Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Orlando Hasil e Safar

Orlando Hasil e Safar

آرلینڈو میں ڈزنی ورلڈ کے علاوہ دو بڑی کمپنیاں ہیں، سی ورلڈ کے تین پارک ہیں، ایک پارک آبی حیات اور رولر کوسٹرز پر مشتمل ہے، ا س پارک میں بڑے بڑے ایکیورم ہیں، ان ایکیورمز میں مختلف قسم کی ہزاروں بلکہ لاکھوں مچھلیاں ہیں، اس میں شارک، ڈولفن اور شمو مچھلیوں کے لائیو شو بھی ہوتے ہیں، پانی کے بڑے بڑے تالابوں کے سامنے اسٹیڈیم بنے ہیں، اسٹیڈیمز میں پچاس ساٹھ ہزار لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور سامنے تالاب اور تالاب کے اسٹیج پر ڈولفن اور شارک مچھلیوں کے شو ہوتے ہیں۔

ڈولفن مچھلیاں ٹرینرز کو اپنے اوپر بٹھا کر تالاب کا چکر لگاتی ہیں، پانی سے دس دس فٹ اوپر اچھل کر دکھاتی ہیں، تماشائی تالیاں بجاتے ہیں تو یہ ان کی طرف اپنے گلپھڑے ہلاتی ہیں، شارک مچھلیوں کا شو بھی حیران کن اور قابل ستائش ہے، اس پارک میں پینگوئن کا غار بھی ہے، اس غار کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا ہے، پینگوئن قدرتی ماحول اور درجہ حرارت میں انجوائے کرتے ہیں، سی ورلڈ کا دوسرا پارک بش گارڈن کہلاتا ہے، یہ جنگل سفاری ہے، یہ آرلینڈو کے مضافات میں ہے۔

آپ کو ایک گھنٹہ ڈرائیو کر کے یہاں پہنچنا پڑتا ہے، بش گارڈن گھنا جنگل ہے جس میں خطرناک جانور قدرتی ماحول میں رہتے ہیں، جنگل میں سفاری ٹرین چلتی ہے جس میں سوار ہو کر لوگ جانوروں کو قدرتی ماحول میں دیکھتے ہیں، ان کا تیسرا پارک "واٹر پارک" ہے، اس میں پانی کے کھیل، جھولے اور رائیڈز ہیں، سی ورلڈ میں آپ شارک مچھلیوں کے ساتھ گہرے پانی میں تیر بھی سکتے ہیں مگراس کے لیے آپ کو دو مہینے قبل وقت لینا پڑتا ہے، سی ورلڈ بھی ایک حیرت کدہ ہے اور آپ جب تک کھلی آنکھوں سے یہ حیرت کدہ نہیں دیکھتے آپ کو اس کا یقین نہیں آئے گا۔

آرلینڈو کی تیسری بڑی کمپنی یونیورسل اسٹوڈیوز ہے، یونیورسل اسٹوڈیوز فلم سازی کی ایک بڑی کمپنی ہے، یہ کمپنی اب تک ہزاروں فلمیں بنا چکی ہے، یونیورسل اسٹوڈیوز نے بھی آرلینڈو میں دو پارک بنا رکھے ہیں، پہلا پارک ایڈونچر لینڈ کہلاتا ہے اور دوسرا یونیورسل اسٹوڈیوز، یونیورسل اسٹوڈیوز میں بیس کے قریب تھری ڈی اور فور ڈی اسٹوڈیوز ہیں جن میں جدید سائنسی بصری شو چلتے ہیں اور ہر شو انسان کے دماغ کی نسوں میں اتر جاتا ہے اور آپ اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں جب کہ ایڈونچر لینڈ میں رولرکوسٹرز اور رائیڈز ہیں، یہ انتہائی تیز اور پریشان کن رائیڈز ہیں، ان رائیڈز کے دوران آپ کا دماغ سن ہو کر رہ جاتا ہے، میں جھولوں سے ڈرتا ہوں لیکن میں نے اس کے باوجود یونیورسل اسٹوڈیوز، سی ورلڈ اور ڈزنی ورلڈ کی تمام رائیڈز اور رولر کوسٹرز سے بھرپور "فائدہ" اٹھایا، اس کی وجہ وہ اناؤنس منٹ بنی جو گھمبیر آواز میں ہر رائیڈ کے دروازے پر کی جاتی تھی، کسی بوڑھے امریکی کی آواز میں تماشائیوں کو بتایا جاتا تھا " آپ اگر کمزور دل کے مالک ہیں، آپ کو اگر جھولوں کے دوران چکر آتے ہیں، آپ دل کے مریض ہیں، بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں یا پھر آپ تازہ تازہ سرجری کے عمل سے گزرے ہیں تو آپ اس رائیڈ سے پرہیز کریں کیونکہ اس سے آپ کے مرض میں اضافہ ہو سکتا ہے" وغیرہ وغیرہ

میں نے جب پہلی بار یہ اناؤنس منٹ سنی تو مجھے خیال آیا آج سے دس پندرہ سال بعد میں بھی عمر کے اس حصے میں داخل ہو جاؤں گا جس میں یہ امراض عام ہوتے ہیں اور میں اگر اس وقت چاہوں بھی تو میں شاید یہ ایڈونچر نہ کر سکوں چنانچہ یہ "عیاشی" آج ہو سکتی ہے، میں یہ سوچ کر میدان میں کود گیا اور میں نے اپنے بچوں کا بھرپور ساتھ دیا یہاں تک کہ میں ہر رائیڈ پراپنے بچوں سے پہلے پہنچ جاتا تھا، یہ میری زندگی کا دلچسپ ترین تجربہ تھا، ایک ایسا تجربہ جس میں آپ بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے ہیں، جس میں آپ تمام فکریں، تمام اندیشے اور تمام خوف "ڈسٹ بن" میں پھینک دیتے ہیں اور جس میں آپ کی زندگی سے گزرا ہو کل اورآنے والا کل دونوں خارج ہو جاتے ہیں اور آپ صرف اور صرف آج میں زندہ رہتے ہیں، صرف آج میں اور میں نے آرلینڈو میں آج کا فارمولہ سیکھ لیا، میں جان گیا جس شخص کا آج اچھا نہیں ہوتا اس کا گزرا ہوا کل بھی خراب ہوتا ہے اور آنے والے کل کے اچھے ہونے کے تو سرے سے امکانات ہی نہیں ہیں۔

آپ اگر آرلینڈو کو فضا سے دیکھیں تو یہ جھیلوں اور جنگلوں کا خوبصورت امتزاج دکھائی دیتا ہے، ہم لوگ جمعرات کی صبح آلینڈو سے سوئٹزرلینڈ کے لیے نکلے، زیورچ ہماری اگلی منزل ہے، ہم زیورچ سے لوگان چلے جائیں گے، یہ اٹلی کے بارڈر پر خوبصورت سوئس شہر ہے، اس کی جھیل انتہائی خوبصورت اور پرسکون ہے، میں آج سے چھ سال قبل اس شہر سے گزرا تھا، مجھے اس کی جھیل پر آدھ گھنٹہ رکنے کا موقع ملا، میں نے اس وقت فیصلہ کیا اگر اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو میں فیملی کو اس جگہ لے کر آؤں گا اور ہم چند دن اس جگہ پر گزاریں گے، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور بے شمار دوسری خواہشوں کی طرح یہ خواہش بھی پوری ہو گئی، ہم لوگانو کی طرف روانہ ہو گئے۔

آرلینڈو سے جہاز اڑا اور ہم نے کھڑکیوں سے نیچے جھانک کر دیکھا تو نیچے انتہائی دل فریب نظارہ تھا، دور دور تک چھوٹی بڑی جھیلیں بکھری ہوئی تھیں، ان جھیلوں کے گرداگرد ہزاروں ایکڑ طویل جنگل تھے اور ان جنگلوں کے درمیان کہیں کہیں آبادیاں تھیں، یہ آبادیاں آرلینڈو شہر تھا، امریکی آباد ہونا اور اپنی آبادی کو خوبصورت بنانا جانتے ہیں، یہ سبزے کے درمیان چھوٹے چھوٹے محلے آباد کرتے ہیں، ان محلوں میں دنیا جہاں کی سہولتیں ہوتی ہیں، یہ محلے جب ایک خاص حد کو چھونے لگتے ہیں تو یہ نئی آبادی آباد کر لیتے ہیں چنانچہ آپ اگر نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس سے باہر نکل جائیں تو آپ کو امریکا کا ہر شہر کھلا اور پھیلا ہوا ملتا ہے اور آپ کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے میں آدھ گھنٹہ لگ جاتا ہے، ان کے زیادہ تر شہرڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو گھنٹے کی ڈرائیو جتنے طویل ہوتے ہیں، آرلینڈو بھی ایک ایسا ہی شہر ہے، مجھے اس شہر میں تین باتیں مختلف نظر آئیں، ہو سکتا ہے امریکا کی دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہوتا ہو لیکن یہ میرے لیے نئی باتیں تھیں۔

میں نے شہر میں سرخ رنگ کی بسیں دیکھیں، معلوم کرنے پر پتہ چلا یہ بلڈ بسیں ہیں، ان بسوں کے اندر بیڈز لگے ہیں، یہ مختلف سڑکوں، مارکیٹوں اور محلوں میں کھڑی ہو جاتی ہیں، یہ لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کی ترغیب دیتی ہیں، لوگ گزرتے گزرتے بس کے قریب رک جاتے ہیں اور بس کا عملہ انھیں بس میں لٹا کر ان سے ایک یا دو بوتل خون کا عطیہ لے لیتا ہے، بس میں خون کو اسٹور کرنے کا بھرپور انتظام موجود ہوتا ہے، یہ بسیں بعد ازاں یہ خون اسپتالوں کو پہنچا دیتی ہیں۔

دوسری بات مجھے اسپتالوں کے نام، وارڈز کے نام اور کمرے مختلف لوگوں سے منسوب ملے، پتہ چلا پرائیویٹ لوگ اسپتالوں کو ڈونیشن دے کر یہاں اپنے نام کی تختی لگوا سکتے ہیں، لوگ اسپتالوں میں اپنے نام کی وارڈز اور کمرے بھی بنوا سکتے ہیں اور پوری زندگی ان کمروں کا معاشی بوجھ بھی اٹھا سکتے ہیں، تیسری بات اسکولوں کی عمارتیں، کھیل کے میدان اور کلاس رومز بھی لوگوں سے منسوب تھے، پتہ چلا یہ رومز، کھیل کے میدان اور عمارتیں بھی پرائیویٹ لوگوں نے بنوائی تھیں، یہ تینوں اچھی روایات ہیں، ہم بھی پاکستان میں یہ روایات شروع کر سکتے ہیں، ہم مخیرحضرات کی حوصلہ افزائی کریں اور یہ لوگ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی ذمے داری اٹھا لیں، ہم اس کے بدلے یہ اسپتال اور اسکول یا ان کا کوئی ایک شعبہ ان کے نام منسوب کر سکتے ہیں، اس سے ان کا نام بھی زندہ رہے گا اور عام اور غریب لوگوں کا بھلا بھی ہو جائے گا اور یہ آرلینڈو کا تفریح سے زیادہ بڑا حاصل تھا، حاصل سفر۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran