ہمیں بچپن میں بتایا جاتا ہے آپ جہاں جنازہ دیکھیں آپ چپ چاپ اس میں شامل ہو جائیں، جنازہ گاہ جائیں، جنازہ پڑھیں اور دعا کر کے واپس آ جائیں، ہمارے بزرگ بچوں کو آج بھی بتاتے ہیں۔ ہمارے بعض فرائض فرض کفایہ ہوتے ہیں، یہ وہ فرائض ہوتے ہیں جسے کسی بستی، محلے یا کمیونٹی کا کوئی ایک فرد ادا کر دے تو پوری کمیونٹی، پورا محلہ اور پوری بستی ثواب میں شریک ہو جاتی ہے اور جنازہ بھی اسی نوعیت کا فرض کفایہ ہے، میں بھی بچپن میں یہ فرض کفایہ ادا کرتا تھا،
میں یہ فرض شعور کی زندگی تک ادا کرتا رہا لیکن جب بڑا ہوا تو معلوم ہوا کفایہ بھی ہماری زندگی میں اہم ہوتے ہیں لیکن دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ٹھوس اور حتمی فرائض ادا کرنا زیادہ ضروری ہیں، آپ کی بستی، آپ کا محلہ اور آپ کی کمیونٹی اگر دنیا اور آخرت کے بنیادی فرائض سے روگردانی کرتی رہے گی تو آپ خواہ کتنے ہی فرض کفایہ ادا کر لیں لوگوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی،
لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مصائب کا شکار رہیں گے، مجھے بحر شعور میں غوطہ زن ہونے کے بعد معلوم ہوا دنیا میں طاقت، اجتماعی کوشش، ایمان، ایمانداری، نیکی، علم اور عبادت ایسے بنیادی فرائض ہیں جن کی کمی فرائض کفایہ کا ثواب ضایع کر دیتی ہے، آپ اگر تقویٰ کے بنیادی اصولوں سے دور ہیں، آپ علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بناتے، آپ کی زندگی کا پیالہ نیکی سے خالی ہے، آپ برائی کے خلاف اجتماعی کوشش نہیں کرتے اور آپ جسمانی، سماجی اور قومی لحاظ سے کمزور ہیں تو فرائض کفایہ آپ کی زندگی میں کوئی خوش گوار تبدیلی نہیں لاسکیں گے،
یہ شاید اور شاید دنیا اور آخرت میں بھی آپ کے کام نہ آسکیں، فرائض کفایہ چائے پر بالائی کی وہ باریک تہہ ہوتے ہیں جو صرف اس وقت مزہ دیتے ہیں جب کپ میں چائے موجود ہو، یہ گلاب جامن پر چاندی کے ورق کی طرح ہوتے ہیں، یہ گلاب جامن کا مزہ بڑھا دیتے ہیں، یہ کچی لسی کی طرح ہوتے ہیں، یہ آم کھانے کے بعد ہی مزہ دیتی ہے اور یہ آدھی رات کے نفل کی طرح ہوتے ہیں، یہ ہمیں فرض نماز کے بعد زیادہ طمانیت بخشتے ہیں، یہ عجیب لگتا ہے معاشرہ بے ایمان ہو اور ہم فرض کفایہ سے ثواب کشید ہونے کا انتظار کررہے ہوں۔
میں بحر شعور میں غوطے کھانے کے بعد فرائض کفایہ سے آزاد ہو گیالیکن مجھے آج محسوس ہوتا ہے ہمارے معاشرے نے میڈیا کو فرض کفایہ بنا لیا ہے، پاکستان میں اگر شیعہ کمیونٹی پر قاتلانہ حملے شروع ہو جائیں تو گالیاں میڈیا کو پڑتی ہیں، ملک کا ہر دوسرا شیعہ شہری سوشل میڈیا کی مدد لیتا ہے، ہمیں گالیاں دے کر پوچھتے ہیں میڈیا اہل تشیع کے قتل پر کیوں خاموش ہے؟
اس طرح اگر حضرت عمر فاروق کے یوم شہادت پر ٹی وی خصوصی پروگرام نہیں کرتے، یا کالم نگار کالم نہیں لکھتے یا حکومت خصوصی تقریب نہیں مناتی تو سنی کمیونٹی ہمارے خلاف مورچے بنا لیتی ہے، ملک میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، سیلاب آتے ہیں، زلزلے کے متاثرین کو چیک نہیں ملتے، ملتان کے شہری مخدوم عبدالقادر گیلانی کو ایم این اے منتخب کر لیتے ہیں، حکومت سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانتی،
ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا یا پھر پنجاب حکومت نرسوں پر لاٹھی چارج کر دیتی ہے تو گالی ہمیں پڑتی ہے، ایس ایم ایس، فیس بک، ٹویٹر، بلاگز اور فون کالز کے ذریعے ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے، کیوں؟ مجھے آج تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا! کیا اس صورتحال کے ذمے دار ہم ہیں یا پھر چینلز پر جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہماری مرضی سے ہوتا ہے! شاید عوام یہ سمجھتے ہیں! پاکستان کا میڈیا آج کل پھر عوام کا ہدف ہے،
اس کی دو تازہ ترین وجوہات ہیں، پہلی وجہ برما کے مسلمان ہیں، ہمیں ہر دوسرا شخص لعن طعن کر رہا ہے، ہم برما میں مسلمانوں کے قتل پر خاموش کیوں ہیں، ہمیں برا بھلا کہنے والا ہر شخص برما کے شہید مسلمانوں کے الگ فگر دیتا ہے، کوئی پوچھتا ہے بے حس میڈیا 20 ہزار برمی مسلمانوں کے قتل پر کیوں خاموش ہے؟ کوئی کہتا ہے برما میں چالیس ہزار، اسی ہزار اور ایک لاکھ مسلمان قتل ہو چکے ہیں لیکن بے غیرت،
یہودی ایجنٹ اور بکائو میڈیا خاموش ہے وغیرہ وغیرہ، دوسرا ایشو راجیش کھنہ کی موت ہے، لوگ ہم سے پوچھتے ہیں میڈیا نے راجیش کھنہ کی موت کو پورا دن کوریج دی، راجیش کھنہ نے اسلام کی کیا خدمت کی تھی؟ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں بھارتی ایجنٹ بھی قرار دے دیا جاتا ہے، میں ان اعتراضات پر سوچتا ہوں کیا برمی مسلمانوں کے قتل پر آواز اٹھانا صرف میڈیا کی ذمے داری ہے؟ کیا اٹھارہ کروڑ عوام، حکومت، اپوزیشن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم، پاکستان دفاع کونسل اور علماء کرام کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی؟
کیا مسلمانوں کی سیاسی آرگنائزیشن او آئی سی، مسلمانوں کے روحانی مرکز سعودی عرب، اسلامی دنیا کے لیڈر ترکی، مصر کے نئے اسلامی صدر محمد مرسی، اسلامی دنیا کی اسٹاک ایکسچینج یو اے ای اور اسلامی دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ملائشیا کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی، ہمیں بتائیے برما کے مسلمانوں کے قتل پر پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، ق لیگ، تحریک انصاف، جمعیت علما اسلام، جماعت اسلامی اور ملک بھر کے علماء نے کتنے جلوس نکالے، کتنے جلسے کیے، کتنے لانگ مارچ کیے؟
پاکستان کی کتنی مذہبی، سماجی اور سیاسی جماعتوں نے اس قتل عام پر برما کے سفارتخانے، یو این کے مشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر کے سامنے دھرنے دیے اور ترکی، ملائیشیا، مصر، سعودی عرب اور یو اے ای کا" بے شرم، بے غیرت اور یہودی میڈیا" اس پر کیوں خاموش ہے؟ ہمارے عوام پاکستان اور اسلامی دنیا کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خاموشی پر کیوں چپ ہیں؟
انھیں ان کی "بے شرمی" کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ وغیرہ وغیرہ، مزید کیا برما میں واقعی بیس، چالیس یا اسی ہزار یا ایک لاکھ مسلمان مارے گئے ہیں، اس کی تصدیق کون کرے گا؟ کیا ہم سوشل میڈیا پرگردش کرنے والی چند نامعلوم میلز کو خبر بنا دیں اور پورے پاکستان کو رمضان کے مہینے میں اداس کر دیں اور آخر میں پتہ چلے یہ واقعات یا ان میں سے اکثر واقعات غلط تھے اوریہ انٹرنیٹ دہشت گردوں نے جان بوجھ کر پھیلائے تھے، کیا ہم خود کو اچھا مسلمان، آزاد میڈیا اور عوامی جذبات کا امین ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے اس پروپیگنڈے کی رو میں بہہ جائیں، ہم کیا کریں؟
