Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Hum Ne Wo Kya Jo 65 Barson Main Nahi Hua

Hum Ne Wo Kya Jo 65 Barson Main Nahi Hua

ہم اس وقت بھی پانی ابال کر پیتے تھے، یہ 1993ء کا زمانہ تھا اور شہر تھا اسلام آباد، اسلام آباد اس وقت آج کے مقابلے میں زیادہ پرامن، آج کی نسبت زیادہ خوبصورت اور دھیما شہر تھا، آبادی بھی کم تھی، سڑکوں پر رش بھی نہیں تھا اور شہر بھی آج کی نسبت زیادہ صاف ستھرا تھا مگر ہم اس وقت بھی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے تھے، ہم واٹر سپلائی کا پانی بڑے بڑے پتیلوں میں ڈالتے تھے، پانی کو ابالتے تھے، ٹھنڈا کرتے تھے اور اس کے بعد پینے کا رسک لیتے تھے، میری فیملی نے 1995ء میں مجھے جوائن کیا، ہم نے گھر میں پانی کی موٹر لگوا لی، ہمیں زمین سے تازہ پانی ملنے لگا، میں نے احتیاطاً پانی ٹیسٹ کرایا تو تازہ پانی بھی آلودہ نکلا، میں نے وجہ جاننا چاہی تو پتہ چلا شہر کی سیوریج لائنیں پھٹی ہوئی ہیں۔

یہ لائنیں واٹر سپلائی کو بھی آلودہ کر رہی ہیں اور زمین میں موجود تازہ پانی کو بھی چنانچہ اسلام آباد کے شہریوں کو ٹونٹی اور موٹر کا پانی نہیں پینا چاہیے، ہم لوگ منرل واٹر پر شفٹ ہو گئے اور یہ مجبوری آج تک چل رہی ہے، ہم نے اس دوران پانی کے فلٹر کا تجربہ بھی کیا مگر فلٹروں کا معیار بھی ٹھیک نہیں تھا اور ہمارے پانی میں بھی بعض ایسی آلودگیاں پائی جاتی ہیں جو فلٹرز کو بھی مات دے دیتی ہیں اور سیدھی ہمارے معدے میں پہنچ جاتی ہیں لہٰذا پاکستان کے سب سے اچھے، وفاقی دارالحکومت اور کم ترین آبادی کے حامل شہر اسلام آباد کے عوام بھی منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں، اسلام آباد کی نوے فیصد آبادی منرل واٹر استعمال کرتی ہے جب کہ باقی دس فیصد لوگ پانی ابال کر پیتے ہیں، یہ آلودہ پانی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کا شکار بھی ہیں، یہ لوگ صاف پانی کی اسکیموں سے کولرز اور گھڑوں میں پانی لے کر بھی جاتے ہیں، میں جب اس صورتحال کا تقابل اپنے بچپن سے کرتا ہوں تو مجھے حالات یکسر مختلف ملتے ہیں۔

