آپ اگر اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو آپ کو یاد آ جائے گا، ملک میں ایک وزیراعظم ہوتے تھے راجہ پرویز اشرف، یہ انچاس کو نونجہ بولتے تھے، یہ پاکستان کے عوام کو تین سال تک لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی خوشخبری سناتے رہے، یہ ناکام ہو گئے تو صدر صاحب نے اس ناکامی کے صلے میں انھیں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کا وزیراعظم بنا دیا، یہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل " ای سی ایل" پر تھے اور سپریم کورٹ انھیں رینٹل پاور پلانٹس کیس میں کرپٹ قرار دے چکی تھی، راجہ صاحب نے 9 ماہ کی وزارت عظمیٰ میں کیا کیا گل کھلائے پوری دنیا اس سے واقف ہے مگر آپ ان تمام گلوں کو چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں اور آپ صرف دو واقعات دیکھئے، یہ دونوں واقعات حکمرانوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف 15 جولائی2012ء کو بطور وزیراعظم عمرے کے لیے تشریف لے گئے، یہ 16 جولائی 2012ء کو روضہ رسولؐ پر حاضری کے لیے مدینہ بھی تشریف لے گئے، آغا سعید روضہ رسولؐ کے متولی ہیں، وزیراعظم نے آغا سعید کو سرکاری خزانے سے ایک لاکھ ڈالر عنایت کر دیے، وزیراعظم نے یہ نذرانہ ان نبی اکرم ؐ کے روضہ مبارک پر کھڑے ہو کر عنایت کیا جو اپنی حیات طیبہ میں سرکاری مال کو امانت قرار دیتے تھے، رسول اللہ ﷺ دوجہانوں کے مالک ہیں مگر یہ ایک کھجور سے روزہ رکھتے تھے اور وسائل کی کمی کے باعث نمک سے افطار کرتے تھے، راجہ صاحب نے یہ نذرانہ ان حضرت ابوبکر صدیقؓ کے روضے پر کھڑے ہو کر بھی عطا کیا جو خلیفہ بننے سے قبل مدینہ کے بازار میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
آپؓ خلیفہ بننے کے بعد اگلے روز دکان پر جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے آپ کو روک کر فرمایا، خلیفہ کی دکان کھلے گی تو لوگ دوسری دکانوں سے مال کیوں خریدیں گے؟ یہ سیاسی خیانت ہو گی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دکان بند کر دی، خاتون اول نے ایک دن کھانے کے ساتھ سویٹ ڈش بنا لی، خلیفہ نے تحقیق کی تو پتہ چلا خاتون اول روز کے خرچ سے تھوڑے سے پیسے بچا لیتی تھیں، یہ رقم جب اتنی خطیر ہو گئی کہ اس سے کھیر کے دو پیالے بن سکتے تھے تو انھوں نے سویٹ ڈش بنا لی، خلیفہ اول نے اسی وقت اپنا سرکاری نان نفقہ کم کر دیا کیونکہ آپ کا خیال تھا اس سے کم میں ہمارا گزارا ہو سکتا ہے، وزیراعظم نے یہ نذرانہ ان حضرت عمر فاروقؓ کے مزار پر کھڑے ہو کر بھی عطا کیا جن کے دورکا واقعہ پوری دنیا کو یاد ہے، حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی ریاست کے ایک چھوٹے سے علاقے میں قحط پڑ گیا، معلوم ہوا سیکڑوں ہزاروں لوگ بھوکے پیاسے پڑے ہیں، آپ نے مدینہ منورہ میں کھانا پینا بند کر دیا۔
آپ فاقوں کی وجہ سے اس قدر کمزور پڑ گئے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں گیلی ہو جاتی تھیں، آپ کا دل ایک طرف اتنا کھلا تھا کہ سلطنت کے تمام بچوں، معذوروں، بوڑھوں اور لاچاروں کے لیے وظیفہ طے کر دیا اور آپ دوسری طرف اس قدر محتاط تھے کہ کہ ذاتی کام کے لیے اٹھتے تھے تو سرکاری چراغ بجھا دیتے تھے اور تاریخ کے سب سے بڑے حکمران کو اپنا کرتہ مکمل کرنے کے لیے بیٹے کے حصے کا کپڑا لینا پڑگیا مگر راجہ پرویز اشرف نے ان اصحاب کے روضے پر کھڑے ہو کر سرکاری خزانے سے ایک لاکھ ڈالر متولی کو ادا کر دیے اور یہ رقم اس وقت ادا کی جب ملک کے ایک کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر تھے۔ راجہ صاحب کی روحانی نوازشات صرف یہاں تک محدودنہیں تھیں بلکہ آپ نے اپنے حلقے کے ایک مدرسے بھنگالی شریف کو سرکاری خزانے سے تین کروڑ روپے کا عطیہ بھی دے دیا۔
راجہ پرویز اشرف کو یہ عطیات ضرور دینے چاہیے تھے، ہمیں بھی اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے توہم بھی یقیناً روضہ رسول ؐ کے ہر متولی کو سونے میں تول دیں گے، میں مدرسے کے ہر طالب علم کے لیے تاحیات وظیفہ طے کر دوں گا اور ملک کے تمام مدارس کو آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں جیسی سہولتیں دے دوں لیکن ہم یہ تمام عطیات اپنی جیب سے ادا کریں گے، ہم یہ خدمت اپنی کمائی سے کریں گے لیکن ہمارے حکمران کیونکہ حکمران نہیں ہیں، یہ شہزادے اور بادشاہ ہیں چنانچہ یہ عطیہ بھی سرکاری خزانے سے عطا کرتے ہیں، یہ ذاتی پیسوں سے عمرہ اور حج کو توہین سمجھتے ہیں، یہ حلف اٹھانے کے بعد داتا دربار کے دربار پر حاضری دیتے ہیں تو یہ پھولوں کی چادر تک سرکاری خزانے سے لیں گے، آپ جدہ کے پاکستانی قونصل خانے کے اخراجات کا آڈٹ کرا لیں، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ہمارے وزراء اعظم، ان کا اسٹاف، ہمارے وزراء اور ہمارے سیکریٹریز احرام تک سرکاری خزانے سے حاصل کرتے ہیں۔
یہ طواف کے لیے چمڑے کے موزے خریدتے ہیں تو اس کا بل بھی سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے، ان کے لیے آب زم زم، کھجوریں، جائے نماز اور تسبیح بھی سرکاری خزانے سے خریدی جاتی ہیں، عمرے اور حج کے دوران گاڑیوں اور ٹیکسیوں کا کرایہ بھی سرکاری خزانے سے ادا ہوتا ہے اور ہوٹلوں کے اخراجات بھی پاکستان کے عوام برداشت کرتے ہیں اور ہم اس معاملے میں صرف راجہ پرویز اشرف یا یوسف رضا گیلانی کو الزام نہیں دے سکتے، پاکستان کے قریباً تمام وزراء اعظم اور وزراء اسی علت کا شکار رہے، یہ ہمیشہ سے اپنی عبادت، روحانیت، عقیدت اور خدمت کا بوجھ عوام پر ڈالتے آ رہے ہیں اور شاید مستقبل میں بھی ڈالتے رہیں گے، اس ملک میں حکومت لاٹری ہے اور جس شخص کی یہ لاٹری لگ جاتی ہے وہ سرکاری خزانے کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو لاٹری کی رقم پانے والے یورپ اور امریکا میں کرتے ہیں۔
ہمارے ہر سیاستدان کے اندر ایک مغل شہنشاہ چھپا بیٹھا ہے، یہ جوں ہی کرسی پر بیٹھتا ہے، اس کے اندر کا شہنشاہ باہر نکل کر تخت پر بیٹھ جاتا ہے اور یہ اس کے بعد اس طرح بی ہیو کرتا ہے جس طرح اکبر اعظم اپنے دربار میں کرتا تھا، اسے دے دو، اس سے چھین لو، دکن اس کے حوالے کر دو، اسے ہزاروی عہدہ دے دیا جائے اور فلاں درگاہ پر سونے کا کلس لگا دیا جائے اور فلاں کی دیوار چاندی کی بنا دی جائے وغیرہ وغیرہ، ہمارے حکمران اکثر اس نوعیت کی مہربانیوں اور نوازشوں سے دنیا کو حیران کر دیتے ہیں، مجھے ملک کے ایک سینئر بیوروکریٹ نے برسوں قبل جنرل ضیاء الحق کا ایک واقعہ سنایا، جنرل صاحب غالباً برطانیہ کے دورے پر تھے، برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر جنرل صاحب کو پریشان دکھائی دی، جنرل صاحب نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا برطانیہ کا ایک بچہ مہلک مرض میں مبتلا ہے، اس کا علاج صرف امریکا میں ممکن ہے، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے بچے کے علاج کے لیے فنڈ مانگ لیا۔
میرے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں، میں جس کے ذریعے اس بچے کے لیے فنڈ ریلیز کر سکوں، جنرل ضیاء الحق مسکرائے اور انھوں نے پیش کش کی " اگر آپ اجازت دیں تو میں اس بچے کی مدد کر سکتا ہوں " وزیراعظم نے حیرانی سے پوچھا " آپ کیسے مدد کریں گے" جنرل ضیاء الحق نے اپنے ملٹری سیکریٹری کو بلایا اور اسے ہدایت کی آپ وزیراعظم کے اسٹاف سے اس بچے کا نام اور ایڈریس لیں اور فوری طور پر اس کے علاج کا بندوبست کردیں، ملٹری سیکریٹری باہر نکلا اور بچے کو امریکا بھجوانے کا کام شروع ہو گیا، اسی قسم کا ایک واقعہ لارڈز میں برطانوی کرکٹ ٹیم کے ساتھ پیش آیا، برطانیہ کے وزیراعظم جان میجر کرکٹ کے شیدائی ہیں، یہ ہمارے ایک وزیراعظم کو میچ دکھانے کے لیے لارڈز لے گئے، میچ کے آخر میں ہمارے وزیراعظم کا کھلاڑیوں سے تعارف کرایا جا رہا تھا۔
ہمارے غنی وزیراعظم نے اچانک برطانوی کرکٹ ٹیم کو 50 ہزار پائونڈ کا انعام دے دیا، برطانوی وزیراعظم یہ انعام دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے برملا اعتراف کیا " میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوتے ہوئے برطانوی ٹیم کو اتنا بڑا انعام نہیں دے سکتا، پاکستانی وزیراعظم مجھ سے زیادہ پاور فل ہیں " اور صدر آصف علی زرداری کی طرف سے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے متولیوں کے لیے ایک ملین ڈالر کا عطیہ تو کل کی بات ہے، صدر صاحب 8 اپریل 2012ء کو اجمیر شریف تشریف لے گئے اور آپ نے وہاں ایک ملین ڈالر کا چڑھاوا چڑھا دیا، یہ رقم بھی سرکاری خزانے سے ادا کی گئی، یونیسکو نے ملالہ یوسف زئی کے نام پر 10 دسمبر 2012ء کو ملالہ فنڈ قائم کیا، یہ معاملہ صدر آصف علی زرداری کے دربار میں پہنچا تو صدر صاحب نے ایک کروڑ ڈالر کا اعلان کر کے اقوام متحدہ کے نمایندوں کو حیران کر دیا۔
یہ اس ملک کے حکمرانوں کی فیاضی ہے جس کے 60 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جس میں آج بھی ساڑھے چارسو بچے خسرہ سے مر جاتے ہیں، ڈینگی بخار ہمارے 300 لوگ نگل جاتا ہے، جس میں زلزلے اور سیلاب آتے ہیں تو ہم دس دس سال تک ملبہ نہیں سمیٹ پاتے اور جس میں عمارتوں کو آگ لگ جاتی ہے تو ہمارے پاس پانچ دس منزل اونچی سیڑھی نہیں ہوتی اور لوگ آگ سے بچنے کے لیے کھڑکیوں سے کودنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پوری دنیا یہ نظارہ لائیو دیکھتی ہے مگر حکمران متولیوں کو لاکھ لاکھ ڈالر اور مدرسوں کو سرکاری خزانے سے تین تین کروڑ روپے عنایت کر دیتے ہیں، یہ کیسے لوگ ہیں، یہ وضو کا پانی بھی سرکاری خزانے سے لیتے ہیں اور اس کے بعد انھیں نیند بھی آ جاتی ہے، یہ عمرے بھی سرکاری کرتے ہیں اور انھیں اس ظلم کے بعد کھانا بھی ہضم ہوجاتا ہے، یہ اپنے سجدوں کا بوجھ غریب کی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور یہ اس کے باوجود راجے بھی کہلاتے ہیں اور گیلانی بھی، واہ کیا بات ہے۔