دنیا میں سترہ مزاج کے لوگ ہوتے ہیں، ہم لوگ ان میں سے کسی ایک مزاج میں پیدا ہوتے ہیں، ہمارا مزاج ہماری وہ فطرت ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے " نیچر کین ناٹ بی چینجڈ" فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی، ہم میں سے کچھ لوگ کنجوس ہوتے ہیں، یہ کھرب پتی ہو کر بھی کنجوس رہتے ہیں اور لوگ ان کے بارے میں کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا حاجی صاحب پر بہت کرم ہے مگر یہ اپنی گانٹھ نہیں کھولتے، ہم میں سے کچھ لوگ فیاض ہوتے ہیں، یہ فقیر بھی ہوں تو بھی کسی کو انکار نہیں کرتے، ہم میں سے کچھ لوگ بہادر ہوتے ہیں، یہ اکیلے پوری فوج سے ٹکرا جاتے ہیں، آپ روز انھیں کہیں " تم پھڈے سے باز رہا کرو" یہ آپ سے روز وعدہ کریں گے لیکن انھیں جوں ہی کوئی چیلنج کرے گا یہ سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں گے، ہم میں کچھ لوگ بزدل ہوتے ہیں، یہ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے سپہ سالار بن جائیں تو بھی یہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہوتے، ہم میں سے کچھ لوگ شکی ہوتے ہیں، آپ انھیں حرم شریف میں بھی بٹھا دیں مگر ان کا شک نہیں جائے گا۔
ہم میں سے کچھ لوگ غیر مطمئن ہوتے ہیں، آپ انھیں جنت میں بھی لے جائیں یہ وہاں بھی کوئی نہ کوئی اعتراض اٹھا دیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ فراخ دل ہوتے ہیں، آپ ان سے ان کی جنت چھین لیں، یہ آپ کو معاف کرتے چند سیکنڈ لگائیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ ہمدرد ہوتے ہیں، یہ سڑک پر پڑے شخص کو چار بوتل خون دے دیں گے، یہ دشمن کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ ظالم ہوتے ہیں، یہ اپنے والد، اپنی والدہ، بہن، بھائی اور اولاد تک کو ظلم کی چکی میں پیس دیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ پرامید ہوتے ہیں، یہ دوزخ میں بھی جنت میں گھسنے کے منصوبے بناتے رہیں گے۔
ہم میں سے کچھ لوگ مایوس فطرت کے مالک ہوتے ہیں، یہ زکام میں مبتلا ہو جائیں تو کینسر کی ادویات سرہانے رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، ہم میں سے کچھ لوگ محتاط ہوتے ہیں، یہ آب زم زم بھی ابال کر پیتے ہیں، ہم میں سے کچھ لوگ کیئر فری (غیر محتاط) ہوتے ہیں، یہ سانپ کا انڈہ تک توڑ کر پی جائیں گے اور گھوڑے کے منہ سے گاجر کھینچ کر کھا جائیں گے، ہم میں کچھ لوگ شیخی خور یا خوشامد پسند ہوتے ہیں، یہ کھانسنے، جمائی لینے اور خارش کرنے کے بعد بھی داد طلب نظروں سے دائیں بائیں دیکھیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ غلامانہ فطرت لے کرپیدا ہوتے ہیں، آپ انھیں امریکا کا صدر بنا دیں مگر یہ اپنے ڈرائیور، اپنے پی اے یا ویٹر کو باس بنا لیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ سازشی ہوتے ہیں۔
یہ کرہ ارض پر اکیلے رہ جائیں تو بھی سازش سے باز نہیں آئیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ نفاست پرست ہوتے ہیں، آپ انھیں کچرا گھر میں پھینک دیں یہ وہاں بھی کسی نہ کسی طرح ٹشو پیپر تلاش کر لیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگ حریص(لالچی) ہوتے ہیں، آپ انھیں دنیا جہاں کے خزانے دے دیں، آپ قارون کے سات خزانے نکال کر ان کے حوالے کر دیں، آپ انھیں پوری دنیا کا سونا، تیل پیدا کرنے والے گیارہ ملکوں کا پٹرول اور امریکا کی 36 ہزار کمپنیوں کا سارا سرمایہ دے دیں مگر ان کی ہوس ختم نہیں ہو گی، یہ جاتے جاتے آپ کی چھت کا پنکھا اور آپ کے سلیپر لے جائیں گے۔
دنیا جب بھی اپنے لیے حکمرانوں کا تعین کرتی ہے، یہ اپنے سماجی اور جغرافیائی حالات سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے مثلاً آپ اگر جنگوں کے زمانے میں کسی بہادر شخص کو اپنا حکمران بنا دیں گے تو یہ ملک کو جنگ میں جھونک دے گا، آپ ہٹلر، میسولینی، جاپانی شہنشاہ سوآہیروہیٹو اور صدام حسین کی مثالیں لے سکتے ہیں، یہ بہادر لوگ تھے، یہ غلط وقت میں حکمران بنے اور اپنے ملک تباہ کروا لیے، مثلاً آپ کے ملک پر جنگ مسلط ہو چکی ہے اور آپ اگر اس وقت کسی بزدل شخص کو حکمران بنا لیتے ہیں تو یہ کیا کرے گا؟
یہ آپ کو پسپائی کی طرف لے جائے گا، آپ کو اس وقت ایسے بہادر شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو نتائج کی پرواہ کیے بغیر قوم کو اکٹھا کرے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دے، آپ اس سلسلے میں چرچل اور روز ویلٹ کی مثال لے سکتے ہیں، یہ دونوں دوسری جنگ عظیم میں سامنے آئے اور انھوں نے جرمنی اور جاپان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا، برطانیہ کے لوگوں نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ونسٹن چرچل کو فارغ کر دیا کیونکہ یہ جانتے تھے یہ بہادر شخص ہے اور یہ ہمیں امن سے نہیں رہنے دے گا، یہ کوئی نہ کوئی نئی جنگ چھیڑ دے گا۔
سیانی قومیں مالیاتی بحرانوں کے دنوں میں اقتدار کنجوس اور پرامید لوگوں کے حوالے کرتی ہیں، یہ کنجوس لوگ سانپ بن کر خزانے کی رکھوالی کرتے ہیں اور یوں معیشت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگتی ہے، قومیں خوش حالی کے زمانے میں فراخ دل اور ہمدرد لوگوں کو حق حکمرانی دیتی ہیں، یہ لوگ عام لوگوں کو اس خوشحالی میں شامل کرتے ہیں اور یوں قوم کا بچہ بچہ خوشحالی کا ذائقہ چکھتا ہے۔ قومیں غلامانہ فطرت، شیخی خوروں، غیر محتاط، مایوس فطرت، ظالم، شکی اور حریص لوگوں کو حکمران نہیں بناتیں۔ انسان نے یہ سبق ہزاروں سال کے تجربے سے سیکھا ہے۔
آپ دنیا کے کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس ملک میں جب بھی کوئی حریص، کوئی شکی، کوئی ظالم، کوئی مایوس فطرت، کوئی غیر محتاط، کوئی شیخی خور، کوئی خوشامد پرست یا کوئی غلامانہ فطرت کا شخص تخت پر بیٹھا نظر آئے گا آپ اس دور میں اس ملک میں ابتری، خانہ جنگی، معاشی بدحالی، قتل و غارت گری، غربت، بیماری اور ناانصافی دیکھیں گے، آپ کو اس دور میں خلق خدا دہائی دیتی نظر آئے گی، آپ کسی ملک کی تاریخ پڑھنا شروع کر دیں۔
آپ کو وہاں جوں ہی کوئی فراخ دل، بہادر، محتاط اور خوش دل شخص تخت پر بیٹھا نظر آئے گا آپ کو اس ملک کی تاریخ میں وہ دور لق و دق صحرا میں نخلستان دکھائی دے گا اور آپ جوں ہی کسی ظالم، حریص یا شیخی خور کو تخت پر قدم رکھتے دیکھیں گے آپ کو خوش حالی اور امن کا وہ نخلستان ریت میں ریت ہوتا نظر آئے گا اور یہ وہ حقیقت ہے جس تک پہنچنے کے لیے انسان کو دس ہزار سال لگ گئے، انسان کو اس کی دس ہزار سال کی تحریری تاریخ نے سکھایا، انسان کو کبھی اپنا مقدر غلط فطرت کے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا چاہیے اور یہ غلطی اگر ہو جائے تو انسان کو اس کی اصلاح میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ملک اور معاشرے کو پاکستان بنتے دیر نہیں لگتی۔
عوام پچھلے ہفتے سے بہت دلچسپ رپورٹس پڑھ رہے ہیں، ان رپورٹس میں انکشاف ہوا کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس مسلسل تین دن تک جاری رہا، وزیر خزانہ (عارضی) سلیم مانڈی والا نے تین ہفتوں میں 4 کھرب 65 ارب روپے کے منصوبوں کی منظوری دے دی، راجہ پرویز اشرف نے اپنی مدت میں روزانہ 20 کروڑ بانٹے، وزیر خزانہ نے وزیراعظم کو پہلے صوابدیدی فنڈز کے 27 ارب روپے ریلیز کیے، پھر دس ارب روپے دیے اور پھر چار ارب روپے مزید دے دیے اور وزیر خزانہ تین دن تک سمریوں، درخواستوں اور منصوبوں کے کاغذات پر دستخط کرتے رہے، یہ اطلاع بھی آئی ارب پتی اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے جاتے جاتے خود کو لاکھوں روپے کی مراعات دے دیں۔
انھیں اب تاحیات ایک لاکھ روپے پنشن، 1600 سی سی گاڑی، ڈرائیور، نائب قاصد، چوکیدار، آپریٹر، پی اے اور غیر معینہ میڈیکل کی سہولیات حاصل رہیں گی اور سندھ اسمبلی نے بھی سابق ہونے والے ارکان اور ان کے اہل خانہ کے لیے تاحیات مراعات کا بل پاس کرا لیا، اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی تمام سابق وزراء اعظم کو نواز گئے اور صدر صاحب بھی اب قوم کی پانچ سال تک رہنمائی کا اعزازیہ حاصل کریں گے، میں جب بھی یہ رپورٹس یا خبریں پڑھتا ہوں اور اس کے بعد لوگوں کا رسپانس دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔
ہم جب خود حریص، سازشی، غلامانہ سوچ، شیخی خور اور ظالم لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، ہم جب اپنی نکیل خود اپنے ہاتھوں سے ان کے حوالے کر دیتے ہیں تو ہم پھر چیختے کیوں ہیں؟ ہم اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ ہم عجیب لوگ ہیں، ہم پہلے ڈھونڈ ڈھانڈ کر جلادوں کو منتخب کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں تیز تلوار دیتے ہیں، انھیں اپنے سر پر کھڑا کرتے ہیں اور پھر جب یہ تلوار لہراتے ہیں تو ہم چیخنا شروع کر دیتے ہیں، ہم دہائیاں دینا شروع کر دیتے ہیں، کیوں؟ اپنے ہاتھوں سے زہر پینے والوں کو تو کم از کم اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے حکمران فطرتاً حریص ہیں اور حریص کا پیٹ قبر کی مٹی بھی نہیں بھر سکتی لہٰذا پھر فہمیدہ مرزا ہوں، پرویز اشرف ہوں، سلیم مانڈی والا ہوں، ڈاکٹر عاصم ہوں، یوسف رضا گیلانی ہوں یا پھر سندھ اسمبلی کے ارکان ہوں ان کی آنکھیں اور پیٹ کیسے بھریں گے، یہ کیسے مطمئن ہوں گے، یہ گارے سے بنے لوگ ہیں، ان سے خوشبو کیسے آ سکتی ہے؟ یہ انسان نہیں ہیں یہ تھوہر کے کانٹوں سے بنی چادریں ہیں، یہ کسی کا تن نہیں ڈھانپ سکتیں اور یہ حکمران نہیں ہیں، یہ انگاروں کی فصل ہیں، یہ کسی کو رزق نہیں دے سکتی، ہم کتنے سادہ لوگ ہیں ہم کانٹوں پر لیٹ کر نیند کی دعا مانگتے ہیں اور پتھروں کو پانی دے کر چاولوں کی فصل کا انتظار کرتے ہیں، ہم بھی کیا لوگ ہیں۔