سینیٹر پرویز رشید میرے دوست بھی ہیں اور محسن بھی، دوست اس لحاظ سے ہیں کہ انھوں نے مجھے سیاست کے قبرستان میں دفن ہونے سے بچایا تھا، پرویز رشید 1997 میں پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین تھے۔
اس دور میں پاکستان میں صرف پی ٹی وی ہوتا تھا، پرویز رشید نے مجھے اپنے دفتر بلوایا اور پی ٹی وی میں ڈائریکٹر نیوز کے عہدے کی پیش کش کی، میں اس وقت ایک بے نام صحافی تھا، مجھے لوگ پہچانتے تک نہیں تھے، پرویز رشید کی آفر میری اوقات سے بڑی تھی، آپ خود سوچئے سوزوکی کار میں پھرنے والا ایک بے نام صحافی جسے صحافت میں صرف پانچ سال ہوئے ہوں اور جس کی عمر بمشکل 26 سال ہو، اسے اچانک پاکستان کے واحد ٹی وی کی ڈائریکٹر شپ کی پیش کش ہو جائے تو اس کی کیا حالت ہوگی، میں بھی چند لمحوں کے لیے سکتے میں آ گیا، انسان کی زندگی کے بعض لمحات میک یا بریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ میری زندگی کاایک ایسا ہی لمحہ تھا، میں آج سوچتا ہوں، میں نے اگر اس وقت ہاں کر دی ہوتی تو شاید میرا کیریئر 1999 میں ختم ہو گیا ہوتا اور میں باقی زندگی کسی ایم این اے، سینیٹر یا کسی سیاسی جماعت کی خوشامد کا بستہ اٹھا کر گزار رہا ہوتا مگر اللہ نے کرم کیا، میں نے ایک لمبا سانس لیا، پرویز رشید سے چائے کا آخری کپ مانگا، قہقہہ لگایا اور عرض کیا " میں اس وقت آپ کے سامنے دوست کی حیثیت سے بیٹھا ہوں، میں جوں ہی ہاں کروں گا، میں دوست سے ماتحت ہو جائوں گا، انسان کو دوستی کو ماتحتی پر ہمیشہ فوقیت دینی چاہیے" پرویز رشید اپنی جگہ سے اٹھے، میرے کندھے پر تھپکی دی اور کہا " جاوید زندگی میں ہمیشہ اسی طرح آزاد اور بے غرض رہنا، لوگ اس ملک میں تمہارے ہاتھ چومیں گے" میں نے ان کے ساتھ چائے کا آخری کپ پیا اور اس کے بعد کبھی پرویز رشید کے دفتر نہیں گیا۔
مگر پرویز رشید کی اس تھپکی نے مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد اور بے غرض بنا دیا۔ وہ 1999 میں اقتدار سے فارغ ہوئے، فوج کے ایک دستے نے انھیں گرفتار کیا، انھیں سیف ہائوس لے جایا گیا اور وہاں ان کے ساتھ وہ سلوک ہوا جسے میں تحریر تک نہیں کر سکتا، آپ نے انسانیت سوز کا صرف لفظ سنا اور پڑھا ہو گا، پرویز رشید نے اس بھگتا تھا، پرویز رشید کے ساتھ وہاں کیا ہوا، اس کے لیے صرف ایک مثال کافی ہو گی، پرویز رشید کی شلوار خون سے لتھڑی ہوئی تھی اور انھیں اس عالم میں جوان بیٹی کے سامنے بٹھا دیا گیا تھا، یہ وہ لمحہ تھا جب پرویز رشید اور ان کی بیٹی دونوں اپنے حواس کھو بیٹھے، پرویز رشید بعد ازاں امریکا میں زیر علاج رہے، وہاں ایک یہودی نفسیات دان ان کا علاج کر رہا تھا۔
اس نے جب پرویز رشید کی داستان سنی تو اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور اس نے ان سے فیس لینے سے انکار کر دیا۔ پرویز رشید کے ساتھ زیادتی کرنے والا میجر بعد ازاں سندھ میں سانپ ڈسنے سے ہلاک ہو گیا، میں 2007 میں پرویز رشید سے ملاقات کے لیے لندن گیا، میں نے ان کی حالت دیکھی تو میں منہ پر ہاتھ رکھ کر رو پڑا، میں آج تک ان کی آنکھ میں آنکھ نہیں ملا سکتا کیونکہ میں اس ملک کے ہر اس شخص کو پرویز رشید کا مجرم سمجھتا ہوں جو دوسروں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہتا ہے اور میں بھی ان چپ شاہوں میں شامل ہوں۔
میں اس دن سے پرویز رشید کو پاکستان کے ہر جمہوریت پسند شخص کا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ پرویز رشید جیسے لوگ ہی جمہوریت کے اصل محسن ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقتاً اس ملک میں آزادی، آزادی رائے اور آزادی فکر کے لیے خون دیا جب کہ محلوں سے نکل کر محلوں میں جانے اور پھر وہاں سے دوبارہ محلوں میں آنے والے لوگ قائد تو ہو سکتے ہیں مگر جمہوریت نواز نہیں، یوں پرویز رشید میرے دوست بھی ہیں اور محسن بھی چنانچہ ان کا احترام مجھے ہمیشہ بے بس کر دیتا ہے۔ پرویز رشید صاحب نے پچھلے دنوں مجھے ایک خط لکھا، میں اسی بے بسی اور احترام کی وجہ سے ان کا یہ خط من و عن شایع کر رہا ہوں، آپ ان کا خط ملاحظہ کیجیے۔
"محترم جاوید چوہدری صاحب! 6 نومبر 2012 کو اپنے کالم میں "نادان دوست" کے عنوان سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے مختلف سیاستدانوں کی شمولیت کے حوالے سے آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ معاملات اور واقعات کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتے۔ محترم چوہدری صاحب! پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پالیسی اسی وقت تیار کر لی گئی تھی جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت جبری جلاوطنی کے زمانے میں جدہ سے لندن منتقل ہوئی تھی اور ہمیں 12 اکتوبر 1999کے پانچ برسوں کے طویل عرصے کے بعد مل بیٹھنے کے مواقعے میسر آنے لگے تھے۔
اس پالیسی میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دروازے ان لوگوں کے سوا جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو مشرف کی آشیر باد سے توڑنے کے عمل میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے، ہر اس شخص کے لیے کھلے رکھے جائیں جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اختیار کردہ اصولی موقف کو باآواز بلند اپناتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس پالیسی کی تیاری میں وہ تمام ساتھی شامل تھے جنھیں آپ نے اپنے کالم میں " نادان دوست" قرار دیا ہے۔ میں یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہ سطور آپ کو مسلم لیگ (ن) کے ان تمام نادان دوستوں کی مشاورت اور توثیق کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔
میرے یہ تمام ساتھی اس بات سے متفق ہیں کہ آپ نے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے جن خواتین و حضرات کی شمولیت کو جواز بنا کر نواز شریف کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے ان " نادان دوستوں " کے براہ راست علم اور مشورے کے بغیر پارٹی میں شامل کیا گیا ہو۔ یہ سب لوگ ہم " نادان دوستوں " کے ذریعے ہی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور پھر آپ نے جن لوگوں کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان میں سے ایک آدھ استثنیٰ کے سوا زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کا حصہ نہیں رہے اور یہ لوگ 1999 کے بعد سیاست کی وادی میں داخل ہوئے ہیں۔
اسی طرح میں یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے وضع کردہ طریقے کے مطابق شمولیت کے خواہش مند افراد کے معاملات پر منفی یا مثبت فیصلے مقامی قیادت کی رضامندی کے بغیر نہیں کیے جاتے۔ آپ نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے ملک میں ڈکٹیٹر شپ اور پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والوں کو نظر انداز کیے جانے کا جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اس کا حقائق سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ میں زیادہ تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا آپ نے پیر صابر شاہ صاحب کی کمٹمنٹ کا ذکر کیا ہے۔
یہ ان کی اسی کمٹمنٹ کا اعتراف ہے کہ وہ نہ صرف خیبر پختوانخواہ کی مسلم لیگ (ن) کے منتخب صدر ہیں بلکہ پارٹی کے اہم ترین فیصلہ کرنے والے ہر ادارہ کے رکن بھی ہیں۔ صرف یہی نہیں جب ہزارہ کی مقامی سیاست میں جناب نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کی جانب سے مبینہ طور پر کچھ ناپسندیدہ الفاظ پیر صاحب کے لیے استعمال ہوئے تو کیپٹن صفدر کے پارٹی عہدے اور رکنیت کو خود صدر نواز شریف نے معطل کر دیا جو ابھی تک بحال نہیں ہوئی اور ان کی رکنیت کا فیصلہ نواز شریف نہیں بلکہ پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان، سردار مہتاب خان عباسی اور پرویز رشید پر مشتمل کمیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ جناب چوہدری صاحب! آپ نے جوش تحریر میں مسلم لیگ (ن) کے ان اکابرین کو بھی " راندہ درگاہ" قرار دینے سے گریز نہیں کیا جن کی حیثیت پارٹی کے نفس ناطقہ کی ہے اور جو آج میاں نواز شریف کے دست بازو کی حیثیت میں پارٹی کی پالیسیوں اور لائحہ عمل کی صورت گری میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے مفروضات کو بنیاد بنا کر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف اور جمہوریت کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں میں ان کے بارے میں کیا عرض کروں؟ البتہ درویش شاعر ساغر صدیقی کی زبان میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ :
کہانیوں کو نئے رنگ بخشنے والوحقیقتوں میں بھی ترمیم کی ضرورت ہےوالسلام، مخلص، سینیٹر پرویز رشید، لاہور
آپ نے پرویز رشید کا عرفانہ بلکہ صدیقانہ خط ملاحظہ کیا، اس خط میں ایسے پانچ نقطے اور تضادات ہیں جن پر کئی دن بات ہو سکتی ہے لیکن مجھے صرف اور صرف پرویز رشید کا حیاء ہے چنانچہ میں یہ پانچ نقطے درویش شاعر ساغر صدیقی ہی کے ایک شعر کے ساتھ قرض چھوڑ رہا ہوں :
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے، بے نور سویرے ہوتے ہیں شاعر کا تصور بھوکا ہے، سلطان یہاں بھی اندھے ہیں