پیر صابر شاہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پرانے کارکن اور رہنما ہیں۔
یہ 1993-94ء میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ بھی رہے، یہ پیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، میں جب بھی انھیں ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں یا اخبارات میں ان کا کوئی بیان پڑھتا ہوں تو مجھے بے اختیار ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں پیر صابر شاہ کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، یہ 2001-02ء کا واقعہ تھا، اسلام آباد میں ہائی پروفائل ڈنر تھا، ڈنر میں ایک سابق وفاقی سیکریٹری ہماری میز پر بیٹھے تھے، پاکستان مسلم لیگ ق ان دنوں تازہ تازہ بنی تھی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم مہرے درجنوں کے حساب سے ٹوٹ ٹوٹ کر شاہی جماعت میں شامل ہو رہے تھے، ہماری میز پر بیٹھے حضرات ان مہروں کا نام لے رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے اور ان کی سابق وفاداریوں کے واقعات سنا رہے تھے۔
گفتگو کے دوران سابق سیکریٹری نے مجھ سے پوچھا " کیا صابر شاہ بھی پاکستان مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے ہیں " میں نے ہنس کر جواب دیا " نہیں، یہ ابھی تک اپنی پوزیشن پر قائم ہیں " سیکریٹری نے قہقہہ لگایا اور مجھے ایک عجیب ذمے داری سونپ دی، انھوں نے کہا " پیر صابر شاہ نے میرے سامنے میاں نواز شریف سے کہا تھا میرے والد نے مرنے سے پہلے میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیا تھا، میں مرنے تک آپ کا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا" وہ سابق سیکریٹری رکے اور اس کے بعد بولے "پیر صابر شاہ جس دن اپنی وفاداری تبدیل کریں گے تم نے ان کے پاس جانا ہے، انھیں یہ واقعہ سنانا ہے اوران سے عرض کرنا ہے آپ نے اقتدار کے لیے اپنے والد کی قسم بھی توڑ دی" اور اس کے بعد میز پر موجود تمام لوگوں نے قہقہہ لگایا۔
میں اس دن سے اس وقت کا انتظار کر رہا ہوں جب پیر صابر شاہ میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑیں اور میں انھیں ان کا دعویٰ یاد کرائوں لیکن پیر صابر شاہ نے پچھلے گیارہ برسوں میں وہ موقع نہیں آنے دیا، 2002ء سے 2008ء تک اقتدار کی گنگا ان کے اردگرد بہتی رہی مگر یہ اپنے والد کے وعدے پر قائم رہے، میری پوری زندگی میں ان سے دو سے زائد ملاقاتیں نہیں ہوئیں مگر میں ان کی استقامت کی وجہ سے ان کا فین ہوں، صابر شاہ کی اس استقامت کو کریکٹر کہتے ہیں اور یہ وہ جنس ہے جسے ہماری سیاست سے رخصت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں، پاکستان میں بدقسمتی سے سیاست 1964ء سے سیاست نہیں رہی یہ حصول اقتدار کا ذریعہ بن چکی ہے اور اقتدار کی اس ریس میں اصول اور کریکٹر بہت پیچھے رہ گئے ہیں چنانچہ بے اصولی اور ہوس اقتدار کے اس جوہڑ میں پیرصابر شاہ جیسے چند کنول بہت اچھے لگتے تھے مگر 2012ء میں پہنچ کر یہ لوگ اب نادان بلکہ اگر یہ گستاخی نہ ہو تو بے وقوف لگنے لگے ہیں، یہ لوگ نادان کیوں لگ رہے ہیں، اس کی وجہ پیر صابر شاہ کی استقامت کی طرح شاندار ہے۔
ہم لوگوں نے 2002ء میں ایسے ایسے لوگوں کو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے ٹوٹتے ہوئے دیکھا جو اپنے رہنمائوں کو قسم جتنی اہمیت دیتے تھے، جن کا سورج تک جاتی عمرہ اور گڑھی خدا بخش سے نکلتا تھا اور جو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام لینے سے پہلے ٹوتھ پیسٹ کرتے تھے، یہ لوگ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے ٹوٹ کر شاہی جماعت میں شامل ہوئے، وزارتیں، سفارتیں اور مشاورتیں حاصل کیں، پانچ سال ٹکا کر حکومت کی، اقتدار کے مزے لوٹے، زمینیں، جائیدادیں، کارخانے بنائے اور اقتدار سے جی بھر کر منہ دھویا۔ یہ کھیل جس وقت جاری تھا اس وقت چند لوگ اپنے قدموں پر کھڑے رہے، ان لوگوں نے وفا کی مٹی سے پائوں نہ اٹھایا، ان میں پیر صابر شاہ بھی شامل تھے، اسحاق ڈار بھی، چوہدری نثار بھی، خواجہ آصف بھی، احسن اقبال بھی، پرویز رشید بھی، شاہد خاقان عباسی بھی اور خواجہ سعد رفیق بھی۔
اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے رہنے والے لوگوں میں میاں رضا ربانی، چوہدری اعتزاز احسن، امین فہیم، نذر محمد گوندل، قمر زمان کائرہ اور جہانگیر بدر شامل تھے، میں اس دور میں ان لوگوں کی استقامت دیکھتا تھا تو ان کے کریکٹر کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف نے وفاداری کی اس جنگ میں جیل بھی دیکھی اور تشدد بھی سہا، احسن اقبال کو وفاداری کی تبدیلی کے بدلے تعلیم کی وفاقی وزارت یا منصوبہ 2010ء جاری رکھنے کی پیش کش بھی ہوئی، اس طرح جنرل پرویز مشرف میاں رضا ربانی، چوہدری اعتزاز احسن، ڈاکٹر صفدر عباسی اور مخدوم امین فہیم کو بہت پسند کرتے تھے، جنرل صاحب نے چوہدری اعتزاز احسن اور مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمیٰ تک کی پیش کش کی لیکن ان لوگوں نے بھی استقامت کا مظاہرہ کیا مگر آج دس بارہ سال بعد یہ لوگ نادان محسوس ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ان لوگوں نے اپنی جگہ کھڑے رہ کر غلطی کی۔
انھیں بھی 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ ق میں شامل ہو جانا چاہیے تھا، یہ بھی گنگا میں اشنان کرنے والے سیاسی ننگوں کے ساتھ عیش کرتے، پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے، 2008ء میں تھوڑی سی اپوزیشن دیکھتے اور اس کے بعد سلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر عبدالرحمن، امیر مقام، طارق عظیم، کشمالہ طارق، سمیرا ملک اور ماروی میمن کی طرح میاں نواز شریف سے ملاقات کرتے، ان کے ساتھ تصویر بنواتے، پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوتے، اپنا ٹکٹ پکا کرتے، 2013ء میں الیکشن لڑتے، جیتتے اور اگلی حکومت میں ایک بار پھر وزیر بن جاتے، یہ لوگ پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ میں شامل ہو جاتے، پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوتے، 2008ء تک عیش کرتے اور اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد میں شامل ہوجاتے، چار سال مزید صدر آصف علی زرداری کی مونچھ کے بال رہتے۔
2012ء کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کرتے اور تیسری ٹرم کے اہم مہرے بھی بن جاتے، کیا یہ لوگ نادان نہیں ہیں کیونکہ انھیں رضا ربانی، ڈاکٹر صفدر عباسی، جہانگیر بدر، اسحاق ڈار، خواجہ آصف، احسن اقبال، چوہدری نثار علی، خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی اور پیر صابر شاہ بننے کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ لوگ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دھکے کھاتے رہے اور اپنی قیادت کی واپسی کے بعد بھی راندہ درگاہ رہے، یہ کل بھی خسارے میں تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی ہوں گے۔
