چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اتوار کے دن ملک کے نامور اینکر پرسنز، کالم نگاروں اور ایڈیٹرز کو گفتگو کے لیے جی ایچ کیو دعوت دی، یہ سوا چار گھنٹے کا طویل سیشن تھا جس میں آرمی چیف نے الیکشن سے لے کر ملک میں جاری دہشت گردی، شدت پسندی، کوئٹہ کی صورتحال، افغانستان وار اور مسنگ پرسنز کے ایشوز پر گفتگو کی، یہ آف دی ریکارڈ گفتگو تھی چنانچہ اس کے اہم نقطے ریکارڈ پر نہیں لائے جا سکتے تا ہم جہاں تک میری آبزرویشن یا ساتھیوں کے سوالوں کا تعلق ہے، وہ آپ کے ساتھ ضرور شیئر کی جا سکتی ہے۔
میں نے جنرل کیانی کی باڈی لینگویج اور گفتگو سے اندازہ لگایا جنرل کیانی نے 2007ء میں فیصلہ کیا تھا، یہ اسمبلیاں اور یہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی چنانچہ انھوں نے ان پانچ برسوں میں سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا، اگر حکومت کی غلطیوں یا نالائقیوں کی وجہ سے کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہوا تو آرمی چیف نے سسٹم کو سپورٹ کیا اور یوں حکومت بحران سے نکل گئی، جنرل کیانی 2013ء کے فری اینڈ فیئر الیکشن چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے یہ الیکشن مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہوں اور یہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے لیے تیار ہیں، کاشف عباسی نے آرمی چیف کی مزید ایکسٹینشن کے بارے میں سوال کیا، آرمی چیف نے اس کا واضح جواب دیا، میں نے اس جواب سے نتیجہ اخذ کیا، آرمی چیف دوسری بار ایکسٹینشن نہیں لیں گے، یہ نومبر 2013ء میں وردی اتار دیں گے اور باقی زندگی ریٹائرمنٹ میں گزاریں گے، کوئٹہ اور بلوچستان میں کسی جگہ آرمی آپریشن نہیں ہو رہا، ایف سی وفاقی حکومت کے ماتحت ہے، اس کے تمام فیصلے وزارت داخلہ کرتی ہے، اس کے پاس صرف گرفتاری کے اختیارات ہیں، یہ کسی کے خلاف تفتیش کر سکتی ہے، اس کا چالان کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کا مقدمہ عدالت میں پیش کر سکتی ہے، یہ مکمل طور پر سول ایڈمنسٹریشن کی پابند ہے اور حکومت کے سول ادارے اس سے کام نہیں لے رہے۔
حکومت اگر کوئٹہ یا بلوچستان میں آرمی آپریشن کی خواہاں ہے تو فوج آپریشن کے لیے تیار ہے تاہم فوجی آپریشن اس مسئلے کا حتمی حل نہیں کیونکہ فوج آپریشن کے بعد ملزموں کو پولیس اور عدالت کے حوالے کرے گی اورآگے ان کی ذمے داری ہے چنانچہ آپریشن کے بعد بھی مسئلہ جوں کاتوں رہے گا، حکومت اور سیاستدانوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کوئی جامع پالیسی بنانی چاہیے اور یہ پالیسی جب تک نہیں بنتی اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، میں نے جنرل کیانی کی گفتگو سے محسوس کیا یہ چاہتے ہیں اگلی حکومت فوری طور پر اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرے، یہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کوئی جوائنٹ سسٹم بنائے اور یہ سسٹم آگے چل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ مسئلہ حل کر دے، یہ دل سے یہ سمجھتے ہیں، اگلی حکومت ایسی ہونی چاہیے جس پر قوم اعتماد کا اظہار کرے، قوم جس پارٹی یا شخص کو ووٹ دے، تمام اداروں اور گروپوں کو اس مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے، قوم کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔
میں نے گفتگو سے محسوس کیا جنرل کیانی اور فوج پچھلے پانچ برسوں سے حکومت کی جگہ جگہ مدد کررہی ہے، جنرل کیانی اسفند یار ولی کے ساتھ صدر آصف علی زرداری کے پاس بھی گئے، انھوں نے صدر کو صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار کیا، جنرل کیانی کی خواہش تھی اگر معاہدے کے ذریعے سوات میں امن ہو جائے تو ہم فوجی آپریشن سے بچ جائیں، یہ معاہدہ ہوا، صوفی محمد اور ان کے حواریوں نے یہ معاہدہ توڑ دیا اور یوں فوجی آپریشن کی راہ ہموار ہو گئی، میں نے جنرل کیانی کی گفتگو سے اندازہ لگایا امریکا اور یورپ اس معاہدے سے خوش نہیں تھے لیکن جنرل کیانی نے انھیں سمجھایا اور یوں بین الاقوامی دبائو میں کمی آ گئی، مجھے جنرل کیانی کی گفتگو سے اندازہ ہوا فوج بلوچستان میں بھی ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ الیکشن چاہتی ہے چنانچہ کسی بھی وقت بلوچستان سے گورنر راج ختم ہو جائے گا، نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہو جائے گی، اپوزیشن لیڈر کا تعین ہو گا، یہ دونوں مل کر نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ کریں گے اور یوں بلوچستان میں بھی دوسرے صوبوں کے ساتھ الیکشن ہوں گے۔
گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئر اور نامور صحافی مظہر عباس کی ایک خبر کا حوالہ دیا، مظہر عباس نے 31جنوری کو ایکسپریس ٹری بیون میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کا انٹرویو شایع کیا، فخرو بھائی نے اس انٹرویو میں انکشاف کیا "جنرل کیانی الیکشن کی تیاریوں کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے دفتر آئے، یہ ڈیڑھ دو گھنٹے میرے ساتھ بیٹھے رہے لیکن میں نے انھیں نہیں پہچانا، میں نے میٹنگ کے آخر میں ان سے کہا، آپ میری طرف سے جنرل کیانی کا شکریہ ادا کر دیجیے گا، ہم ان کی سپورٹ پر ان کے ممنون ہیں، جنرل کیانی اس بات پر حیران ہوئے اور انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کو بتایا میں ہی جنرل کیانی ہوں " ہمارے ایک ساتھی نے مظہر عباس کی اس خبر کا حوالہ دے کر جنرل کیانی سے پوچھا " کیا چیف الیکشن کمشنر نے آپ کو واقعی نہیں پہچانا تھا" اس سوال کے جواب میں جنرل کیانی کا رویہ بہت مثبت تھا، انھوں نے تسلیم کیا فخر الدین جی ابراہیم کا یہ انٹرویو انھوں نے بھی پڑھا تھا لیکن ان کا کہنا تھا "ہمیں فخر الدین جی ابراہیم کی ذہانت، ایمانداری اور استقامت پر اعتماد ہے، یہ شاندار انسان ہیں اور مجھے یقین ہے یہ غیر جانبدار اور آزاد الیکشن کرائیں گے"۔
جنرل کیانی اس کے بعد دیر تک فخر الدین جی ابراہیم کی تعریف کرتے رہے، میں نے جنرل کیانی کی گفتگو سے محسوس کیا فوج نے حکومتی ہدایت کے بعد سوات سے مشکوک، شدت پسند اور دہشت گرد گرفتار کیے لیکن قانون نہ ہونے، پولیس میں اہلیت کی کمی اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ انھیں پولیس اور عدالتوں کے حوالے نہیں کر رہی، یہ لوگ ساڑھے تین برسوں سے ان کے پاس ہیں، فوج پریشان ہے یہ ان لوگوں کا کیا کرے کیونکہ یہ اگر انھیں چھوڑ دے گی تو یہ دوبارہ مسائل پیدا کریں گے اور یہ اگر انھیں مزید اپنے پاس رکھتی ہے تو یہ خلاف قانون ہو گا، فوج حکومت سے مسلسل درخواست کر تی رہی، حکومت ان لوگوں کے لیے مناسب قانون بنائے تا کہ انھیں سزا دی جا سکے مگر حکومت تاخیر سے کام لیتی رہی، مجھے اس سیشن کے دوران محسوس ہوا، حکومت نے 20 فروری کو انسداد دہشت گردی کے لیے جو بل منظور کیا اس بل کی تیاری میں فوج نے حکومت کی بھرپور معاونت کی، اس بل کی تیاری کے لیے لافرم کا بندوبست کیا گیا، مہینوں بل پر بحث ہوئی، وزراء اعلیٰ کو بھی بلوایا گیا، ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور بل تیار کرنے کے بعد وزارت قانون کے حوالے کر دیا گیا اور یوں حکومت نے 20فروری کو یہ بل پاس کروا دیا۔
مجھے جنرل کیانی کی گفتگو سے محسوس ہوا ملک کے اندرونی مسائل حکومت اور حکومت کے اداروں نے حل کرنے ہیں، فوج بیرونی دشمن سے نمٹنے کے لیے بنائی جاتی ہے، اس کی ٹریننگ بیرونی جارحیت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے، جوان کی نظر میں دوست ہوتا ہے یا دشمن، اس کی زندگی میں گرے ایریا نہیں ہوتا، آئی ایس آئی کا کام بیرونی دشمنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور ایم آئی صرف اور صرف اس وقت کام کرتی ہے جب کسی جگہ فوجی آپریشن ہو رہا ہو، ملک کے اندرونی حالات کی انفارمیشن جمع کرنا پولیس، اسپیشل برانچ اور آئی بی کی ذمے داری ہے مگر حکومت ان اداروں کو ٹائٹ کرنے کے بجائے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف دیکھتی رہتی ہے اور یہ غلط ہے، آئی ایس آئی اور ایم آئی کا یہ کام نہیں، حکومت کو دوسرے اداروں کی کارکردگی پر توجہ دینی ہو گی، اگر انھیں کسی جگہ کسی سرکاری ادارے بشمول آئی ایس آئی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو حکومت کو اس کے خلاف نوٹس لینا چاہیے، حکمران اگر ذاتی معاملات میں خود مختار ہیں اور یہ آزادانہ فیصلے کرتے ہیں تو یہ دہشت گردی کے خلاف بھی فیصلوں میں آزاد ہیں مگر شاید یہ اس نوعیت کے فیصلے نہیں کرنا چاہتے۔
نوٹ: یہ تمام حقائق میرا ذاتی مشاہدہ اور رائے ہیں، اس میں غلطی کا احتمال موجود ہے اور اسے جنرل کیانی کی رائے نہ سمجھا جائے۔