عبداللہ یوسف پاکستان کے باصلاحیت ترین افسروں میں شمار ہوتے ہیں، یہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے لیکن حادثاتی طور پر سول سروس میں آ گئے اور مختلف محکموں اور وزارتوں سے ہوتے ہوئے 22ویں گریڈ تک پہنچ گئے، جنرل پرویز مشرف نے انھیں 14جون 2006ء کو ایف بی آر کا چیئرمین لگا دیا، عبداللہ یوسف نے اس عہدے پر کمال کر دیا،
ایف بی آر ان سے قبل ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مد میں سالانہ 360 ارب روپے جمع کرتا تھا عبداللہ یوسف نے یہ آمدن ہزار ارب روپے تک پہنچا دی، یہ بہت بڑی کامیابی تھی، اس کامیابی کے لیے عبداللہ یوسف نے چند اقدامات کیے، انھوں نے سرمایہ کاری کے راستے کی رکاوٹیں ختم کر دیں، ملک میں سرمایہ کاری ہوئی، پیداوار میں اضافہ ہوا اور اس سے ٹیکس کولیکشن بڑھی، کسٹم کا نظام کمپیوٹرائزڈ کر دیا جس سے کسٹم کی لیکیج ختم ہوگئی اور انکم ٹیکس ریفارمز کیں، انکم ٹیکس آفیسر (آئی ٹی او) کا رول ختم کر دیا،
انکم ٹیکس دینے والوں کو خود اپنا امین بنا دیا، انھیں اجازت دے دی وہ اپنی ریٹرن خود تیار کریں گے، جمع کرائیں گے اور اس کو حتمی سمجھا جائے گا، ان اصلاحات کی وجہ سے ٹیکس پیئرز، سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا اعتماد بڑھا، ٹیکس، ڈیوٹیز اور کسٹم میں اضافہ ہوا اور ملکی خزانے پر اس کے خوشگوار اثرات دکھائی دینے لگا، یوں عبداللہ یوسف ایف بی آر کی تاریخ کے کامیاب ترین چیئرمینوں میں شمار ہونے لگے، عبداللہ یوسف واقعی ایک شاندار، باصلاحیت اور محب وطن پاکستانی ہیں، یہ 23 جولائی 2008ء کو ریٹائر ہو گئے،
یہ آج کل بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ اداروں (آئی پی پیز) کی ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین ہیں۔
مجھے فوزیہ وہاب نے عبداللہ یوسف سے متعارف کرایا تھا، فوزیہ وہاب نے ایک دن پروگرام کے وقفے میں عبداللہ یوسف کی بے انتہا تعریف کی، ان کا کہنا تھا، میرا بس چلے تو میں عبداللہ یوسف کو دوبارہ ایف بی آر کا چیئرمین بنوا دوں، میں نے کہا "بنوا دیں، کیا مشکل ہے" وہ بولیں "ہمارے لوگوں کا خیال ہے اس سے ہمارا پبلک امیج خراب ہو گا" مجھے چند دن بعد عبداللہ یوسف فلائٹ میں مل گئے، وہ غالباً کراچی جا رہے تھے،
میں ان کی سیٹ پر گیا، ان سے گفتگو شروع ہوئی اور اس کے بعد میرا ان سے رابطہ استوار ہو گیا، عبداللہ یوسف صاحب نے آج سے ساڑھے تین سال پہلے پیش گوئی کی تھی بجلی اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گی، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا "یہ لوگ اس مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھا رہے، یہ فرنس آئل پر ڈی پینڈ کرتے جا رہے ہیں، دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کے ریٹس بڑھ رہے ہیں، ڈالر عنقریب ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائے گا، بجلی کا شارٹ فال بڑھ جائے گا، عوام سڑکوں پر آئیں گے اور حکومت کے لیے انھیں واپس بھجوانا مشکل ہو جائے گا" میں نے اس وقت عبداللہ یوسف سے اتفاق نہیں کیا تھا
