میرے کندھوں پر دو زندہ انسانوں کا بوجھ ہے لیکن دنیا انھیں زندہ نہیں مان رہی ایک فوزیہ وہاب ہیں اور دوسرے نسیم انور بیگ۔ یہ دونوں آگے پیچھے انتقال کر گئے لیکن ان کی محبتیں، ان کے احسانات اور ان کی ذات کی دھوپ ابھی تک میرے دل کی کھڑکی کے پٹوں پر موجود ہے اور یہ دھوپ شاید کبھی میرے دل سے اتر نہیں سکے گی۔ نسیم انور بیگ شہد اور ملائی سے بنے ہوئے ایسے شاندار انسان تھے جن کا ساتھ دنیا میں کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہم انکل کو انکل جی کہتے تھے، یہ عقل، دانش، روحانیت اور عمر چاروں میں بزرگ تھے، انکل جی پاکستان بننے سے قبل ایم اے کر چکے تھے، یہ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن بھی رہے اور پاکستان کو تعمیر کرنے والی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین بھی۔ انکل کی زندگی کا بڑا حصہ پیرس میں یونیسکو کی نوکری میں گزرا، یہ یو این کی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے، یہ اور ان کی مرحومہ اہلیہ آنٹی اختر کی زندگی کا بھرپور دور پیرس میں گزرا، اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا لیکن دونوں اس کے باوجود بے انتہا مطمئن اور مسرور تھے۔ پیرس میں انکل کی اسلامی دنیا کے معروف اسکالر ڈاکٹر حمیداللہ سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، انکل ایک ملاقات کا اکثر حوالہ دیتے تھے، ان کا فرمانا تھا، میں نے ایک دن ڈاکٹر حمیداللہ کو کھانے کی دعوت دی
میں وقت مقررہ پر ڈاکٹر صاحب کے استقبال کے لیے اپنے اپارٹمنٹس کی عمارت سے نیچے آ گیا، ہماری عمارت کے سامنے فٹ پاتھ پر لکڑی کا ایک بینچ تھا، میں نے دیکھا ڈاکٹر حمیداللہ اس بینچ پر بیٹھے ہیں، میں تیزی سے ان کی طرف بڑھا، ان کا ہاتھ تھاما اور ان سے عرض کیا، آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے، ڈاکٹر حمیداللہ نے مسکرا کر جواب دیا "میں ذرا جلدی پہنچ گیا تھا، میں نے سوچا یہ میری غلطی ہے چنانچہ مجھے انتظار کرنا چاہیے" انکل جی کے بقول اس جواب نے ان پر گھڑوں پانی ڈال دیا، دنیا کا اتنا بڑا اسکالر اور مجھ جیسے عاجز کے دروازے پر بیٹھا ہے، انکل جی ڈاکٹر حمیداللہ کی عاجزی پر آخری وقت تک شرمندہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے، میں نے اس کے بعد جب بھی ڈاکٹر صاحب کو تکلیف دی، میں آدھ گھنٹہ پہلے نیچے آ کر اس بنچ پر بیٹھ جاتا تھا
وہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتایا کرتے تھے "ہم جب ان سے پیرس میں قیام کے بارے میں پوچھتے تھے تو وہ فرماتے تھے، مجھے یہاں وہ تمام اسلامی کتابیں دستیاب ہیں جو بدقسمتی سے کسی اسلامی ملک میں نہیں مل سکتیں چنانچہ میں صرف کتابوں کی وجہ سے یہاں رہنے پر مجبور ہوں " انکل جی نے بتایا " ڈاکٹر حمیداللہ ایک کمرے کے فلیٹ میں اکیلے رہتے تھے، ان کے کمرے میں بستر کے علاوہ کتابیں ہی کتابیں تھیں، میاں نواز شریف پہلے دور میں ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے اور ان کے لیے ملازم کے بندوبست کا حکم جاری کر دیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے معذرت کر لی، ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا "یہ ملازم میری زندگی مشکل بنا دے گا کیونکہ مجھے اس کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا" انکل جی جوانی میں قدرت اللہ شہاب کے دوست بن گئے، شہاب صاحب نے ان کی ذات پر گہرے اثرات مرتب کیے، شہاب صاحب ہالینڈ میں سفارت کے دوران اکثر انکل جی کے پاس آ جایا کرتے تھے
