محمد اسد خواجہ میرے دوست ہیں، یہ دواؤں کی ایک بڑی کمپنی کے مالک ہیں، پاکستان میں اس وقت سات سو ادویات ساز کمپنیاں ہیں، ان کی کمپنی ان میں 19 ویں نمبر پر آتی ہے، انھوں نے 1995ء میں یہ کمپنی بنائی، دن رات کام کیا، اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم کیا اور ان کا ادارہ، ان کی کمپنی ترقی کرتی چلی گئی، اس وقت ان کی کمپنی میں اڑھائی ہزار ملازمین ہیں اور یہ کمپنی سیکڑوں قسم کی ادویات بنا رہی ہے، یہ کمپنی پاکستان کے ان چند دواء ساز اداروں میں بھی شمار ہوتی ہے جو ادویات ایکسپورٹ کرتی ہے، یہ سنٹرل ایشیا اور افریقی ممالک میں ادویات برآمد کرتے ہیں۔
محمد اسد تھیلیسیمیا کے بچوں کیلیے ایک چیرٹی سینٹر بھی چلا رہے ہیں، اس سینٹر میں ہر مہینے پانچ سو بچوں کو مفت خون لگایا جاتا ہے اور انھیں فری ادویات بھی دی جاتی ہیں، یہ کمپنی اور یہ ادارہ پاکستان جیسے ملک میں معجزے سے کم نہیں، آپ تصور کیجیے جس ملک میں ساڑھے چار کروڑ نوجوان بے روزگار ہوں اور ان میں ڈیڑھ کروڑ پڑھے لکھے ہوں اور جس میں ہیومن ریسورس کی حالت یہ ہو آپ کو پورے شہر میں اچھا پنکچر لگانے والا نہ ملتا ہو، آپ پورے شہر میں مارے مارے پھرتے ہوں لیکن آپ کو اچھا پلمبر، اچھا الیکٹریشن، اچھا پینٹر اور اچھا سٹینو گرافر نہ ملتا ہو، اس ملک میں پندرہ برسوں میں ایک ایسی کمپنی کھڑی کر دینا جو درجنوں قسم کی ادویات بناتی ہو اور جس میں اڑھائی ہزار لوگ ملازم ہوں، کیا یہ کمال نہیں۔
میں نے ایک بار وزیراعظم شوکت عزیز سے عرض کیا تھا " آپ پاکستان میں ہر پڑھے لکھے شخص کیلیے کاروبار لازم قرار دے دیں " انھوں نے پوچھا "کیوں؟ " میں نے عرض کیا "تاکہ ملک کے ہر شخص کو اس معاشرے کا اصل چہرہ نظر آسکے؟ وہ اس غلط فہمی سے نکل آئے، ہم بہت باصلاحیت اور ٹیلنٹڈ لوگ ہیں " میں آج بھی دعوے سے کہتا ہوں آپ تین چار لوگوں کو ملازمت دے دیں، یہ لوگ اگر دو مہینے میں آپ کو پاگل نہ کر دیں تو آپ میرا نام بدل دیجیے گا، ہم لوگوں نے بنیادی طور پر کام کرنے کی تمیز ہی نہیں سیکھی، ہمارے لوگ جس کرسی پر بیٹھتے ہیں، یہ اسے توڑنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، یہ اپنے ادارے کو نقصان پہنچانا، اسے تباہ کرنا اپنا فریضہ بنا لیتے ہیں، یہ دو مہینے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے رہیں گے لیکن آپ جوں ہی انھیں کام دیں گے یہ آپ کو بلیک میل کرنا شروع کر دیں گے یا پھر چھٹی پر چلے جائیں گے یا پھر جاب چھوڑ دیں گے۔
آپ کا ملازم کسی بھی وقت اپنا فون آف کرے گا اور دوسری جگہ نوکری کر لے گا اور آپ اسے تلاش کرتے رہ جائیں گے، ان حالات میں کسی کمپنی کا بن جانا، اس میں اڑھائی ہزار لوگ ہو جانا اور اس کا ترقی کرنا واقعی کمال ہے اور محمد اسد نے یہ کمال کیا مگر پھر ان سے ایک غلطی ہو گئی، انھوں نے اپریل 2010ء میں ایفی ڈرین کا کوٹہ لے لیا، ان کی کمپنی نے ایفی ڈرین کوٹے کیلیے بہت پہلے اپلائی کیا تھا مگر وزارت صحت نے ان کی درخواست " پینڈنگ" کر دی، وزارت صحت نے 2010ء میں جب یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کو نوازا تو اس نے نو ہزار کلو گرام کا کوٹہ "جسٹی فائی" کرنے کیلیے " پینڈنگ" درخواستوں کی منظوری بھی دے دی، ان درخواستوں میں محمد اسد کی کمپنی بھی شامل تھی، انھیں قانون کے مطابق پانچ سو کلو گرام ایفی ڈرین کا کوٹہ ملا، انھوں نے دوا بنائی اور مارکیٹ میں سپلائی کر دی۔
2011ء کے آخر میں میں ایفی ڈرین کا ایشو سامنے آیا تو انھوں نے فوری طور پر وزارت صحت سے رابطہ کیا اور اپنا کوٹہ "ڈی لسٹ" کروا دیا، یہ " ڈی لسٹ" کروانے والی پہلی کمپنی تھی مگر یہ اس کے باوجود رگڑے میں آ گئے، یہ بھی تفتیش اور تحقیقات کے پھندے میں آ گئے اور یہاں سے ان کا مشکل وقت شروع ہو گیا، یہ تفتیشی ٹیم اور عدالتوں میں دھکے کھانے لگے، ان کے ملازمین پر بھی دباؤ ڈالا گیااور انھیں وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی، ان پے درپے مسائل کی وجہ سے ان کا بھائی ڈپریشن کا مریض بن گیا اور یہ بھی شدید نفسیاتی دباؤ میں آ گئے، یہ اب ضمانت پر ہیں، یہ ہر دس پندرہ دن بعد یہ سوچ کر عدالت جاتے ہیں " مجھے عدالت ہی میں گرفتار کر لیا جائے گا" عدالت انھیں اگلی تاریخ دے دیتی ہے، اس عمل کے دوران کاروبار تباہ ہونے لگا، برآمدات رک گئیں، نئی ادویات اور مصنوعات کا سلسلہ بند ہو گیا، ملازمین میں بے چینی پیدا ہو گئی اور یہ اور ان کا خاندان خود ادویات کا سہارا لینے پر مجبور ہو گیا، میں ان سے کبھی کبھار ملتا ہوں تو مجھے ان پر ترس آتاہے، یہ اس سلوک کے حق دار نہیں ہیں جس کا یہ شکار ہو رہے ہیں۔
محمد اسد اس نظام کا پہلا شکار نہیں ہیں، ہمارا نظام ایک ایسی اندھیر نگری ہے جس میں جو پھنسا وہ تباہ ہو گیا، اس سسٹم میں دو تہائی اکثریت والا وزیراعظم پھنس جائے، بے نظیر بھٹو کے قتل کا ایشو الجھ جائے یا پھر خود چیف جسٹس اس کے پھندے میں آ جائیں تو یہ جان بچانے کیلیے عوام، اقوام متحدہ یا سعودی عرب کی مدد لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یہ سسٹم مظلوم کی ناک رگڑوا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ، اس کا ادارہ اور اس کی محنت کا پھل تباہ و برباد ہو جاتا ہے، دنیا کی تمام قومیں اس نقطے پر متفق ہیں، کوئی ملک بزنس کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، آپ اگر ملک میں چھوٹے ادارے نہیں بننے دیں گے، لوگوں کے کاروبار کی حفاظت نہیں کریں گے تو ملک کیسے چلے گا، ملک سے بے روزگاری کیسے ختم ہو گی، غربت اور مہنگائی کیسے کم ہو گی؟ چنانچہ ہمیں جہاں لوگوں، کرپٹ لوگوں اور مجرموں کا احتساب کرنا چاہیے ہمیں وہاں اپنی انڈسٹری کی حفاظت بھی کرنی چاہیے، یہ ادارے، یہ کمپنیاں کسی ایک فرد یا گروپ کی ملکیت نہیں ہوتے، یہ پوری قوم کی ذمے داری ہوتے ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ کرائے کی سائیکل جیسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ملک میں عدل اور انصاف کی علامت بن کر ابھرے ہیں، لوگ مطالبہ کر رہے ہیں حکومت کو چاہیے یہ آئین میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ کے ججوں کو تاحیات ججز کا درجہ دے دے تاکہ انصاف کے عمل میں تسلسل بھی رہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آتے رہیں، چیف جسٹس کو اب نسبتاً اچھی حکومت کی سپورٹ بھی حاصل ہے، دوسری طرف اسحاق ڈار ملک کے وزیر خزانہ ہیں، یہ ان تھک، مثبت اور ویژنری انسان ہیں، میں نے انھیں ہمیشہ درود شریف کا ورد کرتے دیکھا، یہ ان چند سیاستدانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں جو اقتدار میں پہنچ کر بھی اپنا موبائل فون نمبر تبدیل نہیں کرتے، یہ کال بیک بھی کرتے ہیں اور دوستوں کے فون بھی سنتے ہیں۔
انھوں نے 21 گھنٹے میں بجٹ بنا کر بھی ریکارڈ قائم کر دیا، ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں، ان حالات میں بیورو کریسی نے انھیں ترقیاتی بجٹ کم کرنے کا مشورہ دے دیا، بیورو کریسی کا خیال تھا " ہم ترقیاتی بجٹ کم کر کے یہ رقم بجلی کا مسئلہ حل کرنے کیلیے استعمال کر سکتے ہیں " مگر اسحاق ڈار نے نہ صرف یہ تجویز مسترد کر دی بلکہ انھوں نے ترقیاتی بجٹ میں 31فیصد اضافہ بھی کر دیا، اسحاق ڈار کا کہنا تھا ملک میں بے تحاشہ بے روزگاری ہے، ہم نے اگر ترقیاتی بجٹ کم کیا تو بے روزگاری بڑھ جائے گی اور لوگ بجلی ہونے کے باوجود بلب اور پنکھا نہیں چلا سکیں گے، مجھے وزارت خزانہ کے ایک افسر بتا رہے تھے، اسحاق ڈار نے میٹنگ کے دوران بتایا " مغل بادشاہ بے روزگاری کے دنوں میں خندقیں کھدوانا شروع کر دیتے تھے، اس سے لوگوں کو روزگار ملتا تھا اور یوں معیشت کا پہیہ چلنے لگتا تھا، ہمیں بھی یہ کرنا چاہیے تا کہ لوگ روٹی کما سکیں " یہ چھوٹا سا واقعہ اسحاق ڈار کے معاشی ویژن کا اظہار ہے۔
اسحاق ڈار کو اب انڈسٹری پر بھی توجہ دینی چاہیے، ایفی ڈرین کے کیس کی وجہ سے ادویات سازی کی پوری انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے، اصل مجرم گھروں میں آرام سے بیٹھے ہیں جب کہ ملک کو کما کر دینے والے تھانوں اور عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں، آپ مجرموں کو ضرور سزا دیں مگر انڈسٹری بچائیں، محمد اسد بھی مجرم ہیں تو آپ انھیں بھی قرار واقعی سزا دیں، اگر یہ اور ان جیسے دوسرے صنعت کار بے گناہ ہیں تو آپ انھیں جلد سے جلد اس معاملے سے فارغ کر دیں تا کہ یہ کام کر سکیں، اسحاق ڈار اور چیف جسٹس دونوں مہربانی کریں، اسحاق ڈار اس کیس کا حصہ بنیں، عدالت میں انڈسٹری کا کیس لڑیں اور یہ ایشو جلد سے جلد ختم کرائیں ورنہ دوسری صورت میں تباہ ہوتی معیشت قبر تک پہنچ جائے گی، ایفی ڈرین کے اصل مجرم ملک سے باہر چلے جائیں گے جب کہ محمد اسد جیسے صنعت کار اپنی انڈسٹری سمیت ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