آپ پاکستان کی سیاست کا کمال دیکھئے آج چوہدری پرویز الٰہی اور میاں منظور وٹو صدر آصف علی زرداری کے کندھوں کے فرشتے بن کر پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور حماقتوں کا دفاع کر رہے ہیں اور ماروی میمن، میرے عزیز ترین دوست طارق عظیم، جنرل پرویز مشرف کے وہ وزیر قانون زاہد حامد جنہوں نے میاں نواز شریف کو پانچ سال تک انصاف کے قریب نہیں پھٹکنے دیا، سلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر، حامد ناصر چٹھہ، امیر مقام، کشمالہ طارق اور سمیرا ملک مسلم لیگ ن کا جھنڈا اٹھا کر پھر رہے ہیں، یہ " ہمارے میاں صاحب" کا نعرہ لگا رہے ہیں اور خواجہ آصف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار دور کھڑے اقتدار کی نظریں بدلتے دیکھ رہے ہیں، کاش کوئی شخص 2002ء سے 2012ء کی وڈیو ریسرچ کرے اور یہ ان تمام لوگوں کے میاں صاحبان اور پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں نشر ہونے والے خیالات ایک جگہ جمع کر دے تو مجھے یقین ہے شرمندگی سے ان لوگوں کے ماتھے پر بھی پسینہ آ جائے گا۔
ابھی تو محترم گوہر ایوب، عمر ایوب، فصیح بخاری اور محمد علی درانی بھی ن لیگ کی ریسپشن پر پہنچ گئے ہیں اور کسی بھی وقت ان کی بھی میاں نواز شریف کے ساتھ تصاویر جاری ہو جائیں گی، میاں نواز شریف انھیں بھی پارٹی میں خوش آمدید کہیں گے اور ساتھ ہی ایک طویل خطاب فرمائیں گے جس میں بارہ اکتوبر کے شب خون کا ذکر بھی ہو گا اور جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ پالیسیوں کا ماتم بھی۔ میں بھی خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کی طرح نادان ہوں کیونکہ میں بھی یہ سمجھتا تھا ملکی سیاست سے نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے۔
لیکن جس دن صدر آصف علی زرداری نے قوم کے وسیع تر مفاد میں پاکستان مسلم لیگ ق کو گلے لگایا اور چوہدری صاحبان نے ماضی کے " سیکیورٹی رسک" کو پاکستان اور جمہوریت کا تحفظ مانا اور میاں شہباز شریف نے پنجاب کی حکومت کے عوض پاکستان مسلم لیگ ق کے 47 ایم پی اے ہتھیا لیے اور میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کو اچھے ق لیگیوں اور برے ق لیگیوں میں تقسیم کیا اور جب انھوں نے کل کے بے وفائوں کے لیے اپنے دروازے اور باہیں دونوں کھول دیں تو مجھے یقین ہو گیا اس ملک سے نظریہ ضرورت کبھی رخصت نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی شاخیں صرف فوج اور عدلیہ کے جگر میں پیوست نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری سیاسی قیادت کے ضمیر میں بھی گڑی ہوئی ہیں اور جب اقتدار اصولوں سے بڑی حقیقت ہو جائے تو پھر خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، پیر صابر شاہ اور پرویز رشید جیسے لوگ نادان ہو جاتے ہیں اور نادان اسی سلوک کے حق دار ہوتے ہیں، یہ کل بھی محروم تھے، یہ آج بھی محروم ہیں اور یہ کل بھی محروم رہیں گے، یہ سیاسی جذبات کے شکار ناسمجھ لوگ ہیں اور ناسمجھوں اور جذباتی لوگوں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔
میں اکثر سوچتا ہوں اگر جنرل پرویز مشرف کی " پالیسیاں " میاں نواز شریف کی میز پر بیٹھ چکی ہیں تو پھر جنرل پرویز مشرف اور شیخ رشید کا کیا قصور ہے، میاں نواز شریف انھیں بھی پارٹی میں شامل کیوں نہیں کر لیتے کیونکہ میاں نواز شریف کو نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن، چیف جسٹس کے خلاف احکامات جاری کرنے اور لال مسجد آپریشن کے حق میں میڈیا پر تقریریں کرنے والوں میں کوئی نقص نظر نہیں آرہا تو پھر بے چارے شیخ رشید اور جلاوطن پرویز مشرف کا کیا قصور ہے، یہ بھی تو اس وقت قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے بہت اہم ہیں، اگر روزہ ہی توڑنا ہے تو پھر شراب کا گھونٹ بھرنے میں کیا حرج ہے، آپ انھیں بھی لے لیں تا کہ جمہوریت کا منہ پوری طرح کالا ہوجائے۔