کیا ہم بے حس، سوئے ہوئے اور بنیادی فرائض سے غافل معاشرے میں فرض کفایہ بن جائیں اور لوگ آرام سے سوتے رہیں، اٹھیں، ہمیں اجنبی لوگوں کا جنازہ پڑھتے دیکھیں، تالی بجائیں اور دوبارہ سو جائیں، کیا آپ میڈیا کا یہ کردار دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم آتے ہیں اب راجیش کھنہ کی طرف۔ میں راجیش کھنہ کے معاملے میں " لو اینڈ ہیٹ" (محبت اور نفرت) کا شکار ہوں، وہ ایک سپر اسٹار تھا، آج بھی پاکستان کے لاکھوں لوگ اس کی اداکاری کے پرستار ہیں،
آج بھی پاکستان میں راجیش کھنہ کی فلموں کی سی ڈیز لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں، میں راجیش کھنہ کی اداکاری کاخود بھی شیدائی ہوں اور میرے خیال میں ایسے فنکار کو یہ پذیرائی ملنی چاہیے تھی لیکن جہاں تک راجیش کھنہ کی ذات کا معاملہ ہے میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں، اس کی وجہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ تھی، ہمارے90 ہزار فوجی جنگ کے بعد بھارت کے قبضے میں چلے گئے تھے،
بھارتی حکومت نے ہمارے فوجیوں کو ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں پر گھمایا تھا، بھارتی عوام اس دوران قطاروں میں کھڑے ہو کر پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے تھے، اس قسم کی ایک پریڈ کے تماشائیوں میں راجیش کھنہ بھی شامل تھا، ہمارے فوجی جب اس کے قریب پہنچے تو راجیش کھنہ نے نفرت سے ان پر تھوک دیا تھا، یہ وہ واقعہ ہے جس کی وجہ سے میں اس کی ذات سے نفرت کرتا ہوں لیکن جہاں تک اس کے آرٹ کا معاملہ ہے میں دل سے اس کا گرویدہ ہوں۔ ہم مان لیتے ہیں راجیش کھنہ کی موت کو سارا دن کوریج نہیں ملنی چاہیے تھی
لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان میں راجیش کھنہ کے چاہنے والے نہیں ہیں؟ کیا اس کی فلموں کی سی ڈیز نہیں بکتیں، کیا ہم میں سے اکثر لوگ راجیش کھنہ پر فلمائے گئے گانے نہیں سنتے اور کیا ان میں سے اکثر گانے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمان شاعروں نے نہیں لکھے اور کیا ان لکھنے والوں، سننے والوں، دیکھنے والوں اور سی ڈیز خریدنے والوں پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے تو پھر صرف میڈیا بے غیرت یا بے شرم کیوں ہے؟ اور کیا ٹی وی پر ایک گھنٹہ کام کرنے والے اینکر ٹی وی انڈسٹری کی پوری پالیسی کے ذمے دار ہیں؟ کیا ٹی وی کے تمام مواد کا فیصلہ ہم چند لوگ کرتے ہیں؟
جی نہیں! ہم وہاں صرف ایک گھنٹے کا پروگرام کرتے ہیں اور ہم نے اگر کبھی اپنے پروگرام میں راجیش کھنہ کو اتنی اہمیت دی تو ہم آپ کے مجرم ہوں گے، آپ ہم سے پہلے اپنا فرض ادا کریں، برما کے مسلمانوں کے لیے اپنے ٹھنڈے کمروں سے باہر آئیے، بھارتی فلمیں دیکھنا اور گانے سننا بند کریں اور اس کے بعد ہم سے فرض کفایہ کی توقع کریں، ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے لیکن آپ سوئے رہیں اور کبھی کبھی اٹھ کر ہمیں بے غیرت اور بے شرم کہتے رہیں، یہ زیادتی ہے، یہ ظلم ہے اور فرائض سے غافل معاشروں میں میڈیا جیسی مشینوں کو فرض کفایہ بنا دینا اس سے بھی بڑا ظلم اور زیادتی ہے۔