انکل جی اور آنٹی اختر شہاب صاحب کو اپنا فکری اور روحانی پیر سمجھتے تھے، انکل جی پیرس میں 35 سال قیام کے بعد90ء کی دہائی میں پاکستان واپس آ گئے، پروین شاکر روڈ پر ان کا شاندار گھر تھا، آنٹی جی انتقال کر چکی تھیں، انکل تنہا تھے لیکن انھوں نے بڑے دلچسپ طریقے سے اس تنہائی کو محفل میں بدل دیا، انھوں نے اپنی 14نشستوں کی ڈائننگ ٹیبل کو کلب بنا دیا، یہ روز شام کو تیار ہو کر اس ٹیبل پر بیٹھ جاتے اور ان کے اردگرد اسلام آباد کے سیاسی، فکری اور روحانی لیڈروں کی محفل سج جاتی، لوگ آتے، انکل جی کی میز پر بیٹھتے اور رات گئے تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے۔ انکل جی بڑے اچھے سامع تھے، یہ چپ چاپ لوگوں کو بولتے، کھاتے اور پیتے دیکھتے تھے اور خوش ہوتے رہتے تھے۔
میں 1994ء میں پہلی بار اس ٹیبل پر بیٹھا، مجھے صدیق راعی صاحب وہاں لے کر گئے تھے، ممتاز مفتی اور صدیق راعی شہاب صاحب کے شاگرد تھے، یہ دونوں نسیم انور بیگ کا احترام کرتے تھے اور میں ان دونوں کا شاگرد تھا، میں 1994ء میں صدیق صاحب کے ذریعے انکل کے پاس پہنچا، انکل نے پیار سے میری طرف دیکھا، میرے کندھے پر بوسا دیا اور مجھے اپنا بچہ بنا لیا، میں اس کے بعد ان کی میز کا مستقل زائر بن گیا، میں ہر شام سات بجے ان کے گھر پہنچ جاتا اور نو ساڑھے نو بجے تک ان کے گھر رہتا۔ انکل میں چار خصوصیات تھیں، یہ سچے عاشق رسول تھے، عشق رسول ان کی شخصیت میں خون کی طرح دوڑتا تھا،
یہ نبی اکرم کا نام لیتے تھے اور چند لمحوں کے لیے اس نام میں گم ہو جاتے تھے اور پھر گھبرا کر یوں اوپر دیکھتے تھے جیسے یہ بڑی مشکل سے ایک لمبے اور گہرے خواب سے نکلے ہیں۔ دوسرا ان کی ذات میں حلیمی اور عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، یہ آپ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس قدر نرم، اس قدر میٹھے ہو جاتے تھے کہ آپ کو ان کا اختلاف اتفاق محسوس ہونے لگتا تھا۔ تیسرا یہ اپنی مرحومہ اہلیہ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، یہ اپنے گھر کو اپنا گھر نہیں کہتے تھے، یہ اسے آنٹی اختر کا گھر کہتے تھے، میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو اپنی بیویوں سے محبت کرتے دیکھا لیکن مجھے اپنے اردگرد نسیم انور بیگ جیسا دوسرا خاوند نظر نہیں آیا، آنٹی انھیں اولاد کی نعمت نہیں دے سکیں لیکن انکل جی نے زندگی اور زندگی کے بعد ان سے شکوہ نہیں کیا
یہ ہر سال مئی میں پورے اہتمام سے اپنی مرحومہ اہلیہ کی برسی مناتے تھے اور اس برسی میں ان کے تمام شاگرد، مرید اور دوست شریک ہوتے تھے اور چار، یہ انتقال تک زندگی سے ریٹائر نہیں ہوئے، یہ 88 سال کی عمر میں بھی انتہائی متحرک تھے، ان کے دور کو گزرے زمانے ہو چکے تھے، ان کے دور کا میوزک، ان کے دور کی کتابیں، ان کے دور کے لباس، ان کے دور کی زبان اور ان کے دور کے لوگ سب دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن انکل قائم رہے، یہ خود کو ہر دور میں ایڈجسٹ کرتے رہے اور ان کی میز اور محفل دونوں جاری اور ساری رہیں۔ انکل جی کے بعض فقرے آفاقی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً وہ اکثر کہا کرتے تھے " بعض سوال جوابوں سے زیادہ معزز ہوتے ہیں، یہ سوال دہراتے رہا کرو" وہ پاکستان کے خلاف بات کرنے والے لوگوں کو " سقراط بقراط" کہتے تھے اور ان کا کہنا تھا "اللہ تعالیٰ کی ذات سقراطوں بقراطوں کی رائے دیکھ کر فیصلے نہیں کرتی" وہ اکثر کہا کرتے تھے "اللہ تعالیٰ کی ذات فنکشنل ہے، یہ کسی بھی وقت اپنا فنکشن کر گزرے گی" وہ کہا کرتے تھے "ہندو اور یہودی دونوں پاکستان کے خلاف ہیں مگر پاکستانی ان کی سازشوں سے واقف نہیں ہیں " وہ پاکستان کے پہلے دانش ور تھے جنہوں نے انکشاف کیا اسرائیل بھارت کا دوست بن چکا ہے اور پاکستان ان دونوں کا مشترکہ ٹارگٹ ہے۔ انکل جی میں ایک عجیب طرح کی روحانیت بھی تھی، ان کی ذات میں ایک مقناطیسی کشش تھی، آپ کی ذات میں اگر تلاش کا لوہا موجود تھا اور آپ کسی حادثے یا اتفاق کی وجہ سے انکل جی تک پہنچ گئے تو ان کی ذات کی کشش آپ کو اپنا مستقل مرید بنا لیتی تھی، آپ اس کے بعد ان کی میز سے اٹھ نہیں سکتے تھے، میں 1994ء سے 2008ء تک انکل جی کی میز سے بندھا رہا لیکن پھر ٹیلی ویژن کی نوکری انکل جی اور میرے درمیان حائل ہو گئی، وہ شام کو ٹیبل پر بیٹھتے تھے اور میں شام کو ٹی وی پر مصروف ہو جاتا تھا چنانچہ ملاقاتیں کم ہو گئیں لیکن محبت اور عقیدت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، میں جب بھی انکل جی کے گھر کی طرف رخ کرتا یا ان کے گھر کے قریب سے گزرتا، مجھے وہاں سے ٹھنڈی اور میٹھی ہوا کا جھونکا آتا تھا اور میری روح کی آخری نس تک سرشار ہو جاتی تھی، میں ان سے ملاقات نہیں کر پاتا تھا لیکن ان کی یاد، ان کی محبت سے غافل نہیں تھا، میں اچانک ان کے گھر پہنچ جاتا تھا اور ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر عرض کرتا تھا "انکل جی یاد رکھیے، میں آپ کا آخری بچہ ہوں اور آخری بچے لاڈلے بھی ہوتے ہیں اور گستاخ بھی" اور وہ مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے، میں شاید گستاخ بھی ہوں اور بے وفا بھی اور شاید میرے اندر تعلقات نبھانے کی خوبی بھی نہیں لیکن میں خود کو محبت سے باز نہیں رکھ سکتا اور میں انکل جی سے محبت کرتا تھا، کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا اور میں کبھی محبت کی اس آنچ کو نیچے نہیں آنے دوں گا۔ مجھے ان کا آخری پیغام مئی کے پہلے دن موصول ہوا، وہ آنٹی اختر کی برسی پر مجھے اپنے گھر میں دیکھنا چاہتے تھے، میں نے وعدہ بھی کر لیا لیکن میں برسی کے دن مصر میں تھا چنانچہ میں ان کے دیدار اور گرمجوشی سے محروم رہا، میں واپس آیا تو شرمندگی کی وجہ سے ان کے گھر نہ جا سکا، میرا خیال تھا وہ میری گستاخی کو ذرا سا بھول جائیں گے تو میں دست بوسی کے لیے حاضر ہو جائوں گا لیکن وہ موقع نہ آسکا، انکل جی کا 24 جون 2012ء کو انتقال ہو گیا، یہ اِس دنیا سے اُس دنیا چلے گئے جہاں یہ کھلی آنکھوں سے نبی کریمؐ کا دیدار کر سکتے ہیں، جہاں سے اپنی بچھڑی ہوئی اہلیہ آنٹی اختر سے مل سکتے ہیں اور جہاں یہ اپنے دوست اور پیرو مرشد قدرت اللہ شہاب سے گلے شکوے کر سکتے ہیں، انکل جی چلے گئے لیکن ان کے چاہنے والے، ان سے محبت کرنے والے ابھی دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں جب تک چاہنے والے موجود رہتے ہیں اس وقت تک کوئی شخص مرتا نہیں، وہ جانے کے باوجود دنیا میں رہتا ہے اور انکل جی بھی ہمارے ساتھ، ہمارے پاس موجود ہیں، اپنی مہکتی یادوں، ٹھنڈی مہربان مسکراہٹوں اور عاجزی کی شہد میں لپٹی باتوں کے ساتھ اور ہم ان باتوں، ان مسکراہٹوں اور ان مہکتی یادوں کو کبھی مرنے نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری زندگی کا زاد راہ ہے اور زاد راہ کے بغیر دھوپ سے بنی اس دنیا میں زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا اور رہ گئی میری بہن فوزیہ وہاب تو ہم ان کی یادیں کل تازہ کریں گے۔