Thursday, 21 November 2024
  1. Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Giri Deewaron Taley

Giri Deewaron Taley

نوشیروان قدیم ایران کا مشہور بادشاہ تھا، یہ 531ء سے 579ء تک بادشاہ رہا، نوشیروان کے عدل نے اسے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ ہم سب دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، ہم میں سے کوئی شخص اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا، ہم ساٹھ ستر سال کی اس زندگی میں تین قسم کے کام کرتے ہیں، ہمارے پہلی قسم کے کام دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔

دوسری قسم آخرت سے متعلق ہوتی ہے اور تیسری قسم کے کاموں کا تعلق انسانیت سے ہوتا ہے۔ ہم دنیا سے رخصت ہو تے ہیں، دنیا اور آخرت سے متعلق تمام کامیابیاں پردے کے پیچھے چلی جاتی ہیں، ہم نے کتنی دولت کمائی، کتنے بڑے عہدے لیے اور ہم نے سیاسی، معاشی اور سماجی لحاظ سے کتنی کامیابیاں حاصل کیں، ہماری دو نسلوں کے بعد ان کا تذکرہ تک ختم ہو جاتا ہے۔ ہم نے کتنی نمازیں پڑھیں، ہم نے کتنے روزے رکھے۔

ہم نے کتنے عمرے اور حج کیے اور ہمارے ماتھے پر کتنا بڑا محراب تھا، لوگ چند برس بعد یہ بھی بھول جاتے ہیں لیکن انسانیت کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ امام بخاری نے چھ لاکھ احادیث جمع کیں، یہ انسانیت کی خدمت تھی، امام بخاری آج ساڑھے گیارہ سو برس بعدبھی زندہ ہیں۔ مولانا روم نے1263ء میں تصوف میں محبت کے 40 اصول متعارف کرائے وہ بھی آج تک زندہ ہیں۔ ابن خلدون نے 1373ء میں اسلامی تاریخ لکھی، معاشرت کا مقدمہ تحریر کیا۔

یہ بھی آج تک زندہ ہیں اور ان سے پہلے ہومر، سقراط، بقراط، افلاطون اور ارسطو زندہ ہیں اور ہمارے بعد چکن برائلر، گندم کی نئی قسمیں، کینسر کی دوا اور شیعہ سنی کے درمیان محبت ایجاد کرنے والوں کا نام سیکڑوں ہزاروں سال تک زندہ رہے گا۔ نوشیروان بھی ایک ایسا ہی شخص تھا، اس نے انصاف کا سستا، آسان اور تیز سسٹم ایجاد کیا تھا لہٰذا یہ آج14 سو سال بعدبھی زندہ ہے لیکن نوشیروان ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔

یہ زندگی کے ابتدائی برسوں میں عام راجہ، مہاراجہ اور بادشاہ تھا، یہ بادشاہ بنا تو اس نے بھی وہ تمام کام شروع کر دیے جو بادشاہ لوگ کیا کرتے ہیں، اس کوکوئی باغ پسند آ گیا، کسی کا محل، گھوڑا، کاروبار، دکان یا بیوی پسند آ گئی تو اس نے اس پر قبضہ کر لیا، اس کو کسی شخص کا چہرہ اچھا نہ لگا اس کا سر قلم کروا دیا، کوئی بھیڑیں چرانے والا پسند آ گیا اسے مشیر بنا دیا، کسی وزیر، مشیر یا سفیر کا مشورہ پسند نہ آیا تو اسے جیل میں پھینکوا دیا۔

مفت روٹی کا آئیڈیا آیا تو پورے ملک میں مفت روٹی کے تنور لگوا دیے، خزانہ خالی ہوا تو تمام زمینوں، کارخانوں اور بازاروں پر قبضہ کر لیا اور فوج بنانے کا خبط سوار ہوا تو ملک کے تمام نوجوان بھرتی کر لیے، وغیرہ وغیرہ۔ نوشیروان کے ان اقدامات نے ایران کو بھی اس سطح تک پہنچا دیا جہاں ماشاء اللہ آج ہمارا ملک ہے، ایران دیوالیہ ہو گیا، شہر اجڑ گئے، دیہات ویران ہو گئے، کھیت خشک ہو گئے، کنوئوں کا پانی اتر گیا، دریا، ندی اور نالے غائب ہو گئے، کاروبار بند ہوگئے اور سرمایہ کار نقل مکانی کر گئے گویا ایران پاکستان بن گیا۔