لیکن آج ان کی تمام پیش گوئیاں سچ ثابت ہو رہی ہیں، حکومت نے آئی پی پیز کو 265 ارب روپے ادا کرنے ہیں، آئی پی پیز پی ایس او سے فرنس آئل خریدتے ہیں، آئی پی پیز آج تک پی ایس او سے 232 ارب روپے کا فرنس آئل لے چکے ہیں، یہ رقم ادا نہیں ہوئی، پی ایس او ریفائنریوں اور ڈسٹری بیوشن اداروں کا 180 ارب دبا کر بیٹھی ہے، ریفائنریوں کے پاس پیسے نہیں ہیں چنانچہ ان کی پیداوار آدھی ہو گئی، حکومت بیرون ملک سے ریفائن پٹرولیم مصنوعات خریدنے پر مجبور ہے، یہ پٹرول مہنگا پڑتا ہے لہٰذا قیمت بڑھانا پڑتی ہے اور یوں ملک خرابی کے بھنور میں پھنس چکا ہے۔
بجلی بنانے کا دوسرا بڑا ذریعہ قدرتی گیس ہے، ملک میں روزانہ 1920 ایم ایم سی ایف گیس نکلتی ہے، اس کا ایک چوتھائی حصہ سی این جی میں خرچ ہو جاتا ہے، یہ 500 ایم ایم سی ایف گیس اگر پاور پلانٹس کو دے دی جائے تو اس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن حکومت میں سی این جی اسٹیشنز بند کرنے کی ہمت نہیں، اس کی وجہ پریشر گروپ ہیں، ملک کے 90 فیصد سی این جی اسٹیشن سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کے ہیں، یہ لوگ طاقتور بھی ہیں اور بااثر بھی، یہ اسٹیشن بند نہیں ہونے دے رہے اور پیچھے رہ گئی
ہائیڈرو انرجی پانی سے بجلی کی پیداوار کم ترین سطح پر آ چکی ہے، ہم پانی سے روزانہ صرف چھ ہزار میگاواٹ پیدا کر رہے ہیں، نئے ڈیم بن نہیں رہے اور اگر بن رہے ہیں تو ان کی رفتار بہت سست ہے، سرکاری محکموں اور صوبائی حکومت نے واپڈا کے 350 ارب روپے ادا کرنا ہیں، حکومت اپنے ہی اداروں اور اپنی ہی حکومت سے یہ رقم وصول نہیں کر پا رہی چنانچہ ملک احتجاج اور غصے سے ابل رہا ہے، لوگ چالیس درجے سینٹی گریڈ کے گرم دن اور جسم کے آخری مسام تک حبس میں بھیگی راتوں کے ساتھ کہاں جائیں؟ عوام غصے سے ابل رہے ہیں،
حکومت بے بس ہے اور دنیا ساتویں جوہری طاقت کا تماشا دیکھ رہی ہے، حکومت پرائیویٹ پاور کمپنیوں کو فوری طور پر 265 ارب ادا کر دے تو بھی اسے سسٹم چلانے کے لیے روزانہ ایک ارب روپے چاہئیں، حکومت 265 ارب روپے کہاں سے لائے گی اور اس کے بعد روزانہ ایک ارب کا بندوبست کہاں سے کرے گی، ملک میں کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں! لیکن ہم اس کے باوجود ملک کو اس صورتحال سے نکال سکتے ہیں، ہم منہ تک پانی میں ڈوبے ملک کو سیلاب سے نکال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو قربانی دینا ہو گی، انھیں حقائق تسلیم کر کے بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے۔
پاکستان باصلاحیت لوگوں کا ملک ہے لیکن یہ باصلاحیت لوگ ٹکڑیوں میں تقسیم ہیں، چند لوگ پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیں، چند ن لیگ میں، چند ق لیگ میں اور چند ایم کیو ایم، تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی میں ہیں، ہماری بیوروکریسی میں بھی عبداللہ یوسف جیسے بے شمار لوگ ہیں، ہمارے ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر عطاء الرحمان جیسے لوگ بھی موجود ہیں، ہمارے پاس ڈاکٹر اشفاق حسین، شوکت ترین اور عمر ایوب جیسے معاشی ماہر بھی ہیں اور ہمارے ہزاروں ایسے ڈاکٹر اور انجینئر بھی دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں جنھیں ترقی یافتہ اقوام لاکھوں ڈالر تنخواہ بھی دے رہی ہیں اور سر آنکھوں پر بھی بٹھاتے ہیں،
