میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آخری مرتبہ 2005ء میں گیا، یہ سکردو، خپلو، شگر اور دیوسائی کی وزٹ تھی اور میں اس وزٹ کے دوران ان علاقوں کے سحر میں گم ہو کر رہ گیا، خاص طور پر شنگریلا میں گزرا ہوا وقت میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے، شنگریلا ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی بریگیڈیئر اسلم نے آباد کیا تھا، بریگیڈیئر اسلم جمالیات حس سے مالا مال انسان تھے،
انھوں نے سکردو کے مضافات میں کچورا کے مقام پر شنگریلا کے نام سے ایک چھوٹی سی جنت آباد کی، یہ حقیقتاً دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہوتی ہے، مجھے 2005ء میں اس جنت میں دو دن گزارنے کا موقع ملا، میں آج تک اس جنت کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکا، 2005ء کے بعد میری زیادہ تر گرمیاں بیرون ملک گزر جاتی تھیں لیکن میں اس کے باوجود شمالی پاکستان کو بھول نہ سکا، میں جہاں بھی گیا میں غیر ارادی طور پر اس مقام کا تقابل پاکستان کے شمالی علاقوں سے کرتا رہا اور آخر میں ہر بار اس نتیجے پر پہنچتا رہا ہمارے علاقے یورپ سے زیادہ خوبصورت ہیں، اﷲ تعالیٰ نے شمالی پاکستان کی صورت میں زمین پر جنت کا عکس اتارا ہے اور ہم میں سے جس شخص نے جاگتی آنکھوں سے یہ جنت نہیں دیکھی وہ بدنصیب انسان ہے، میں نے ان گرمیوں میں اس بدنصیبی کو خوش نصیبی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہم نے بارہ لوگوں کا گروپ بنایا، اس گروپ میں ہم چار بھائی، میرے دو بیٹے، میری بیوی کے دو بھائی، ہمارے دو ڈرائیور، ہمارا ایک خانساماں اور ایک سیکیورٹی گارڈ شامل تھا، ہم لوگ بدھ اٹھارہ جولائی کی صبح دو جیپوں پر فیری میڈوز کے لیے روانہ ہو گئے، فیری میڈوز گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں شنگریلا جیسی جنت ہے جسے انگریزوں نے 1850ء کے قریب دریافت کیا تھا، میں نے بے شمار ملکی اور غیر ملکی سفرناموں میں اس کا تذکرہ پڑھا تھا چنانچہ ہم لوگ فیری میڈوز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، ہم پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد دن بارہ بجے شاہراہ قراقرم پر پہنچے، یہ شاہراہ چین اور پاکستان کے انجینئروں کا کمال ہے، یہ 1300 کلو میٹر (806 کلو میٹر پاکستان اور 494 کلو میٹر چین)لمبی شاہراہ ہے جو حویلیاں سے شروع ہوتی ہے اور چین کے شہر کاشغر پہنچ کر ختم ہوتی ہے، یہ کبھی دنیا کی شاندار اور حیران کن سڑکوں میں شمار ہوتی تھی کیونکہ چین اور پاکستان کے 25ہزار کارکنوں نے یہ سڑک سنگلاخ پہاڑ توڑ توڑ کر بنائی تھی،
