وہ دو تھیں، ایک میکسیکو میں پیدا ہوئی، دوسری جرمنی کے شہر لائزگ میں۔
ایک نن تھی اوردوسری ڈاکٹر۔ سسٹربیرنس کا تعلق میکسیکو سے تھا جب کہ ڈاکٹر روتھ فائو جرمنی کی رہنے والی تھی، یہ دونوں انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ نے 1958ء میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی، کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے، جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے، کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے، کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں، ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں، یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے، یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا، ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں، یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں، لوگ آنکھ، منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے، لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے، ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے، پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے، یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
ڈاکٹر روتھ فائو اس وقت تیس سال کی جوان خاتون تھی، یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی، زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا، ڈاکٹر روتھ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی، اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک، اپنی جوانی، اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی، ڈاکٹر روتھ نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا، کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا، لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے، ڈاکٹر روتھ اور سسٹر بیرنس کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا، انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا، ڈاکٹر روتھ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی، یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا، اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا، ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی، ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں، سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا، ڈاکٹر روتھ نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا، ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے، ڈاکٹر روتھ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی، جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ ڈاکٹر روتھ پاکستان میں جزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی، ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ڈاکٹر روتھ کی کوششوں سے سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو "لپریسی کنٹرولڈ" ملک قرار دے دیا، پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا، یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔
حکومت ڈاکٹر روتھ فائو کی خدمات سے واقف ہے چنانچہ حکومت نے 1988ء میں ڈاکٹر روتھ کو پاکستان کی شہریت دے دی، اسے ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹر روتھ فائو کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات، یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ "ڈیزرو" کرتی ہے، جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے، جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
جس میں لوگ آج بھی کینسر کا علاج پھونکوں، شوگر کا علاج پانی اور نفسیاتی عارضوں کا علاج عاملوں کے ڈنڈوں سے کرتے ہیں اور جس میں ہم بغیر کسی وجہ کے ہر گورے کے خلاف ہیں اور ہم سیم باسیل جیسے بیمار ذہنیت کے لوگوں کی حرکتوں کی سزا پاکستانی چرچوں، پاکستانی اے ٹی ایم مشینوں، پاکستانی پٹرول پمپوں اور پاکستانی گاڑیوں کو دیتے ہیں اور جس میں اسکول کھولنے کا مطالبہ کرنے پر ملالہ یوسف زئی جیسی بچیوں کو گولی مار دی جاتی ہے اور جس میں وہ لوگ پورا معاشرہ ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جو میٹرک تک تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور جو عملی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ جس میں لوگ معاشرے کے انتہائی برے، نالائق، کرپٹ اور بے ایمان لوگوں کو پہلے پارلیمنٹ میں بھجواتے ہیں اور پھر ان کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور جس میں مارشل لاء اور جمہوریت کھیل بن چکی ہے اور جس میں آج تک کسی سیاستدان (عمران خان کے علاوہ)، کسی بڑے عالم کو کسی بیماری کے خلاف جہاد کی توفیق نہیں ہوئی، جس میں لوگ قربانی کی کھالیں جمع کر کے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے بجائے مساجد اور مدارس پر لگا دیتے ہیں اور جس میں لوگ تعلیم، صحت اور صاف پانی کا بجٹ بھی کھا جاتے ہیں اور جس میں آج بھی لوگوں کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا۔
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے بلکہ یہ لکھتے ہوئے میرے ملک کے علمائے کرام مجھے معاف کر دیں تو یہ جہاد اکبر ہے۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون، اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے، ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔
میری خواہش ہے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹر روتھ کا پروفائل چھوٹے بچوں کے سلیبس میں شامل کر لیں، یہ وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں میں مرکزی جگہوں پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بھی بنوائیں، ڈاکٹر روتھ کی تصویر کنندہ کی جائے، اس کے ساتھ اس کا پروفائل تحریر کیاجائے اور عوام اور اسکولوں کے بچوں کو تحریک دی جائے یہ ڈاکٹر روتھ کی یادگار پر آئیں اور یہاں موم بتی جلا کر پاکستان کی اس محسنہ کا شکریہ ادا کریں۔ ہمارا سی ڈی اے پہلا قدم اٹھا سکتا ہے، یہ شاہراہ دستور یا بلیو ایریا کے کسی نمایاں مقام پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بنا دے، ڈاکٹر صاحبہ شائد اس وقت تک زندہ ہیں آپ انھیں بلوا کر اس یاد گار کا افتتاح کروائیں اور ہمارا میڈیا انھیں سراہے تا کہ جرمنی سمیت یورپ اور امریکا کے لوگوں کو علم ہو سکے ہم جہاں سیم باسیل جیسے شیطانوں کی مذمت کرتے ہیں ہم وہاں ڈاکٹر روتھ جیسی فرشتہ صفت خواتین کی عظمت کا احترام بھی کرتے ہیں، ہم انھیں اپنے دل اور دماغ دونوں میں جگہ بھی دیتے ہیں اور، اور، اور ہم احسان فراموش نہیں ہیں، ہم اپنے محسنوں کوکبھی نہیں بھولتے۔