ندیم افضل چن پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے بھی اور پنجاب کے ایک نامور سیاسی خاندان کی دوسری نسل بھی۔ یہ سچے اور کھرے انسان ہیں، یہ پہلے ایم این اے ہیں جنہوں نے آج سے تین سال پہلے اعتراف کیا تھا عمران خان دونوں سیاسی جماعتوں میں ڈنٹ ڈالیں گے، ہم ندیم افضل سے سو اختلاف کر سکتے ہیں، ہمیں ان سے شخصی، سیاسی اور نظریاتی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن پر ابھی تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا، ندیم افضل چن کے بعد صمصام بخاری بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
ندیم افضل چن چند دن قبل کسی ٹاک شو میں گفتگو کررہے تھے، ندیم افضل نے پروگرام میں جوش سے ریمارکس دیے " پارلیمنٹ کو کوئی شخص بالادست ماننے کے لیے تیار نہیں " یہ ریمارکس دیتے ہوئے ندیم افضل کے لہجے میں جوش بھی تھا اور بے چارگی بھی۔ ندیم افضل چن کی بات رسوائی کی حد تک درست ہے۔ یہ سچ ہے پارلیمنٹ ملک کا معتبر اور بالادست ترین ادارہ ہوتا ہے اور قومیں اس ادارے کی حرمت، عزت اور توقیر پر ہمیشہ فخر کرتی ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے یہ ادارہ بے توقیری، بے عزتی اور بے حرمتی کا شکار ہے اور آج ملک کا کوئی ادارہ اس کی بالادستی ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن سوال یہ ہے پارلیمنٹ اس بے حرمتی کا کیوں شکار ہے؟
سرکاری ادارے، سرکاری شخصیات اور عوام پارلیمنٹ کا احترام کیوں نہیں کرتے، اس کی وجہ بہت سادہ اور سیدھی ہے، انسان کریکٹر کی وجہ سے شخصیات اور اداروں کا احترام کرتا ہے، اگر کریکٹر نہ ہو تو انسان بڑے سے بڑے عالم، بڑے سے بڑے حکمران اور بڑی سے بڑی شخصیت کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا، آج شام میں بشار الاسد کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس سے پہلے کرنل قذافی، حسنی مبارک، زین العابدین اور صدام حسین کے ساتھ کیا ہوا؟ اور آج جنرل پرویز مشرف کس بات کی سزا بھگت رہے ہیں؟
یہ کریکٹر کی کمی تھی جس کی وجہ سے آج وہ تمام لوگ دنیا بھر میں رسوا ہو رہے ہیں یا پھر عبرت کی موت مارے گئے ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے وی آئی پی کہلاتے تھے اور ان کے جہاز گزارنے کے لیے سیکڑوں کمرشل فلائیٹس کے رخ بدل دیے جاتے تھے اور یہ کبھی دنیا کے بالادست ترین لوگ سمجھے جاتے تھے لیکن پھر ان کے ساتھ کیا ہوا؟ صدام حسین کو جیل میں پھانسی دے دی گئی، کرنل قذافی کو ان کے اپنے عوام نے سڑک پر مار دیا۔ حسنی مبارک کو اسٹریچر پر عدالت لایا جاتا ہے، زین العابدین جان بخشی کے لیے ساری جمع پونجی دینے کے لیے تیار ہیں، بشار الاسد خود کو بچانے کے لیے اپنے ہی شہریوں پر گولہ باری کرا رہے ہیں اور پرویز مشرف ریڈوارنٹ سے بچنے کے لیے لندن اور دوبئی کے درمیان بھاگتے پھر رہے ہیں، یہ لوگ کبھی دنیا بھر کے لیڈر ہوتے تھے لیکن صرف کریکٹر کی کمی کی وجہ سے ذلیل اور رسوا ہو گئے۔