اس کی تعمیر کے دوران 408 لوگ مارے گئے، یہ 1979ء میں چین کا جدید ترین دنیا کے ساتھ پہلا زمینی رابطہ تھا، اس سڑک نے پاکستان اور چین کے لوگوں کی زندگی میں شاندار کردار ادا کیا، ہم اگر باقی کردار کو فراموش بھی کر دیں تو بھی اس سڑک کے چین کے مسلمانوں پر احسانات کو نہیں بھول سکتے، چین 80 کی دہائی تک دنیا سے کٹا ہوا تھا، دنیا کی کوئی فلائٹ چین جاتی تھی اور نہ ہی چین کی کوئی فلایٹ دنیا کے دوسرے ملکوں میں اترتی تھی چنانچہ چین کے مسلمان عمرہ اور حج کی نعمت سے محروم تھے، چین میں قرآن مجید کی اشاعت پر بھی پابندی تھی لہٰذا چین کے مسلمانوں کی نسلیں قرآن مجید کی زیارت کے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتی تھیں، اس سڑک نے چین کے مسلمانوں پر عمرہ، حج اور قرآن مجید کا راستہ کھول دیا، چینی مسلمان شاہراہ قراقرم پر بسوں، گھوڑوں اور پیدل سفر کرتے ہوئے راولپنڈی آتے اور یہاں سے پی آئی اے کے ذریعے مکہ اور مدینہ پہنچ جاتے، یہ لوگ واپسی پر پاکستان سے قرآن مجید کے نسخے بھی لے کر جاتے، چینی حاجیوں نے پاکستان میں چینی مصنوعات بھی متعارف کروائیں، یہ لوگ زاد راہ کے لیے چینی مصنوعات پاکستان لاتے تھے،
راولپنڈی میں کالج روڈ پر ان کی سراہیں ہوتی تھیں، یہ لوگ فلایٹ تک ان سرائوں میں رہتے تھے، یہ لوگ دن کو اپنا سامان سرائے کے باہر سجا کر بیٹھ جاتے تھے، پاکستانی شہری یہ سامان خریدتے تھے اور شام کے وقت یہ سرائے کے اندر چلے جاتے تھے، اس سامان میں سنہری رنگ کا سیفٹی ریزر بھی ہوتا تھا، پاکستان کی ایک پوری نسل نے اس سیفٹی کے ذریعے شیو کی، میں نے اپنی ابتدائی شیوز بھی اسی سیفٹی سے کی تھیں، اس سنہری سیفٹی میں جیلٹ کا بلیڈ لگایا جاتا تھا، تام چینی کے فوجی مگ میں گرم پانی ڈالا جاتا تھا، چینی برش مگ میں ڈبو کر گیلا کیا جاتا تھا، یہ برش سفید خوشبودار شیونگ سوپ پر رگڑا جاتا تھا، برش کے بالوں سے کون آئس کریم جیسی جھاگ لپٹ جاتی تھی، ہم لوگ اس دوران بایاں ہاتھ مگ میں ڈبو ڈبو کر چہرے پر ملتے رہتے تھے، ہم یہ سمجھتے تھے اس سے شیو نرم ہو جاتی ہے، ہم اس عمل سے فارغ ہو کر غور سے برش پر جمی جھاگ دیکھتے تھے، جھاگ سے ایک عجیب سی خوشبو آتی تھی،
یہ خوشبو آج بھی نہانے کے سستے صابنوں سے آتی ہے، میں کوشش کے باوجود آج تک اس خوشبو کا نام دریافت نہیں کر سکا، خوشبو کی ایک لمبی سانس کے بعد ہم لوگ جھاگ والا برش منہ پر رگڑنے لگتے تھے، جھاگ منہ پر شفٹ ہونے لگتی تھی، اس دوران برش خشک ہو جاتا تھا تو ہم اسے پانی کے مگ میں ڈبو کر "ری فریش" کر لیتے تھے، منہ پر جب جھاگ کی آدھ انچ تہہ جم جاتی تھی تو ہم مگ سے سیفٹی نکالتے اور شیشے کو گھورتے ہوئے شیو شروع کر دیتے، میری نسل شیو کے بال اور سیفٹی پر لگی جھاگ اتارنے کے لیے سیفٹی کو بار بار کپ میں ڈبوتی تھی اور اسے بعد ازاں سنک کے کناروں پر مار مار کر بلیڈ کی دھار سے چپکے بال اور جھاگ اتارتی تھی، یہ سیفٹی ہمارا چین کے ساتھ پہلا باقاعدہ تجارتی تعارف تھا اور یہ تعارف شاہراہ قراقرم کی مہربانی سے ہوا تھا۔