میں گائوں میں کھلے کنوئوں کا پانی پیتا تھا، ان کنوئوں میں مینڈک بھی ہوتے تھے، جانوروں کا گوبر بھی اور جڑی بوٹیوں اور درختوں کے پتے اور چھال بھی، ہمارے کنوئیں کی دیواروں پر کائی بھی جمی تھی اور ایک آدھ بار اس سے پانی کا سانپ بھی نکل آیا، ہم شہر میں بھی واٹر سپلائی اور نلکے کا پانی پیتے تھے اور ہمیں کبھی پیٹ درد تک کی تکلیف نہیں ہوئی تھی مگر آج اس گائوں اور اس شہر کے لوگ منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں، یہ کنوئیں اور نلکے کا پانی نہیں پی رہے اور یہ صورتحال گوادر سے لے کر چمن اور کوئٹہ سے لے کر سوست بارڈر تک یکساں ہے، آپ ملک کے کسی شہر، کسی کونے میں چلے جائیں آپ نلکے اور ٹونٹی کے پانی کا رسک نہیں لے سکتے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ کو یورپ، امریکا، مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے لوگ نلکے اور ٹونٹی سے پانی پیتے نظر آئیں گے، ریستورانوں میں ویٹر گاہکوں سے پوچھتے ہیں آپ کو منرل واٹر چاہیے یا عام پانی اور لوگوں کی بڑی تعداد عام پانی منگواتی ہے، یورپ نے صاف پانی کا یہ مسئلہ بڑی مشکل سے حل کیا، ہم پاکستان میں جس وقت صاف پانی پیتے تھے، یورپ کے لوگ اس وقت پانی ابالتے تھے، یورپ کی حکومتوں نے لوگوں کی اس تکلیف کا احساس کیا، انھوں نے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے، پانی کی لائنیں درست کیں اور آج ان کے ہر شہری کوصاف پانی مل رہا ہے جب کہ ہماری کسی حکومت نے عوام کی اس بنیادی ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے چند دن قبل فرمایا " ہم نے پانچ برسوں میں جتنے کام کیے اتنے 65 برسوں کی تاریخ میں نہیں ہوئے" ہم عوام وزیراعظم کے فرمان پر " ایمان" لانے کے لیے تیار ہیں اگر وزیراعظم وفاقی دارالحکومت کی کسی ٹونٹی سے پانی کا گلاس بھر کر پی لیں، یہ وزیراعظم ہائوس یا ایوان صدر کی ٹونٹی ہی سے پانی پی لیں!! خدا کا نام لیں جس ملک میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں منرل واٹر پیش کیا جا رہا ہو، کیا اس ملک کے وزیراعظم کو یہ دعویٰ سوٹ کرتا ہے؟ جو حکومت وفاقی دارالحکومت کے دس لاکھ لوگوں کو صاف پانی نہ دے سکی ہو، اس نے کیا خاک ریکارڈ قائم کیا ہو گا؟ آپ اس کو بھی چھوڑ دیں، کیا وزیراعظم سرکاری اسپتال سے اپنا یا اپنے خاندان کا علاج کرا سکتے ہیں، کیا یہ سرکاری ڈسپنسری کی دوا کھا سکتے ہیں، کیا یہ کسی سرکاری سرجن سے آپریشن کرا سکتے ہیں اور کیا یہ اپنے آبائی حلقے گوجر خان کے کسی اسپتال میں دو دن داخل رہ سکتے ہیں؟ اگر یہ گوجر خان اور وفاقی دارالحکومت کے کسی اسپتال سے اپنا یا اپنے خاندان کا علاج نہیں کرا سکتے تو پھر دعویٰ کس چیز کا؟ تفاخر کس بات کا؟ آپ یہ بھی چھوڑ دیں، کیا وزیراعظم صاحب کا کوئی پوتا یا نواسہ اسلام آباد کے کسی سرکاری اسکول میں داخل ہو سکتا ہے، کیا یہ اپنا بیٹا یا بیٹی کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخل کرا سکتے ہیں اور یہ اس کے بعد اس کی تعلیم سے مطمئن بھی ہوں گے؟