نوشیروان ویرانی اور اجاڑ کے اس موسم میں ایک دن شکار کے لیے نکلا، اس کا ایک مشیر بھی اس کے ساتھ تھا، یہ مشیر جانوروں اور پرندوں کی بولی سمجھتا تھا، دونوں دیہات کی طرف نکل گئے، راستے میں ایک ویران گائوں آگیا، نوشیروان سستانے کے لیے گائوں میں رک گیا، گائوں میں کوئی بندہ بشر تھا اور نہ ہی ڈھورڈنگر۔ نوشیروان ایک اجاڑ درخت کے نیچے لیٹ گیا، اس درخت پر دو الو بیٹھے تھے، الو نوشیروان کو دیکھتے تھے اور ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کرتے تھے۔

نوشیروان نے اپنے مشیر کو بلوایا اور اس سے پوچھا "یہ الو آپس میں کیا گفتگو کر رہے ہیں " مشیر نے غور سے الوئوں کی بات چیت سنی اور شرما گیا۔ بادشاہ نے پوچھا "یہ کیا کہہ رہے ہیں " مشیر نے بادشاہ سے عرض کیا "حضور یہ دونوں بزرگ الو ہیں، یہ اپنے بچوں کا رشتہ طے کر رہے ہیں، ایک الو دوسرے الو سے مطالبہ کر رہا ہے، میں جہیز میں ایسے بیس اجڑے ہوئے گائوں لوں گا جب کہ دوسرا دس دینا چاہتا ہے، لین دین کی یہ بحث پچھلے دو دنوں سے جاری ہے۔

لیکن یہ اب این آر او پر پہنچ گئے ہیں " مشیر خاموش ہوگیا، بادشاہ نے پوچھا "یہ کس سمجھوتے پر پہنچے ہیں " مشیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور اس نے عرض کیا "حضور یہ گستاخی ہے، میں آپ کے سامنے یہ جرات نہیں کر سکتا" بادشاہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس نے سختی سے کہا "تم بتائو، یہ ہمارا حکم ہے" مشیر نے جان کی امان طلب کی اور ڈرتے ڈرتے عرض کیا "جناب لڑکی والے الو نے لڑکے والے الو سے کہا تم نیچے دیکھو، ہمارے درخت کے نیچے نوشیروان بیٹھا ہے، ایران اس کی مہربانی سے تیزی سے اجڑ رہا ہے، تم اس کے اقتدار کی طوالت کی دعا کرو۔

یہ بادشاہ سلامت رہا تو میں تمہیں بیس کیا دو سو گائوں جہیز میں دے دوں گا" یہ بات بات نہیں تھی، یہ تیر تھا اور وہ تیر سیدھا نوجوان بادشاہ کے دل سے پار ہو گیا، وہ اٹھا، گھوڑے پر بیٹھا، شہر واپس آیا، دربار میں گیا اور وہاں سے ایک نئے نوشیروان کا آغاز ہو گیا، نوشیروان نے پورے ملک میں انصاف قائم کر دیا، چپڑاسی سے لے کر بادشاہ تک ہر شخص انصاف کے سامنے جواب دہ تھا، انصاف قائم ہوا تو ملک میں امن ہو گیا، امن ہوا تو کھیتیاں، بازار، صنعتیں اور منڈیاں آباد ہو گئیں، منڈیاں آباد ہوئیں تو لوگ خوشحال ہو گئے، خوشحالی آئی تو اطمینان آ گیا، اطمینان آیا تو فنون لطیفہ کی آنکھ کھل گئی اورمصوروں نے تصویریں بنانا شروع کر دیں۔

شاعر شعر کہنے لگے، موسیقار دھنیں بنانے لگے، محقق تحقیق کرنے لگے، ادیب ادب تخلیق کرنے لگے اور اداکار اداکاری کے جوہر دکھانے لگے، یہ مناظر ہمسایہ ممالک کے عوام نے دیکھے تواس نے اپنے ظالم بادشاہوں کے خلاف بغاوت کر دی اور یوں وہ تمام ملک جنگ و جدل کے بغیر نوشیروان کے ملک کا حصہ بن گئے، اس طرح نوشیروان کی سلطنت کابل سے اناطولیہ اور تاشقند سے مقدونیہ تک پھیل گئی اور نوشیروان محض نوشیروان نہ رہا نوشیروان عادل ہو گیااور دنیا آج 14 سوسال بعد بھی اسے عادل کہتی ہے۔

آج پاکستان بھی نوشیروان کا قدیم ایران ہے، ہمارے ملک میں بھی اجاڑ پھیل رہا ہے اور ہر اجڑے ہوئے برباد ادارے، ہر خشک دریا، ہر ٹوٹے ڈیم، لوڈشیڈنگ کے شکار ہر شہر اور بربادی کی دھول میں دفن ہر قصبے کی منڈیر پر الو بیٹھے ہیں اور یہ الوایک دوسرے کو تسلی دے رہے ہیں "تم فکر نہ کرو اگریہ حکمران سلامت رہے تو میں تمہیں بیس کیا دو سو شہر دے دوں گا"

لیکن اس ملک میں ان الوئوں کی سرگوشیاں سننے والا کوئی نوشیروان موجود نہیں، یہ سب غاصب ذہنیت کے بیمار لوگ ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف اقتدار، دولت، اختیار اور اپنی ناآسودہ خواہشات کو گنے کا رس پلانا ہے، ان سب نے لائف جیکٹس پہن رکھی ہیں چنانچہ ان کی بلا سے یہ کشتی ڈوب جائے یا تر جائے۔ یہ اپنے مستقبل، یہ اپنے کل سے مطمئن ہیں، یہ لوگ کشتی ڈوبنے کے بعد کسی پرامن، ٹھنڈے اور خوشحال جزیرے میں چلے جائیں گے اور باقی زندگی واک، گالف، بیچ اور اپنی کامیابیوں کی داستانیں سنا کر گزار دیں گے۔ صدر آصف علی زرداری اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم کا تذکرہ کرتے رہیں گے۔

یوسف رضا گیلانی آغاز حقوق بلوچستان، گلگت بلتستان کو صوبے کا اسٹیٹس اور صوبہ سرحد کو خیبرپختونخوا کا نام دینے کا تذکرہ کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی آہ بھر کر کہیں گے " سپریم کورٹ نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی"۔ میاں نواز شریف موٹروے، ایٹمی دھماکوں، پرویز مشرف کا غاصبانہ اقدام، سستی روٹی، سستی ٹیکسی اور فری لیپ ٹاپ کا راگ الاپتے رہیں گے۔ میاں شہباز شریف کے لیے آشیانہ اسکیم اور دانش اسکول کافی ہیں اور پیچھے رہ گئیں۔

چھوٹی پارٹیاں تو ایم کیو ایم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں، پاکستان مسلم لیگ ق میاں برادران، جے یو آئی اسلام دشمن قوتوں، اے این پی جنرل ضیاء الحق اور بلوچ جماعتیں خفیہ اداروں کو گالیاں دے کر وقت گزار لیں گی لیکن اس ملک کے عوام کہاں جائیں گے۔ ان بیچاروں کا کیا بنے گا جو بھوکی بلیوں کی طرح ہر درویش کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں، یہ بے چارے کہاں جائیں گے، یہ کس کے سہارے زندگی گزاریں گے۔

یہ حقیقت ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں نے عوام کو مایوس کر دیا اور لوگ اب پاکستان تحریک انصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن اگر عمران خان بھی شیخ رشید احمد جیسے پاکستانی فرزندوں کے ساتھ جلسے کرتے رہے، یہ بھی ان کے ساتھ سیاسی اتحاد بناتے رہے اور یہ بھی میاں برادران اور چوہدری نثار کے ذاتی کردار پر حملے کرتے رہے تو یہ بھی اپنی مقبولیت کو گرہن لگا لیں گے اور ان کا چاند بھی چڑھنے سے پہلے ڈوب جائے گا۔

ہماری ناک سے پانی ابھی نیچے ہے، ہم ابھی تک سانس لے رہے ہیں، ہماری قیادت اگر آج نوشیروان بننے کا اعلان کر دے، صدر آصف علی زرداری، میاں نوازشریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنے جرائم کا اعتراف کر لیں، یہ سپریم کورٹ اور قوم سے معافی مانگ لیں اور یہ اعلان کر دیں۔

ہم آج سے وہ نہیں ہیں جو ہم کل تھے تو یقین کیجیے پورے اٹھارہ کروڑ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اوریہ لوگ اس اجڑتے ہوئے ملک کی جڑوں کو دوبارہ ہرا کر دیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں صدر زرداری کا بانس رہے گا اور نہ ہی میاں صاحب کی بانسری اور ہم عوام بھی اجڑے دیسوں کی گری دیواروں تلے دفن ہو جائیں گے کیونکہ لیڈروں کی غلطیوں کی سزا بہرحال قوموں ہی کو بھگتنا پڑتی ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran