سلیمان شہباز وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے چھوٹے صاحبزادے ہیں، یہ شہباز شریف فیملی کا بزنس چلارہے ہیں، یہ زیرک بزنس مین ہیں اور ان کے دور میں خاندان کے بزنس میں اضافہ ہوا، اس اضافے کی وجہ علم اور محنت ہے، یہ بزنس اور مینجمنٹ کی نئی نئی تکنیکس سیکھتے رہتے ہیں، یہ کبھی ہاورڈ یونیورسٹی کے بزنس اسکول چلے جاتے ہیں، کبھی آکسفورڈ اور کیمبرج کے بزنس اسکولز میں شارٹ کورس کرتے ہیں اور کبھی جرمنی کے بڑے تعلیمی اداروں میں ایک دو ہفتوں کے لیے داخلہ لے لیتے ہیں، یہ بزنس، مینجمنٹ کے عالمی فورمز کے ممبر بھی ہیں اور یہ ان فورمز کے ذریعے بھی کاروباری دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں،
آج سے چند برس قبل سلیمان شہباز کو محسوس ہوا میرے پاس دنیا جہاں کا جدید علم ہے، میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور تحقیق سے فائدہ اٹھا رہا ہوں لیکن میری ٹیم بہت پیچھے ہے، یہ تیس چالیس سال پرانے علم کے ذریعے کام چلا رہے ہیں، یہ ملک سے کبھی باہر گئے اور نہ ہی انھوں نے کبھی بزنس اور مینجمنٹ کا تازہ ترین علم سیکھا چنانچہ میں خواہ کتنا بھی سیکھ لوں یا پڑھ لوں میں ان سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکوں گا، سلیمان شہباز نے اس کے بعد دو تجربے کیے،
انھوں نے " لمز" سے خصوصی کورسز تیار کرائے، اپنے تمام اہم ملازمین کو لے کر " لمز" گئے اور ان سب کو بزنس مینجمنٹ کا مختصر کورس کروایا۔ دوسرا سلیمان شہباز نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا، یہ ہر سال دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لینے والے نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں، یہ دونوں تجربات کامیاب ہوئے اور میاں شہباز شریف اور میاں سلیمان شہباز کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا، سلیمان شہباز آج بھی اپنے ملازمین کو اندرون ملک اور بیرون ملک شارٹ کورسز کراتے ہیں، یہ خود بھی کورسز کرتے ہیں، یہ اپنی فیکٹریوں کے لیے جدید ترین مشینیں اور کمپیوٹر سسٹم بھی خریدتے ہیں اور یہ دنیا بھر میں ہونے والے ٹیکنالوجی میلوں میں بھی شریک ہوتے ہیں، یہ ایکسپرٹس سے بھی ملتے ہیں اور کاروبار کے لیے ٹیکنیکل ایڈوائزر کی مدد بھی لیتے ہیں۔
یہ کامیاب اور شاندار کاروباری اپروچ ہے اور میاں سلیمان شہباز اگر آج یہ اپروچ چھوڑ دیں، یہ نئے نئے کورسز نہ کریں، یہ اپنے ملازمین اور ساتھیوں کی صلاحیت میں اضافے پر توجہ نہ دیں، یہ نئی مشینوں اور نئی ٹیکنالوجی نہ خریدیں، یہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جاب نہ دیں اور یہ کاروبار کی دنیا میں ہونے والی نئی ریسرچ کا مطالعہ نہ کریں تو مجھے یقین ہے سلیمان شہباز اور میاں شہباز شریف کا کاروبار انحطاط کا شکار ہو جائے گا،
ملازمین کا جذبہ ماند پڑ جائے گا، مشینیں خراب ہونے لگیں گی، پیداوار کم ہو جائے گی، کوالٹی گر جائے گی اور اس کے بعد ایک ایسا وقت آ جائے گا جب میاں صاحب کا کاروبار بند ہو جائے گا یا پھر انھیں بند کرنا پڑے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے میاں سلیمان شہباز شریف واقف ہیں لیکن ان کے بزرگوں میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف نے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا، یہ ابھی تک پارٹی کو پرانے خطوط پر چلا رہے ہیں، یہ ماننے کے لیے تیار نہیں دنیا میں پچھلے دس برسوں میں بے انتہا تبدیلی آگئی ہے، دنیا میں علم، ٹیکنالوجی، سوچ اور سیاست پوری طرح تبدیل ہو چکی ہے،
سن 2000ء تک ایک دنیا تھی اور 2000ء کے بعد اب دوسری دنیا ہے اور یہ حقیقت ہے 2000ء کی دنیا کے لوگ 2012ء میں اس وقت تک نہیں چل سکیں گے جب تک یہ جدید ترین علم، ٹیکنالوجی، میڈیا اور جدید عالمی سیاست کو نہیں سمجھیں گے، دنیا آئی پیڈ اور آئی فون کے بعد ٹچ اسکرین پر شفٹ ہو چکی ہے، ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پوری سائنس بن چکی ہے، میڈیا بوتل کا وہ جن ہے جو باہر آنے کے بعد کبھی بوتل میں واپس نہیں جائے گا اور ایمانداری اور اہلیت سیاست کے دو ایسے مرکزی ستون بن چکے ہیں جن کے بغیر اب سیاست ممکن نہیں رہی لیکن سوال یہ ہے، کیا میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن ان تبدیلیوں کو محسوس کر رہی ہے؟
کیا اس نے اپنی سیاسی فیکٹری کے ملازمین، سپروائزرز، شفٹ انچارج، اکائونٹنٹس اور جی ایمز کی جدید ترین ٹریننگ اور تربیت کا بندوبست کیا؟ کیا میاں برادران نے اپنی استطاعت بڑھانے کا انتظام کیا، کیاپاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے ایم پی اے، ایم این اے اور اپنے کارکنوں کو شارٹ کورسز کروائے، کیا انھوں نے اپنی پارٹی میں نئے اور اہل لوگ شامل کیے اور کیا انھوں نے ملک کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی ٹیم بنائی اور کیا اس ٹیم کو جدید ٹریننگ دلائی؟ اس کا جواب بدقسمتی سے ناں ہے اور عوام کو 1999ء کے میاں نواز شریف اور 2012ء کے میاں نواز شریف میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا، یوں محسوس ہوتا ہے میاں نواز شریف نے سیکھنے کے 13 قیمتی سال ضایع کر دیے ہیں اور یہ آج بھی سیاست کے دھاگے کو اسی جگہ سے گرہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں سے یہ 1999ء میں ٹوٹا تھا، یہ آج بھی بیان بازی اور الزام بازی کی سیاست کر رہے ہیں،
یہ آج بھی اپنے پرانے حواریوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ حواری میاں صاحب کا موڈ دیکھ کر اذان کا وقت طے کرتے ہیں، میاں صاحب کو گرمی لگ رہی ہو تو ان میں سے ہر شخص اپنی قمیض کے دامن کو پنکھا بنا لیتا ہے اور میاں صاحب اے سی بند کرنے کا اشارہ کر دیں تو یہ تھیلے سے سویٹر نکال لیتے ہیں، میاں صاحب اشارہ کر دیں تو چوہدری نثار علی اور خواجہ آصف جیسا انتہائی سمجھ دار شخص سرفروش بن جاتا ہے اور بدنامی کے جوہڑ میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔
میاں صاحب آج بھی سیدھی تنقید پسند نہیں کرتے، یہ آج بھی میڈیا کو دوست اور دشمن صحافیوں میں تقسیم کرتے ہیں، میاں صاحب کی پوری پارٹی میں وزیر کے معیار کے سات لوگ نہیں ہیں اور جو ہیں انھوں نے بھی پچھلے پندرہ برسوں میں کوئی کورس نہیں کیا، یہ بھی ٹچ اسکرین سے دور 2000ء سے پہلے کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، پوری پارٹی میں دو لوگوں کے سوا کوئی شخص کتاب نہیں پڑھتا، ن لیگ کے زیادہ تر رہنمائوں کا اخبارات کا مطالعہ کلپنگ اور سمری تک محدودہے اور یہ سمری اور کلپنگ بھی ان کے اپنے بیانات سے متعلق ہوتی ہے، میاں نواز شریف سمیت پارٹی کا کوئی شخص نوبل پرائز یافتہ لوگوں سے نہیں ملا،
یہ آج تک دنیا میں کمال کرنے والے لوگوں سے نہیں ملے اور ان میں سے کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا میں نے پورا پاکستان عام شہری کی حیثیت سے پھرا ہے، ان میں سے کسی شخص نے پچھلے پندرہ برسوں میں عام شہری کی حیثیت سے ٹرین بس میں سفر نہیں کیا، یہ کسی شہر کے اندر پیدل نہیں پھرے، یہ عام شخص کی حیثیت سے کسی گائوں میں نہیں رہے، یہ عام شہری کی حیثیت سے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں بھی نہیں گئے اور انھوں نے چھوٹے ہوٹلوں میں رہ کر ان ممالک کی ترقی کا مشاہدہ بھی نہیں کیااور پوری پارٹی میں کوئی بھی شخص پی ایچ ڈی اورپروفیسر نہیں،
پارٹی کے کسی دفتر میں لائبریری نہیں اور پارٹی کے لیے کبھی کسی لیکچر کا بندوبست نہیں کیا گیا، پارٹی قائدین کی گفتگو موٹروے اور ایٹمی دھماکوں سے شروع ہوتی ہے، ذرا دیر کے لیے بارہ اکتوبر کے شب خون پر رکتی ہے، جلاوطنی تک جاتی ہے اور اس کے بعد چارٹرآف ڈیموکریسی، مری ڈکلیریشن اور این آر او کے ماتم پر آ کر ختم ہو جاتی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن نے آج تک ملک کے کسی بڑے مسئلے اور اس کے حل کے لیے کوئی پیپر شایع نہیں کیا، کوئی فورم نہیں بنایا، پارٹی کی کارکردگی چھ قسم کے بیانات کو بارہ لاکھ مرتبہ دہرا دینا ہے یا پھر میاں شہباز شریف کی پنجاب میں شبانہ روز محنت ہے، یہ حقیقت ہے میاں شہباز شریف نے پنجاب کے بڑے شہروں کی حالت بدل دی اور پنجاب انفرااسٹرکچر اور امن و امان میں دوسرے صوبوں سے بہت آگے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے یہ کارکردگی صرف ایک شخص کے گرد گھومتی ہے،
آپ آج میاں شہباز شریف کو ہٹا دیں کل لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی اور ملتان پرانی پوزیشن پر واپس آ جائیں گے، آپ کو پوری پارٹی میں میاں شہباز شریف کی " ری پلیسمنٹ" نہیں ملے گی چنانچہ اگر آج مسلم لیگ ن کی حکومت آ جائے تو مجھے خطرہ ہے یہ چھ ماہ میں اس پوزیشن پر آ جائے گی جس پر آج پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور میاں نواز شریف بھی عدلیہ اور میڈیا سے الجھ رہے ہوں گے چنانچہ میری ن لیگ سے درخواست ہے آپ پارٹی کو بے شک ری پبلکن، ڈیموکریٹک پارٹی، لیبر پارٹی، کنزرویٹو پارٹی یا جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نہ بنائیں لیکن آپ کم از کم اسے اتفاق گروپ کی اسپرٹ سے تو چلا لیں، آپ سلیمان شہباز کی طرح لوگوں کی اہلیت میں اضافہ کریں کیونکہ اہلیت کے بغیر آج کے دور میں ایک فیکٹری یا کمپنی چلانا مشکل ہوتا ہے اور آپ پورا ملک چلانا چاہتے ہیں،
یہ کیسے ممکن ہو گا اور اگر آج نعروں اور خوابوں سے لوگوں کو بہلایا جا سکتا یا ترقی کی جا سکتی تو پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں کبھی نامقبول نہ ہوتی کیونکہ جتنے اچھے اور اعلیٰ پائے کے نعرے پیپلز پارٹی کے پاس ہیں اتنے کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں چنانچہ اگر پیپلز پارٹی نعروں کے ذریعے تبدیلی نہیں لا سکی تو میاں صاحب کیا تبدیلی لائیں گے لہٰذا آپ سلیمان شہباز کے تجربے ہی سے سیکھ لیں!