حضرت بابا فرید گنج شکرتصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے رئوسا میں بھی شمار ہوتے تھے، آپ کا تجارتی مال بحری جہازوں پرجاتا تھا، آپ ایک بار مریدوں کے حلقے میں بیٹھے تھے، آپ کا ایک خادم حاضر ہوا، آپ کے کان پر جھکا اور آپ سے عرض کیا، آپ کے مال کا ایک جہاز سفر پر رواں دواں تھا، طوفان آیا اور آپ کا جہاز ڈوب گیا" آپ نے ایک سیکنڈ توقف کیا اور پھر بآواز بلند فرمایا "شکر الحمدﷲ" اور اس کے بعد دوبارہ واعظ اور نصیحت میں مصروف ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ خادم دوبارہ حاضر ہوا، آپ کے قریب پہنچا، کان پر جھکا اور عرض کیا "میں معذرت چاہتا ہوں، ہماری خبر غلط تھی، جہاز نہیں ڈوبا، ہمارا مال سلامت ہے" آپ نے چند سیکنڈ توقف کیا اور دوبارہ بآواز بلند فرمایا "شکر الحمدﷲ" اور ایک بار پھر واعظ اور نصیحت میں لگ گئے۔ آپ کے مریدین اس واقعے پر حیران تھے، مریدوں نے پوچھا "حضور آپ کو دو متضاد خبریں ملیں مگر آپ نے دونوں خبروں پر شکر ادا کیا،
اگر گستاخی نہ ہو تو کیا ہم اس کی وجہ جان سکتے ہیں " حضرت بابا فرید گنج شکر نے فرمایا "مجھے جب خادم نے جہاز ڈوبنے کی اطلاع دی تو میں نے اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھا اس میں اس خبر پرملال، پریشانی، دکھ یا تکلیف کا سایہ تو نہیں آیا، میں نے دیکھامیرے دل میں اس نقصان پر کوئی دکھ یا پریشانی نہیں تھی،
میں نے اس کرم پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ دوسری بار جب خادم نے اطلاع دی میرا مال محفوظ ہے تو میں نے اپنے دل کو دوبارہ ٹٹول کر دیکھا، میرے دل میں کہیں اس خبر پر غرور، فخر، خوشی اور لالچ کا جذبہ تو نہیں آگیا، میں نے دیکھا میرا دل اس خبر پر بھی نارمل تھا چنانچہ میں نے اس کرم پر بھی اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ حضرت بابا فرید گنج شکر کا یہ واقعہ تصوف ہے۔
ہماری زندگی کے دو بڑے مسئلے ہیں خوف اور لالچ۔ ہماری زندگی خوف سے بھی خراب ہوتی ہے اورپھر لالچ سے بھی۔ ہمیں خوف اور لالچ دونوں سمجھوتے پر مجبور کرتے ہیں، خوف ہماری زبان کو جکڑ لیتا ہے، یہ ہمیں سچ بولنے سے روکتا ہے، یہ ہمیں اﷲ کی وسیع زمین میں دوڑنے، بھاگنے، چلنے پھرنے اور زمین کی ہیئت محسوس کرنے سے باز رکھتا ہے، یہ ہمیں پناہ گاہوں کا اسیر بناتا ہے، ہم قلعوں، محلوں اور مضبوط فصیلوں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں، دروازوں اور دیواروں پر فوجیں بیٹھا دیتے ہیں، ہم اکیلے سفر نہیں کرتے، ہمیں پروٹوکول بھی چاہیے ہوتا ہے اور سیکیورٹی بھی لیکن ہم اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں،
یہ خوف آہستہ آہستہ ہمیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے اور ہم رات کے اندھیرے سے بھی ڈرتے ہیں، بارش سے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں، ہمیں سردی اور گرمی بھی خوفزدہ کرتی ہے، ہمارے لیے بہار بھی "پولن انرجی" بن جاتی ہے، ہم پانی سونگھ سونگھ اور چکھ چکھ کر پیتے ہیں، ہم خوراک کی کوالٹی کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں، ہم دوائوں اور ڈاکٹروں سے بھی مطمئن نہیں ہوتے، ہم آپریشن بھی امریکا اور برطانیہ سے کراتے ہیں، ہم گاڑیاں بھی بلٹ پروف استعمال کرتے ہیں اور ہم بنکر جیسے بیڈ رومز میں سوتے ہیں لیکن ہمیں اس کے باوجود نیند نہیں آتی۔ یہ خوف ہماری زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ لالچ بھی اسی طرح ہماری زندگی کے تمام تارپور ہلا دیتا ہے،