ہمارے چالیس پچاس لاکھ پاکستانی بیرون ملک آباد ہیں، یہ لوگ سرمایہ کاری کمپنی بنا سکتے ہیں، اس کے شیئرز خرید سکتے ہیں اور یوں ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، ہم ملک میں ایسے آٹھ دس بین الاقوامی شہر بھی بنا سکتے ہیں جو پاکستان کا حصہ ہوں گے لیکن ان میں قوانین بین الاقوامی چلیں، یہ شہر سندھ اور بلوچستان کی کوسٹل لائن پر بھی بن سکتے ہیں اور گلگت سے لے کر ست باڑو تک بھی اور دیوسائی جیسے دنیا کے بلند ترین میدان میں بھی۔ ہم سینٹرل ایشیا، بھارت اور چین کی صنعتوں کے لیے ملک میں چھوٹے پرزوں اور آلات کی سیکڑوں فیکٹریاں بھی لگا سکتے ہیں اور ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں کو تیسری دنیا کے غریب طالب علموں کے لیے آکسفورڈ بھی بنا سکتے ہیں
لیکن یہ تمام کام اس وقت ممکن ہیں جب تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا ٹیلنٹ ایک جگہ پول کر دیں، یہ پاکستان کے باصلاحیت لوگوں کو پاکستان کا اثاثہ سمجھیں، انھیں پارٹی کا غلام نہ جانیں اور ہم میرٹ پر لوگوں کو سیاسی اور انتظامی عہدے دیں، ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کامیابی کی ایک بڑی مثال ہیں، ہم ان سے کام کیوں نہیں لیتے؟ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے پرویز مشرف کے دور میں کمال کر دیا تھا، عبداللہ یوسف بھی ایک مثال ہیں، جماعت اسلامی کے سراج الحق، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر صلاحیت اور کامیابی کی مثالیں ہیں،
ہمارے ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر اور ثمر مبارک مند ہیں اور ان سب سے بڑھ کر اسحاق ڈار ہیں اور ہمایوں اختر اور جہانگیر ترین بھی باصلاحیت اور ایماندار لوگ ہیں، ہم ان سب کی مدد کیوں نہیں لیتے؟ ہماری سیاسی جماعتیں اگر اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم پر اکٹھی بیٹھ سکتی ہیں تو یہ پاکستان بچانے کے لیے ایک جگہ جمع کیوں نہیں ہو سکتیں؟ یہ صرف صلاحیت اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیوں نہیں کر سکتیں؟ میرا خیال ہے ہماری سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک قومی حکومت تشکیل دے دینی چاہیے، یہ حکومت ٹیکنوکریٹس اور ماہرین پر مشتمل ہو،
یہ حکومت پانچ سال کے لیے بنے، اس دوران ملک میں سیاست بازی پر پابندی لگا دی جائے، یہ حکومت ملک کو پٹڑی پر لائے، پاکستان کے مسائل حل کرے، اس دوران اگر حالات کنٹرول میں آ جائیں تو ملک پارٹی پالٹیکس کی طرف واپس چلا جائے ورنہ دوسری صورت میں اس حکومت کو مزید پانچ سال دے دیے جائیں، یہ حکومت انتظامی عہدوں پر باصلاحیت اور ماہر لوگ لگائے اور یہ لوگ ملک کا کلچر اور حالت دونوں تبدیل کر دیں،
یہ ایک اچھا سلوشن ہو گا، ہمارے حالات خراب ہیں اور ان خراب حالات میں اگر سیاسی جماعتوں نے دل کھلا کر کے ٹیکنوکریٹس گورنمنٹ یا قومی حکومت نہ بنائی تو یہ حکومت کوئی اور بنا لے گا اور اگر کسی اور نے یہ حکومت بنائی تو ملک سے سیاسی جماعتوں کا رول ختم ہو جائے گا، عوام انھیں دوبارہ موقع نہیں دے گی چنانچہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے یہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور خود ہی آگے بڑھ کر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دیں ورنہ دوسری صورت میں بلی رہے گی اور نہ ہی گھنٹی۔