سوال یہ ہے کریکٹر ہوتاکیا ہے؟ آپ اس کے لیے قائداعظم کی مثال لیجیے، قائداعظم کلین شیو تھے، یہ شیو کے معاملے میں اس قدر حساس تھے کہ انھوں نے زندگی کے آخری دن بھی شیو کے بغیر کراچی جانے سے انکار کر دیا، قائداعظم نے زندگی میں کوئی عمرہ، کوئی حج نہیں کیا تھا، یہ تبلیغ پر بھی نہیں گئے، انھوں نے زندگی میں کوئی مسجد، کوئی مدرسہ بھی نہیں بنوایا، یہ عربی اور اردو زبان بھی روانی سے پڑھ اور بول نہیں سکتے تھے، آپ سے نماز کی باقاعدگی اور روزے کے تسلسل کی شہادت بھی نہیں ملتی اور آپ قرآن مجید اور احادیث کا مطالعہ بھی انگریزی زبان میں کرتے تھے، قائداعظم کا لباس مغربی، معاشرت مغربی، زبان مغربی، خوراک مغربی اور پرورش مغربی تھی، قائداعظم نے کتے بھی پال رکھے تھے،
آپ کی کتوں کے ساتھ تصاویر بھی ہیں اور آپ نے زندگی میں کوئی اسلامی کتاب بھی نہیں لکھی لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے کروڑوں مسلمان آپ کے راستے میں پلکیں بچھاتے تھے، لوگ آپ کے ہاتھ چومنے کے لیے ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیتے تھے اور آج بھی لوگ جوتے اتار کر آپ کے مزار میں داخل ہوتے ہیں، کیوں؟ لوگ ایک کلین شیو شخص کا اتنا احترام کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ آپ کا کریکٹر ہے۔ کریکٹر یا کردار دس چیزوں سے بنتا ہے اور قائداعظم میں یہ دس کی دس خوبیاں موجود تھیں، کریکٹر کی پہلی خوبی ایمانداری ہوتی ہے، قائداعظم ایمانداری کی انتہا کو چھو رہے تھے، قائد کی ذات پر بے ایمانی کا چھوٹاسا چھینٹا بھی نہیں تھا،
یہ کیس لڑنے کے لیے آگرہ گئے، مسلم لیگ نے وہاں جلسہ رکھ لیا، قائداعظم نے یہ کہہ کر اس جلسے میں شرکت سے انکار کر دیا " میں موکل کے خرچ پر آگرہ آیا ہوں، یہاں کیس کے علاوہ ہر قسم کی سرگرمی بے ایمانی ہو گی، آپ مجھے جب بلائیں میں ذاتی خرچ پر یہاں آئوں گا لیکن آج نہیں " قائداعظم کا آخری سانس تک کوئی فارن اکائونٹ تھا، کوئی فارن پراپرٹی تھی اور آپ نے نہ ہی کسی این آر او پر سائن کیا تھا، یہ اپنی ساری جائیداد بھی تین تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر گئے اور ان میں سے ایک ادارہ بھارت میں تھا۔ کردار کی دوسری خوبی بے خوفی ہوتی ہے، قائداعظم ہر قسم کے خوف سے آزاد تھے، یہ کبھی مولویوں کے فتوئوں سے گھبرائے، انگریزوں کی طاقت سے خائف ہوئے، کانگریس کی سیاست بازی سے پریشان ہوئے اور نہ ہی خاکساروں کے قاتلانہ حملوں سے ڈرے۔
یہ آخری وقت تک اللہ کے بھروسے پر گارڈز اور سیکیورٹی کے بغیر زندگی گزارتے رہے۔ وقت کی پابندی کردار کی تیسری خوبی ہوتی ہے، قائداعظم نے آخری سانس تک وقت کی پابندی کی، گھڑی کی سوئیاں غلطی کر سکتی تھیں لیکن قائداعظم وقت سے دائیں بائیں نہیں ہوتے تھے۔ قانون کی پابندی کردار کی چوتھی خوبی ہوتی ہے، قائداعظم نے پوری زندگی قانون کی پابندی کی، یہ قانون انگریز کا تھا یا پاکستان کا، قائداعظم نے کبھی قانون کی لکیر پر پائوں نہیں آنے دیا اور یہ وہ خوبی تھی جس کی وجہ سے قائداعظم کبھی جیل نہیں گئے۔
کریکٹر کی پانچویں خوبی فراخ دلی ہوتی ہے، قائداعظم کا دل تنگ نہیں تھا، یہ لوگوں کو فرقوں، مذاہب اور کمیونٹیز میں تقسیم نہیں کرتے تھے۔ اٹل اصول کریکٹر کا چھٹا، وژن ساتواں، تعلیم آٹھواں، محنت نواں اور امید دسواں اصول ہوتی ہے، قائداعظم نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، الیکشن جیتنے، حکومت برقرار رکھنے، عدالتی فیصلوں سے بچنے اور اپنی دولت بچانے کے لیے کبھی اصول پر کمپرومائز نہیں کیا، آپ کا وژن بھی بہت صاف تھا اور آپ پوری زندگی اس وژن کی تبلیغ کرتے رہے، آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور آپ کے ساتھی بھی جدید تعلیمی اداروں سے نکل کر آئے تھے، آپ نے کسی جعلی ڈگری ہولڈر کو قریب نہیں پھٹکنے دیا، آپ نے پوری زندگی محنت کی، آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ضایع نہیں ہوا اور آپ نے کبھی امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
پوری دنیا یہ سمجھتی تھی پاکستان ممکن نہیں لیکن آپ ٹی بی کے مرض اور کافراعظم جیسے خطابوں کے باوجود کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ کریکٹر کی یہ خوبیاں تھیں جن کے باعث ہندوستان کے تمام علماء، مفتیان، گدی نشین، الحاج، جاگیردار اور امیرشریعت ایک طرف اور کلین شیو قائداعظم دوسری طرف اور لوگ دیوانہ وار کلین شیو قائداعظم کے پیچھے پیچھے۔ یہ کریکٹر تھا جس نے تاجر خاندان کے ایسے وکیل بچے کو ہندوستان کے مسلمانوں کا لیڈر بنا دیا جس نے زندگی کا دو تہائی حصہ انگریزی تہذیب میں گزارا اورجو سوچتا تک انگریزی اسٹائل میں تھا جب کہ بڑے بڑے عربی دان اور پرہیز گار پیچھے رہ گئے۔
دنیا میں عزت اور بالادستی کریکٹر کو ملتی ہے اور ہمارے لیڈر اور ہماری پارلیمنٹ بدقسمتی سے کریکٹر میں مار کھا رہی ہے چنانچہ لوگ اور ادارے اس کا احترام نہیں کر رہے۔ یہ اس کی بالادستی نہیں مان رہے، آپ خود سوچئے آپ جب پارلیمنٹ کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف ڈھال بنا دیں گے، آپ ایک شخص کے لیے پوری جمہوریت کو دائو پر لگا دیں گے اور پارلیمنٹ جب جعلی ڈگری ہولڈروں، دوہری شہریت کے حامل ارکان، ایفی ڈرین اور حج کرپشن میں ملوث سیاستدانوں، رینٹل پلانٹس کرپشن میں سزا یافتہ اور بار بار پارٹیاں تبدیل کرنے والے لوگوں کے لیے دروازے کھول دے گی، آپ جب لوگوں کو بے نظیر بھٹو کا قاتل بھی قرار دیں گے اور ان کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنائیں گے، حکومت جب پارلیمنٹ کی تین تین قراردادوں پر عمل نہیں کر ے گی اور آپ جب ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر شاہ محمود قریشی کو فارغ کر دیں گے تو ملک کا کون سا شہری پارلیمنٹ، سیاست اور جمہوریت کا احترام کرے گا؟ پاکستان کا کون سا شہری اس بے دست پارلیمنٹ کی بالادستی مانے گا؟ ہماری پارلیمنٹ ایک دن! جی ہاں صرف ایک دن کریکٹر کا مظاہرہ کرے عوام آپ کا شکوہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔ لوگ پارلیمنٹ کی دیواریں تک چومیں گے لیکن آپ اگر یہ چاہیں کہ آپ جمہوریت کو مفاد کے بازار میں بھی نچاتے رہیں اور لوگ اس کے پائوں بھی چومیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