ہم اپنی زندگی کے ایک ایک پل، ایک ایک رشتے کو دکان بنا دیتے ہیں، ہم سبزی خریدنے جاتے ہیں تو ہم اس میں سے منافع نکالنے لگتے ہیں، ہم اجنبی سے ملتے ہیں تو اس سے محفوظ سرمایہ کاری کے طریقے جاننے لگتے ہیں، ہم اپنی رقم سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے بینک بدلتے رہتے ہیں، ہم روپوں کو ڈالر اورڈالرزکو یورو میں تبدیل کرتے رہتے ہیں، ہم اپنے ہر سلام، ہر معانقے اور ہر ملاقات میں فائدہ تلاش کرتے ہیں اور لالچ کے اس سفر کے آخر میں ہم اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے فائدے کے انبار لگا دیتے ہیں، ہمیں ہر جگہ، ہر طرف فائدہ ہی فائدہ دکھائی دینے لگتا ہے اور ہم اس فائدے کے حصول اور تحفظ کے لیے بے شمار سمجھوتے کرتے ہیں،
ہم اس کے لیے اپنے جذبات، اپنے خیالات، اپنا ایمان، اپنی آزادی اور اپنا سکون تک قربان کر دیتے ہیں لیکن آخر میں یہ خوف اور یہ لالچ ہمیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے، ہم بے سکون، بے آرام اور ڈپریس ہو جاتے ہیں لیکن ہم میں سے جو لوگ اپنے لالچ اور اپنے خوف کو شکست دے دیتے ہیں جو ان سے آزاد ہو جاتے ہیں وہ صوفی ہوتے ہیں اور جو خوف اور لالچ سے نکلنے لگتے ہیں وہ تصوف کے راستے پر چلنے لگتے ہیں چنانچہ تصوف فیئر اور گریڈ۔ خوف اور لالچ سے رہائی ہے اور یہ دونوں شیطان کے بڑے ہتھیار ہیں۔
شیطان کے دو بڑے ہتھیار ہیں خوف اور لالچ، یہ انسان کو ان ہتھیاروں کے ذریعے زیر کرتا ہے، آپ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد اﷲ تعالیٰ اور شیطان کا مکالمہ ملاحظہ کیجیے، شیطان نے مردود ہونے کے بعد اﷲ تعالیٰ سے تاقیامت زندگی مانگی، اﷲ تعالیٰ نے عنایت کر دی، شیطان نے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ کو چیلنج کیا، مجھے آپ کی قسم میں نسل انسانی کو گمراہ کروں گا، سوائے ان لوگوں کو جو آپ کے منتخب کردہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے یہ منتخب کردہ لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ انبیائے کرام ہیں، اﷲ تعالیٰ کا کوئی نبی شیطان کا شکار نہیں ہوا، کیوں؟
کیونکہ اﷲ کے تمام انبیاء شیطان کے دونوں ہتھیاروں خوف اور لالچ سے محفوظ تھے، انبیاء کے دل میں کیونکہ لالچ اور خوف کا بیج نہیں ہوتا چنانچہ شیطان ان دونوں جذبوں کو پانی اور خوراک دے کر درخت نہیں بنا سکتا تھا لہٰذا یہ نبیوں پر کبھی وار نہیں کر سکا۔ انبیائے کرام شیطان سے باقاعدہ مکالمے کرتے رہے ہیں، یہ اس سے سوال جواب تک کرتے رہے ہیں اوروہ مکالمے میں ہمیشہ بے بس رہا۔ انبیائے کرام کے بعد صوفیائے کرام اﷲکے منتخب بندے ہوتے ہیں لیکن کیونکہ یہ نبوت کی مٹی سے نہیں بنے ہوتے چنانچہ یہ کڑے مجاہدوں کے بعد دل کو لالچ اور خوف سے پاک کرتے ہیں،
شیطان اس مجاہدے کے دوران خوف اور لالچ کے ہزاروں بہروپ بھرکر ان پر حملے کرتا ہے اور یہ بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے لیکن معرفت کے راستے کے مسافر پھر اﷲتعالیٰ کے کرم سے جلد سنبھل جاتے ہیں، اپنی مشقت اور مجاہدوں میں اضافہ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ لالچ اور خوف ان کے دل کی نسوں تک سے نکل جاتا ہے اور یوں یہ منزل تک پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ لوگ کامیابی کے تخت پر بیٹھنے کے باوجود اپنے دل کے دروازے کی مسلسل حفاظت کرتے ہیں، یہ عمر بھر اس اندیشے کا شکار رہتے ہیں کہ شیطان کہیں کسی گمان، کسی خیال کی شکل میں دل میں نہ اتر آئے،
یہ دل میں لالچ اور خوف کا بیج نہ بو دے چنانچہ یہ شیطان کے وار سے بچنے کے لیے روز مجاہدے، مشاہدے اور وظیفے کے عمل سے گزرتے ہیں، یہ روزتنی ہوئی رسی پر چلتے ہیں اور اب سوال پیدا ہوتا ہے تصوف اور روحانیت میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق جاننا بھی بہت ضروری ہے۔
تصوف رسم نبوت کا تسلسل ہے، صوفیائے کرام مختلف ادوار میں اسلام کو آسان، قابل فہم اور عام انسانوں کے لیے قابل قبول بناتے ہیں، یہ وقت کی تبدیلیوں کو سامنے رکھ کر مذہب کی جدیدتشریح کرتے ہیں، یہ ہر دور کے انسانوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں جب کہ روحانیت اپنے باطن کو مطمئن رکھنے کا کھیل ہے، ہمیں پوری دنیا میں ہزاروں روحانی شخصیات ملتی ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دل کو لالچ اور خوف سے آزاد کر لیتے ہیں لیکن ان کے پاس کیونکہ مذہب کا علم نہیں ہوتا چنانچہ یہ مذہب کی تشریح اور وضاحت نہیں کر پاتے مگر یہ اپنے آپ اور اپنے اردگرد موجود لوگوں پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں،
یہ خود بھی مطمئن رہتے ہیں اور دوسروں کے دل پر بھی اطمینان کا سایہ ڈال دیتے ہیں۔ آپ اگر روحانیت میں مذہب یا شریعت ڈال دیں تو یہ تصوف ہو جاتا ہے اور آپ اگر صوفی سے شریعت یا مذہب نکال دیں تو یہ روحانی بزرگ بن جاتا ہے لیکن ظاہری اور باطنی لحاظ سے ہوتے دونوں یکساں ہیں، دونوں کی زندگی میں اطمینان، سکون اور مسرت ہوتی ہے اور دونوں ماحول پر اثرانداز ہوتے ہیں مگر ایک مذہبی صوفی ہوتا ہے اور دوسرا دنیاوی۔ اب سوال یہ ہے ہمیں تصوف کی ضرورت کیا ہے؟ ۔ ہم جب اپنے دل کو لالچ اور خوف سے پاک کر لیتے ہیں تو ہمیں چندانعامات ملتے ہیں، ان انعامات میں سکون، اطمینان، تسکین، مسرت، حوصلہ، برداشت اور ماضی، حال اور مستقبل دیکھنے والی آنکھ شامل ہوتی ہے،
صوفی کے اندر کسان کی وہ حس بیدار ہو جاتی ہے جو سٹہ دیکھ کر بیج اور پھل دونوں کا اندازا لگا لیتی ہے۔ صوفی میں مچھیرے کی وہ حس بیدا ر ہو جاتی ہے جو پانی دیکھ کر اس کی تہہ میں چھپی مچھلیوں کا ذائقہ جان لیتی ہے اور صوفی میں بندہ صحرائی کی وہ حس جاگ جاتی ہے جو ریت سونگھ کر بتا دیتی ہے پانی کتنے کلومیٹر دور ہے۔
روحانیت میں اس حس کو کشف کہا جاتا ہے لیکن صوفیائے کرام اسے مداری کا کھیل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں اطمینان قلب اور کشف میں اتنا فرق ہوتا ہے جتنا اسٹیٹ بینک اور روپے میں۔ صوفی کبھی روپے کے سکے پر نہیں ٹھہرتا ہے، یہ سیدھا اسٹیٹ بینک جاتا ہے جب کہ روحانی ماہر روپے کا سکہ جیب میں ڈال کر چھلانگیں لگانے لگتے ہیں، یہ اسٹیٹ بینک کی تلاش میں نکلتے ہیں اور روپے کا سکہ جیب میں ڈال کر واپس آ جاتے ہیں۔
تصوف اطمینان کا کُل ہے اور روحانیت اس کُل کا ایک جزو۔