حضرت ابو ایوب انصاریؓ عظیم المرتبت صحابی بھی تھے اور مدینہ میں رسول اﷲ ﷺ کے میزبان بھی۔ آپؐ نے ایک بار استنبول (قسطنطنیہ) کے بارے میں فرمایا، میری امت کا جو شخص یہ شہر فتح کرے گا، میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں، حضرت امیر معاویہؓ نے40 ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بیڑا تشکیل دیا، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی عمر اس وقت 73 برس سے زائد تھی مگر ذوق جہاد جوان تھا، آپ قسطنطنیہ کی مہم کے دوران سخت بیمار ہو گئے، جب زندگی کی امید نہ رہی توآپؓ نے وصیت فرمائی "جب میں مر جائوں تو میرا جنازہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکو لے جانا اور جب آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہ رہے تومجھے اس جگہ دفن کر دینا" آپؓ 57 ہجری میں انتقال کر گئے، آپ کی وصیت کی تعمیل ہوئی، آپؓ کے ساتھیوں نے آپؓ کو قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے دفن کر دیا، سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں استنبول فتح کیا تو اس نے آپؓ کا مزار بنوایا اور اس کے ساتھ ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی، یہ مسجد اور یہ مزار آج استنبول کی بارونق ترین جگہ ہے اور 21 اگست کو میں اس جگہ پہنچ گیا۔
ماضی کا قسطنطنیہ اور حال کا استنبول کرہ ارض کا واحد شہر ہے جو یورپ کو ایشیا سے جدا کرتا ہے، اس کا ایک حصہ براعظم ایشیا جب کہ دوسرا یورپ میں شامل ہے، ان دونوں حصوں کو آبنائے باسفورس جدا کرتی ہے، یہ پانی کی باریک پٹی ہے، جو بحر مرمرا اور بلیک سی کو ملاتی ہے اور استنبول شہر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، ایک حصہ ایشیا میں رہ جاتا ہے جب کہ دوسرا یورپ کا دروازہ بن جاتا ہے، آبنائے باسفورس سے پانی کی ایک اور پٹی نکلتی ہے جو یورپی حصے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے، یہ پٹی بیل کے سینگ کی طرح ہے چنانچہ یہ گولڈن ہارن کہلاتی ہے، یہ گولڈن ہارن ماضی میں شہر میں داخلے کا واحد راستہ تھا۔
استنبول کے پرانے باشندوں نے گولڈن ہارن میں لوہے کی ایک مضبوط زنجیر لگا رکھی تھی، یہ زنجیر پانی میں ڈوبی رہتی تھی، یہ لوگ جب زنجیر لگا دیتے تھے تو کوئی بحری جہاز استنبول کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، ان لوگوں نے ایک عجیب و غریب مسالہ بھی بنا رکھا تھا، یہ بارود میں ایسے کیمیکل ملاتے تھے جنھیں پانی بھی نہیں بجھا سکتا تھا، مسالے کا فارمولہ بازنطینی بادشاہوں کے خاندان میں صدیوں سے چلا آرہا تھا، بادشاہ مرنے سے قبل ولی عہد کو یہ فارمولہ بتا جاتا تھا اور نیا بادشاہ مرنے تک اس فارمولے کو سینے میں چھپائے رکھتا تھا، یہ لوگ گولڈن ہارن کی زنجیر کھینچ دیتے تھے جس کے بعد دشمن کے بحری جہاز آبنائے باسفورس میں رک جاتے، یہ اس کے بعد آبنائے باسفورس میں یہ مسالہ چھڑکتے تھے اور اسے آگ لگا دیتے تھے۔
یہ ایسی آگ ہوتی تھی جو پانی کی سطح پر جلتی تھی اور اسے کوئی بجھا نہیں سکتا تھا، یہ جادوئی آگ دشمن کے جہازوں کو سپاہیوں اور اسلحہ سمیت جلا کر راکھ بنا دیتی تھی۔ استنبول شہر کے گرد سنگی فصیل بھی تھی، یہ فصیل پانی کی حد تک تھی، اگر کوئی دشمن زنجیر توڑ کر اور جادوئی آگ سے بچ کر استنبول تک پہنچ بھی جاتا تھا توبھی اس کے لیے جہازوں میں کھڑے ہو کر فصیل توڑنا اور بازنطینی سپاہیوں سے لڑنا مشکل تھا چنانچہ اس قدرتی دفاع کی وجہ سے استنبول ناقابل تسخیر تھا، استنبول کی ان خوبیوں کی وجہ سے رومن ایمپائر کے مشہور بادشاہ کانسٹائن نے 330ء میں اس شہر کو رومی سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا اور یہ شہر کانسٹائن کی وجہ سے قسطنطنیہ مشہور ہو گیا، یہ شہر 1453ء تک رومن اور بازنطینی ریاست کا دارالحکومت رہا۔
یہ ریاست تین چوتھائی یورپ اور ایک تہائی ایشیا تک پھیلی تھی، یہ شہر ناقابل تسخیر ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب اور تمدن کا گہوارہ بھی تھا، آیا صوفیہ اس شہر کا سب سے بڑا چرچ تھا، یہ عمارت آج تک اس شہر کی پہچان ہے، یہ روم سے لے کر استنبول اور استنبول سے لے کر ٹوکیو تک دنیا کی واحد عمارت تھی جس میں 31 میٹر گول اور زمین سے 54 میٹر بلند گنبد تھا، شاہ جہان نے 1653ء میں تاج محل میں پہلا گنبد بنوایا، شاہ جہان کو گنبد کا یہ تصور شیرازی نام کے آرکی ٹیکٹ نے دیا، یہ معمار استنبول میں رہا تھا اور یہ آیا صوفیہ کے گنبد سے متاثر تھا۔ آیا صوفیہ تعمیراتی شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی عظیم لائبریری بھی تھا، اس میں دو لاکھ کے قریب کتب تھیں، ان کتابوں میں یونانی فلاسفروں کے قلمی نسخے بھی تھے، عربی کی کتابیں بھی، ہندوستان کے قدیم مذاہب کی کتب بھی اور یورپ کے قدیم سائنس دانوں، دانشوروں اور علم نجوم کے ماہرین کے قلمی نسخے بھی۔
عیسائی پادری 1453ء میں سقوط قسطنطنیہ کے بعد یہ کتب یورپ لے گئے اور ان کتابوں کے طفیل تاریکی میں ڈوبایورپ روشن ہو گیا، یہ لوگ کھانے پکانے، رہنے سہنے اور ایسے گھر بنانے کے بھی ماہر تھے جو گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے تھے، یہ پینے کے صاف اور میٹھے پانی کے ذخیرے بنانے کے ماہر بھی تھے اور یہ سائنسی لحاظ سے بھی دنیا سے بہت آگے تھے، شاید اسی لیے نبی اکرمؐ نے فرمایا میری امت کا جو شخص قسطنطنیہ فتح کرے گا میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ ہمارے جیسے ناقص عقل شخص کے ذہن میں اس بشارت کی دو وجوہات آتی ہیں۔ اول، یہ شہر ناقابل تسخیر تھا اور ظاہر ہے جو شخص اسے تسخیر کرتا وہ عسکری لحاظ سے انتہائی زیرک اور شاندار شخص ہو تا اور دوسرا یہ شہر تہذیب اور تمدن کا مرکز تھا چنانچہ اس کی تسخیر سے مسلمانوں کے تمدن اور تہذیب پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے تھے اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس پہلے لشکر کے سپاہی تھے جو استنبول کی تسخیر کے لیے حجاز سے نکلا۔
میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے معترف ہوں، یہ دنیا میں کوشش اور جدوجہد کا عظیم استعارہ ہیں، آپؓ نے ثابت کر دیا انسان کے لیے اگر کوئی کام ناممکن ہو تو بھی اسے کوشش ضرور کرنی چاہیے، انسان اس کوشش میں کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن انسان کی کوشش اس کو تاریخ کا حصہ ضرور بنا دیتی ہے، رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، یہ ایک لاکھ صحابہؓ زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو گئے، ہم ان میں بمشکل چند سو کے نام جانتے ہیں، ان صحابہؓ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے لیکن حضرت ابو ایوب انصاریؓ 73 سال کی عمر میں مدینہ منورہ سے نکلے اور ایک بظاہر ناممکن کام شروع کر دیا، اللہ تعالیٰ کو آپؓ کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اس نے آپؓ کے مزار کو نام اور شناخت دے دی اور یہ شناخت تا قیامت قائم رہے گی اور میرے جیسے گناہگار مسلمان جب بھی استنبول جائیں گے یہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے دربار میں بھی حاضر ہوں گے اور آپؓ سے کوشش اور ہمت کا سبق بھی سیکھیں گے۔
میں پچھلے سال جون میں ایک رات کے لیے استنبول رکا تھا، میں قازقستان جا رہا تھا اور استنبول میں رات بھر کا اسٹاپ اوور تھا، میں پوری کوشش کے باوجود حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری نہ دے سکا جس کا مجھے قلق تھا، مجھے اس عید پر چھ دن مل گئے، عید کے پروگرام ریکارڈڈ تھے چنانچہ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور عید سے اگلے دن استنبول پہنچ گیا، میں چھ دن استنبول رہا اور کل عین اس وقت اسلام آباد پہنچ گیا جب سپریم کورٹ راجہ پرویز اشرف کو 18 ستمبر تک مہلت دے رہی تھی، میں نے استنبول میں یہ چھ دن پیدل، میٹرو، بسوں اور ٹیکسیوں میں گزارے اور پوری طرح استنبول کے فسوں میں گرفتار ہو گیا، یہ شہر محض ایک شہر نہیں یہ ایک ایسی جادو گری ہے جو آپ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، میں نے بچپن میں "ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے" کا فقرہ پڑھا تھا لیکن میں نے استنبول میں پہلی بار اس کا مشاہدہ کیا، ترکی تاریخ بھی ہے، جغرافیہ بھی اور ترقی کی عظیم مثال بھی اور پاکستان جیسے بند معاشروں اور تیزی سے تنزلی کی طرف سرکنے والے ممالک کو ترکی کو رول ماڈل بنا لینا چاہیے، یقین کیجیے ہمارا بیڑا بھی پار ہو جائے گا۔
یہ ملک آج سے دس سال قبل تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا، اس کی حالت آج کے پاکستان سے زیادہ پتلی تھی، ترک سرمایہ کار ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور سیاح ائیرپورٹ کے اندر لٹ جاتے تھے، ترکی کی جیلیں مجرموں سے بھری پڑی تھیں، استنبول شہر انسانی اسمگلروں کا گڑھ بن چکا تھا، یہ منشیات اسمگلروں کا گولڈن ہارن بھی کہلاتا تھا لیکن پھر طیب اردگان اور عبداللہ گل جیسے کٹڑ مسلمان سامنے آئے، انھوں نے عنان اقتدار سنبھالی اور آج دس سال بعد یہ ملک نہ صرف دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت ہے بلکہ یہ دنیا کے پرامن ترین، تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک اور دنیا کی پانچویں بڑی سیاحتی منزل بن چکا ہے، استنبول شہر میں ہر مہینے دس سے بارہ لاکھ لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں اور اگر ان میں سے ہر شخص صرف ایک ہزار ڈالر خرچ کرے تو آپ اس ہزار ڈالر کو بارہ لاکھ سے ضرب دے کر اس شہر کی معیشت کا اندازہ لگا لیجیے۔
یہ شہر اسلام اور لبرل ازم دونوں کا خوبصورت ملاپ ہے، اس شہر میں دنیا کی شاندار ترین مساجد ہیں، یہ مسلمان بادشاہوں نے بنوائی تھیں اور یہ شکوہ، وسعت اور خوبصورتی میں آیا صوفیہ سے زیادہ شاندار ہیں، ان مساجد سے اذان کی صدا اٹھتی ہے تو اللہ اکبر کی آواز خوشبو کی طرح باسفورس کی ٹھنڈی ہوائوں میں گھل کر پورے شہر کو معطر کر دیتی ہے لیکن ساتھ ہی خواتین جینز، شارٹس اور اسکرٹس میں پورے شہر میں آزاد پھرتی ہیں اور کسی کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی، شہر میں ہر دوسری عورت نے سر پر اسکارف لے رکھا ہے اور یہ جینز پر لمبی شرٹ پہن کر پھر رہی ہے اور ہر پہلی عورت مکمل مغربی لباس میں ملبوس ہے لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں، میں نے ان عورتوں کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر دعا کرتے بھی دیکھا اور مساجد میں نماز پڑھتے بھی اور اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں تھا، کیوں نہیں تھا؟ میں حیران ہوں۔
(جاری ہے)