاہور کے تمام شہریوں کو صاف پانی فراہم کر دیں۔
یہ اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا بلند کر دیں کہ راجہ پرویز اشرف کے پوتے ان اسکولوں میں پڑھ سکیں، یہ کوئٹہ شہر کے اسپتالوں کو اتنا شاندار بنا دیں کہ نواب اسلم رئیسانی کو علاج کے لیے دوبئی نہ جانا پڑے اور یہ پشاور یا کراچی کو اس قدر محفوظ بنا دیں کہ وزیراعلیٰ، آئی جی اور وزراء سمیت کسی بزنس مین کو شہر میں نکلنے کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، یہ لوگ بھی عام لوگوں کی طرح سڑکوں پر دکھائی دیں اور کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھے، اگر ہمارے حکمران کسی ایک شہر کو اتنا محفوظ، اتنا صاف اور اتنا بلند معیار نہیں بنا سکتے تو پھر اس ملک میں ان سے بڑا بانجھ، ان سے بڑا نالائق کوئی نہیں اور ہم بار بار انھیں چن کر اپنی قبریں کھود رہے ہیں۔