یہ دنیا کی عظیم شاہراہ ہے، اس شاہراہ کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑ ہیں، یہ سڑک سانپ کی طرح ان پہاڑوں سے لپٹی ہوئی ہے، اس کے دوسرے کنارے پر گہرائی میں دریائے سندھ بہتا ہے اور دریائے سندھ کے بپھرے پانیوں کے دوسرے کنارے سے پہاڑوں کا ایک اور سلسلہ شروع ہوتا ہے، یہ سڑک اور دریائے سندھ پہاڑوں کی دو انتہائی بلند دیواروں کے درمیان بہتے ہیں اور یہ دیواریں اور دریا سیکڑوں میل تک اس سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اس ساتھ کو پانی کی شوریدہ آواز لے کی شکل دے دیتی ہے، یہ لے آخری منزل تک مسافر کے ساتھ ساتھ بہتی ہے، یہ سڑک دنیا کاآٹھواں عجوبہ تھی لیکن یہ عجوبہ بھی اس وقت ملک کے دوسرے عجوبوں کی طرح بدقسمتی کا شکار ہے، سڑک بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکی ہے، حکومت بلکہ حکومتیں اپنی اپنی مار دھاڑ میں مصروف ہیں چنانچہ کوئی شاہراہ قراقرم کی طرف دھیان نہیں دے رہا، اسلام سے گلگت تک 628 کلو میٹر کا فاصلہ ہے، یہ اسلام آباد سے ملتان جتنا فاصلہ بنتا ہے،
چلاس ایبٹ آباد کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے، یہ شہر ہماری پہلی منزل تھا، یہ اسلام آباد سے لاہور جتنا دور ہے لیکن ہمیں وہاں پہنچنے کے لیے مسلسل 14 گھنٹے سفر کرنا پڑا، ہمارے پاس فوربائی فور گاڑیاں تھیں لیکن اس کے باوجود یہ سفر انتہائی کٹھن تھا، آپ اندازہ لگا لیجیے عام گاڑیوں پر یہ سفر کتنا لمبا اور دشوار ہوتا ہو گا، میری صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے درخواست ہے آپ ایک بار اس سڑک پر ضرور سفر کریں، آپ کو دنیا کے آٹھویں انسانی معجزے کی اصل صورتحال نظر آ جائے گی، چلاس ہماری پہلی منزل تھا، یہ شاہراہ قراقرم پر نسبتاً بڑا شہر ہے،
چلاس چاروں طرف سے خشک، بنجر اور سنگلاخ پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، چلاس کے پہاڑ سارا دن سورج کی حدت چوستے ہیں اور رات کے وقت یہ حدت آہستہ آہستہ چلاس کے مکانوں، چلاس کے لوگوں اور چلاس کے سینے سے گزرتے دریا پر چھڑکتے رہتے ہیں، چلاس میں جون جولائی میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے آگے پیچھے رہتا ہے چنانچہ وہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور یہ گرمی چلاس کے دن اور رات دونوں کو بے آرام بنا دیتی ہے، رہی سہی کسر شیعہ سنی فسادات نے پوری کر دی ہے، گلگت اور چلاس تاریخ کے بدترین فسادات سے گزر رہے ہیں، علاقے کے شیعہ اور سنی ایک دوسرے کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کر رہے ہیں، چلاس کی فضا میں فسادات کی آگ کی یہ حدت بھی صاف محسوس ہوتی ہے، ہم رات کے نو بجے چلاس پہنچے، چلاس کی فضا میں شام غریباں کا سکوت اور ڈری ہوئی، سہمی ہوئی زندگی کا سوگ تھا، یہ شہر، شہر کم اور جنازہ گاہ زیادہ محسوس ہوتا تھااور ہم حیران پریشان چلاس کے درمیان کھڑے تھے۔
(جاری ہے)