مصری شہری کے چہرے پر وحشت بھی تھی اور نفرت بھی، اس کے ایک ہاتھ میں جوتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں پلے کارڈ، جوتا ہلیری کی تصویر پر عین اس کے چہرے پر تھا جب کہ پلے کارڈ اس نے اپنی چھاتی سے لگا رکھا تھا، میں نے پلے کارڈ کی تحریر پڑھی تو میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا، یہ چیختی دھاڑتی تصویر بین الاقوامی وائر سروس اے ایف پی نے جاری کی، یہ 14 جولائی 2012ء کو ہلیری کلنٹن کے مصر کے دورے کے دوران عوامی احتجاج کی ایک تصویر تھی، مجھے ہلیری کلنٹن، مصری نوجوان اور اس کے ہاتھ میں پکڑے جوتے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، میری بلا سے پورا مصر سارا دن ہلیری کلنٹن کے خلاف نعرے لگاتا رہے یا اس کے پوسٹر پر جوتے برساتا رہے لیکن جہاں تک اس پلے کارڈ اور اس پلے کارڈ کی عبارت کا تعلق ہے مجھے اس سے بہت " کنسرن" تھا کیونکہ یہ ہماری ٹھیک ٹھاک تذلیل ہے۔
پلے کارڈ تھا اور پلے کارڈ پر لکھا تھا " میسج ٹو ہلیری، ایجپٹ ول نیور بی پاکستان" (ہلیری کے لیے پیغام، مصر کبھی پاکستان نہیں بنے گا"۔ مجھے یہ عبارت پڑھ کر محسوس ہوا مصری شہری نے اپنا جوتا ہلیری کلنٹن کے منہ پر نہیں رکھا بلکہ یہ جوتا ہم سب کے منہ پر دھرا ہے اور اس کے تلوے سے لگا گند ہمارے منہ میں جا رہا ہے۔ یہ جوتا ثابت کر رہا ہے ہم ذلت کی اس آخری حد سے بھی نیچے جا چکے ہیں جہاں اس مصر کے شہری بھی ہمیں جوتے مار رہے ہیں جو کبھی پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کا قبلہ سمجھتا تھا۔
مجھے یقین ہے اگر ساٹھ کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل کا کوئی شخص یہ تصویر دیکھ لے تو اسے یقین نہیں آئے گا یہ وہی پاکستان ہے جسے دنیا تیز ترین ترقی کی مثال کہتی تھی، مجھے آج بھی واشنگٹن کا وہ بوڑھا سفارت کار یاد ہے جس نے صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان میں ذمے داری نبھائی تھی اور اس نے واشنگٹن میں مجھ سے کہا تھا، ہم ساٹھ کی دہائی میں سوچتے تھے 1980 میں لندن، واشنگٹن اور کراچی میں سے کون سا شہر پہلے نمبر پر ہو گا۔
مجھے انڈونیشیا کا وہ وزیر خزانہ بھی یاد ہے جس نے نواز شریف کے دوسرے دور میں جکارتہ کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد سے کہا تھا مجھے پانچ دیہات نے چندہ جمع کر کے میڈیکل کی تعلیم کے لیے پاکستان بھجوایا تھا۔ انڈونیشیا کے لوگ پاکستان کے تعلیمی اداروں کو ایشیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج سمجھتے تھے لیکن آج آپ لوگ مجھ سے مدد لینے جکارتہ آئے مجھے بڑی شرم آرہی ہے، ہم پاکستان کو کبھی اس مقام پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھے مصر کا وہ اسکالر بھی یاد ہے جس نے دس سال قبل اسلام آباد میں کہا تھا ہم لوگ پاکستان کو ہر فیلڈ میں اپنا لیڈر سمجھتے تھے، ہمارا نوجوان پاکستان کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا اعزاز سمجھتا تھا، ہم نے سوان ڈیم بنانے کے لیے پاکستانی انجینئروں کی مدد لی تھی لیکن آج ہم اپنے لیڈر پاکستان کو چھوٹے چھوٹے ملکوں کے قدموں میں جھکا دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت شرم آتی ہے، افسوس آپ کیا تھے اور کیا ہو گئے۔
ہم اگر پاکستان کا سنہری دور تلاش کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا ہم نے ایوب دور میں ریکارڈ ترقی کی، اس دور میں بڑے بڑے ڈیم بنے، ریلوے ٹریک بچھے، لاہور سے خانیوال تک بجلی کی ٹرین چلی، یہ ٹرین کراچی تک جانی تھی اور اس کے بعد اس نے لاہور سے لنڈی کوتل کی طرف جانا تھا، ملک کا نہری نظام وسیع ہوا جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوئی، بجلی شہروں سے دیہات میں پہنچی، گیس ملک کے کونے کونے تک آئی، کراچی شہر میں اس دور میں زیر زمین ٹرین کے لیے کھدائی ہو چکی تھی، سڑکیں وسیع ہوئیں، ملک کے آخری کونے تک سڑک پہنچی، چیئر لفٹس لگیں، پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائن بنی، ہماری انڈسٹری پانچویں گیئر میں چلی گئی، ہماری بندر گاہ سے روزانہ سیکڑوں بحری جہاز میڈ ان پاکستان لے کر دوسرے ملکوں میں جانے لگے، پاکستان نے ٹریکٹر بنانا شروع کر دیے، ہمارے تعلیمی ادارے ایشیا کی بہترین درس گاہ بن گئے،
ہم دنیا کو ہر سال سیکڑوں ڈاکٹر اور انجینئر دینے لگے، پاکستان کی عزت اور شہرت کا یہ عالم تھا جرمنی کو پانچ لاکھ ورکرز کی ضرورت تھی، جرمن حکومت نے پاکستان سے درخواست کی، جرمن حکومت پاکستانی شہریوں کو شہریت اور دوہری تنخواہ دینے کے لیے تیار تھی، جرمنی ان شہریوں کی صحت، تعلیم اور انشورنس کی ذمے داری بھی اٹھانے کے لیے تیار تھا لیکن ہماری حکومت نے انکار کر دیا، حکومت کا کہنا تھا ہم اپنے ورکرز کسی دوسرے ملک کو نہیں بیچیں گے، جرمنی نے ہمارے انکار کے بعد ترکی سے رابطہ کیا اور ترکی نے ہم سے کم پیکیج پر اپنے پانچ لاکھ ورکررز جرمنی بھجوا دیے، یہ پانچ لاکھ ترک آج 50 لاکھ ہو چکے ہیں اور یہ جرمنی میں جرمنوں کے بعد دوسری بڑی آبادی ہیں۔ ہماری فارن پالیسی کا یہ عالم تھا صدر ایوب خان جولائی 1961ء کو امریکا کے دورے پر گئے تو صدر کینیڈی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ایوب خان کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر موجود تھے،
صدر ایوب خان کو ائیر پورٹ سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس تک پروٹوکول دیا گیا، امریکی شہری سڑک کے دونوں کناروں پر پھول لے کر کھڑے تھے اور یہ سارا راستہ صدر ایوب پر پھول برساتے رہے، ایوب خان کے دور میں عرب امارات کے حکمران خلیفہ النہیان پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کا استقبال راولپنڈی کے ڈی سی نے کیا اور صدر ایوب خان نے انھیں ملاقات تک کا وقت نہ دیا، ایوب خان کے دور میں پاکستان میں ٹیلی ویژن بھی آیا، نیو کلیئر پروگرام بھی شروع ہوا،
فیملی پلاننگ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، سیاحت کی وزارت بھی بنی اور چین کے ساتھ ہمارے رابطے بھی مضبوط ہوئے، غرض ہم اگر پاکستان کی تاریخ سے ایوب خان کا دور نکال دیں تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا، ذوالفقار علی بھٹو بلا شبہ پاکستان کے بہت بڑے لیڈر تھے لیکن انھوں نے پاکستان کے معاشی پہیے کو چالیس اور پچاس کی دہائی میں واپس دھکیل دیا تھا، یہ مزدور کی زبان کو آواز دینے میں کامیاب ہوگئے لیکن انھوں نے وہ فیکٹریاں بند کروا دیں جہاں سے مزدور کی زبان کو رزق کا ذائقہ ملتا تھا، پاکستان کی آنے والی حکومتوں نے بدقسمتی سے ترقی کایہ سلسلہ آگے بڑھانے کے بجائے اس ملک کو برباد کر دیا۔
ہم اگر 1968ء سے 2012ء تک پاکستان کے 44 سالہ دور کا جائزہ لیں تو ہمیں ایوب خان کے بعد کراچی کی اسٹیل مل اور موٹروے کے علاوہ کوئی بڑا منصوبہ نظر نہیں آتا، کراچی کی اسٹیل مل کی آج کیا حالت ہے یہ پوری دنیا جانتی ہے اور ہم نے اگر موٹر وے پر بھی توجہ نہ دی تو یہ بھی اگلے پانچ سالوں میں جی ٹی روڈ بن جائے گی، ڈیمز مٹی سے بھرچکے ہیں اور ٹربائینز بجلی پیدا کرنے کے بجائے شعلے اگل رہی ہیں، بجلی سے چلنے والی ٹرین بند ہو چکی ہے اور لوگ اس کی اربوں روپے کے تار تک لے گئے ہیں، ریلوے اور پی آئی اے کی حالت پوری دنیا کے سامنے ہے اور رہ گئے ہمارے تعلیمی ادارے تو یہ ڈگریاں چھاپنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کر رہے۔ ہمارے ایم اے پاس نوجوان کی استطاعت یورپ کے پرائمری پاس بچے کے برابر ہوتی ہے، یہ ڈی جنریشن کیوں ہے؟ ہم آسمان سے زمین کی تہوں کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں،
اس کی بڑی وجہ ہماری لیڈر شپ ہے، ہم حساس ترین عہدوں پر نااہل ترین شخص کو بٹھا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہوا میں ڈولتے جہاز کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، ہمیں ماننا پڑے گا پاکستان میں ایوب خان سے پرویز مشرف تک آمریت کے ادوارمعاشی لحاظ سے بہت اچھے تھے، ملک نے ان ہی ادوار میں ترقی کی، ہمیں ٹھنڈے دل سے ان وجوہات کا جائزہ لینا ہو گا اور اس کے بعد ان کی خوبیوں کو سیاسی کلچر کا حصہ بنانا ہو گا مثلاً ہمارے آمر بہترین لوگوں کی ٹیم بناتے تھے، صدر ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی ٹیم بہت اچھی تھی جب کہ ان کے مقابلے میں ہماری سیاسی جماعتوں میں اہلیت اور ٹیلنٹ دونوں کی کمی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی وزارتی ٹیم کو ملک ساڑھے چار سال سے بھگت رہا ہے،
اس میں ایسے ایسے شاندار وزیر بھی شامل ہیں جو کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کی حالت اس سے بھی پتلی ہے، 2008ء میں پیپلز پارٹی نے انھیں پندرہ وزارتیں دی تھیں، ن لیگ کو پوری پارٹی سے پندرہ وزیر نہیں ملے تھے، یہ بمشکل سات وزیر لا سکے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ نے درجن بھر وزارتیں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں، کیوں؟ کیونکہ ن لیگ کے پاس وزارتی اہلیت کے ایم پی اے ہی نہیں ہیں، ان کے سب سے بڑے وزیر رانا ثناء اللہ ہیں، آپ ان کی بین الاقوامی اہلیت سے پوری طرح واقف ہیں، یہ ن لیگ کے ڈاکٹر مہاتیر محمد ہیں۔
یہی صورتحال دوسری جماعتوں کی ہے، یہ بھی ایسے جاہلوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہیں جن کے پاس بیس تیس ہزار ووٹ ہوں اور یہ باقی کمی دھاندلی سے پوری کر سکتے ہوں اور یہ کامیاب امیدوار کامیابی کے بعد کیا کرتے ہیں، یہ اٹھارہ گھنٹے اپنی اس قیادت کی تعریف کرتے ہیں جو معیشت کی م تک سے واقف نہیں اور جس کی تقریروں کا نوے فیصد حصہ ماضی کے کارناموں اور آمروں کے شب خون کے نوحوں پر مشتمل ہوتا ہے چنانچہ آج ملک اس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں مصر کے شہری ہلیری کلنٹن کے پوسٹروں کو جوتے مارتے ہوئے کہہ رہے ہیں ہم تمہیں ایک پیغام دینا چاہتے ہیں مصر کبھی پاکستان ثابت نہیں ہوگا۔ مجھے اس جوتے اور اس پیغام کا افسوس نہیں، مجھے افسوس اس بات کا ہے ہم جوتے کھانے کے باوجود آنکھ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم گدھوں کی طرح ان جوتوں کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے ہیں، ہم درگت بننے پر بھی خوش ہیں۔