کیا وزیراعظم صاحب خود ڈرائیو کر کے، محافظوں اور گارڈز کے بغیر رات کے وقت اسلام آباد یا راولپنڈی میں نکل سکتے ہیں؟ کیا یہ اکیلے گوجرخان جا سکتے ہیں؟ کیا یہ اکیلے اپنے حلقے میں پھر سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے بچوں، اپنے بھائیوں کو گارڈز اور پولیس کے بغیر وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں یا گلیوں میں بھیج سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے خاندان کو ایک ماہ کے لیے کراچی بھجوا سکتے ہیں، کیا یہ انھیں لیاری، اورنگی ٹائون، لانڈھی، کٹی پہاڑی یا کورنگی میں رکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ تین دن کوئٹہ میں محافظوں کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے بچوں کو مستونگ، ڈیرہ بگٹی اور پسنی بھیج سکیں گے؟ کیا وزیراعظم اسکواڈ یا فوج کے دستوں کے بغیر مردان، پشاور اور سوات جا سکتے ہیں؟ کیا وزیراعظم کا خاندان ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاولپور یا رحیم یار خان میں رہ سکتا ہے؟ کیا یہ اکیلی گاڑی میں شام کے بعد اس سندھ میں سفر کر سکتے ہیں جہاں بھٹو آج بھی زندہ ہے اور جس کے عوام گڑھی خدا بخش کی قبروں کو ووٹ دیتے ہیں، کیا وفاقی وزراء اپنے حلقوں میں پولیس گارڈ کے بغیر جا سکتے ہیں؟ کیا یہ عوامی کچہریوں میں بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے سرکاری دفتروں میں عوام کا سامنا کر سکتے ہیں؟ آپ نے اگر واقعی 65 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے تو پھر آپ اعلان کر دیں عوام کے لیے کابینہ کے تمام وزراء کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، عوام وزیراعظم سے لے کر اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر تک کسی کے دفتر جا سکتے ہیں اورحکومت اس سے باقاعدہ ملاقات کرے گی، کیا آپ ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی جا سکتے ہیں؟ کیا آپ بسوں میں سفر کر سکتے ہیں؟ کیا آپ راولپنڈی اسلام آباد میں ٹیکسی میں سفر کر سکتے ہیں؟

کیا لاہور کے کسی رکشے میں بیٹھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ عام شہری کی حیثیت سے تھانے میں، وفاقی دارالحکومت کے تھانے میں رپٹ لکھوا سکتے ہیں؟ اور آپ دور نہ جائیے آپ صرف پانچ منٹ کے لیے اسلام آباد کی اس فروٹ، ویجی ٹیبل اور اناج کی منڈی میں چلے جائیے جس سے نہ صرف پورے شہر کو پھل، سبزیاں اور اناج سپلائی ہوتا ہے بلکہ وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر میں بھی یہی سبزیاں اور پھل کھائے جاتے ہیں، آپ اسلام آباد کے ان سلاٹر ہائوسز کا معائنہ کر لیں جہاں سے پورے شہر کو گوشت سپلائی ہوتا ہے اور آپ نے اگر ان جگہوں کے دورے کے بعد کبھی گوشت کھا لیا یا آپ نے بازار سے خریدا ہوا فروٹ یا سبزی کھا لی تو ہم مان جائیں گے آپ نے واقعی کمال کر دیا، آپ نے پانچ برسوں میں وہ کام کر دکھائے جو 65 برسوں میں کوئی حکومت نہیں کر سکی لیکن اگر آپ پانچ برسوں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو انٹرنیشنل لیول کی ایک فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل مارکیٹ نہیں دے سکے، آپ اس شہر کو صاف پانی، بین الاقوامی معیار کے اسپتال، اسکول، پولیس، امن اور سہولتیں نہیں دے سکے تو پھر آپ نے کیا کیا ہے؟ آپ نے کون سے تارے توڑے ہیں جن کے لیے قوم آپ کے گلے میں ہار ڈالے، اگر اس ملک میں وزیراعظم اور وزیراعظم کا خاندان سیکیورٹی کے بغیر سڑک پر نہیں نکل سکتا تو پھر جان لیں اس حکومت نے پانچ برسوں میں ملک میں اندھیروں کے سوا کچھ تقسیم نہیں کیا، یہ اندھیرے میں اندھیرا جمع کرنے والے ایسے ریاضی دان ہیں جو اس اندھیرے کو سورج ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کاش یہ لوگ آنکھیں کھول کر، ایک بار آنکھیں کھول کر حقائق کا سورج دیکھ لیں، کاش ایک بار۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran