ہفتہ رفتہ میں دل خراش واقعات نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا، پولیس ملازمین کی کچے کے علاقہ میں ڈاکووں کے ہاتھوں ہلاکت اور موسیٰ خیل، لسبیلہ، قلات، مستونگ میں دودرجن سے زائد افراد کو انکی شناخت کے بعد قتل کیا جانا، واضع پیغام ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کا نیٹ ورک یہاں متحرک ہے۔ ایسا سانحہ پہلی دفعہ نہیں ہوا، بلکہ ہر بار صوبہ پنجاب کے باسی اور بے ضرر مزدور پیشہ لوگ ہی اندھی گولی کا شکار ہوئے۔
روزی کی غرض سے بلوچستان آنے والے تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح پنجاب میں ہر قبیلہ، رنگ، نسل کا فرد پر امن ماحول میں روزی کما رہا ہے، کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، سب اپنے کاروبار میں مگن ہیں، وہاں کوئی شناخت طلب کرتا ہے نہ ہی کسی شاہراہ پر گاڑی سے نیچے اتار کر بے دردی سے قتل کرتا ہے، اس صوبہ میں بھی ایسا ہوگا، سادہ لوح مزدور اس غلط فہمی میں کام کرنے آتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد جنوبی پنجاب کے افراد کی ہے، کیونکہ ان کے کلچر، زبان، روایات، رہن سہن میں بڑی مطابقت پائی جاتی ہے۔
نہیں معلوم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی راہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ خاتون تک ان ہلاکتوں کی خبر پہنچی بھی ہے یا نہیں، کیونکہ اب تلک اس کمیٹی کی طرف سے کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا، ہمارا گمان تھا کہ وہ المناک خبر سنتے ہی جنوبی پنجاب کے دورہ پر روانہ ہوچکی ہوں گی، تاکہ سوگواران سے اظہار ہمدردی کیا جائے، ان کے دکھ میں شریک ہوا جائے۔ انھیں اس بیوہ کو تو ضرور ملنا چایئے جس نے عہد شباب میں اِس اُمید پر بیوگی کا دکھ اور بوجھ اٹھایا کہ اسکی کوکھ میں پلنے والا بچہ بڑا ہو کر اس کا سہارا بنے گا، جب اس قابل ہو، اور روزی کی تلاش میں نکلا تو وہ اپنی ہی سرزمین پرانجانی گولی کا نشانہ جوانی میں بن گیا، زندگی بھر کے لئے اپنی ماں کو روتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سویا۔
اس سانحہ سے نجانے کتنی خواتین کے سہاگ اجڑے، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی ماؤں کے لاڈلے مارے گئے۔
ہلاک ہونے والوں سے تعزیت کرنا ماہ رنگ کا اخلاقی فرض اس لئے بھی ہے کہ جب وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کی غرض سے جنوبی پنجاب کی سرزمین سے گزر رہی تھیں تو لوگوں نے ان کا بھر پور استقبال کیا تھا، انکے گلے میں ہار ڈالے تھے، ان پر پھول کی پتیاں نچھاور کی تھیں۔ ایک عورت ہونے کے ناطے وہ ان تمام مظلوم خواتین کا دکھ تو سمجھتیں ہوں گی، کہ اگر کوئی بے گناہ مار دیا جائے، یا غائب کر دیا جائے تو زندگی کانٹوں کا بستر بن جاتی ہے، جس طرح انھوں نے اپنے بھائی کی گمشدگی پر نقاب اتار کر احتجاج کیا تھا۔
ہماری بھی خواہش ہے کہ پنجاب کے ان مظلومین کے حق میں آپ صدائے احتجاج بلند کریں، ان کا قصاص لے کر دیں، انسانی حقوق کے پلیٹ فارم سے اس ظلم، ناانصافی اور جبر کی بھر پور مذمت کریں، کیوں کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کوئی مرد، عورت ایسا نہیں جس نے آپ کے خاندان کو کوئی زک پہنچائی ہوان کی مخبری ہو، کسی سازش میں شریک ہوے ہوں۔ مرنے والوں کا تعلق تو آپ کے صوبہ اور قبیلہ سے بھی نہیں، پھر بھی ان کے لواحقین نے آپ کو گلے لگایا تھا آپ کی بات کو سنا، آپ کا فرض نہیں کہ آپ بھی ایسے مظلومین کو گلے لگا کر دلاسہ دیں، انکی آواز بن جائیں داد رسی کریں، انصاف دلائیں، ان تمام شر پسندوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں۔
اسلام آباد اور گوادرکی طرح دھرنا پلان کریں، تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ بااثر افراد سے روابطہ قائم کریں، انھیں بتائیں کہ مرنے والے معصوم تھے، ان کا کوئی جرم نہیں، جس طرح آپ کا دعوی ہے کہ آپ کے بھائی کا کوئی جرم نہیں تھا، آپ تو خوش قسمت ہیں، جنہیں بھائی مل گیا لیکن جن بہنوں کے یہ بھائی مارے گئے ہیں، وہ کس کے خلاف احتجاج کریں، کس پر الزام دھریں؟ انھیں تو اپنے بھائیوں کے وآپس آنے کی بھی امید نہیں۔
یہ سادہ تھے، لواحقین کو کسی کی سپورٹ نہیں ملے گی، ان کا تو کوئی سہولت کار نہیں ہوگا، ان کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالے گا، آپ کی طرح انھیں مذاکرات کی دعوت بھی نہیں دی جائے، میڈیا بھی تواتر سے انکی خبر نہیں چلائے گا، ہر اینکر پرسن متاثرین کا دکھڑہ نہیں سنے گا، یہ بیچارے عالمی میڈیا کی آنکھ کا تارا بھی نہیں ہوں گے، ان کی بے بسی کو اگر، مگر، لیکن کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔
آپ دنیا بھر میں جانی پہنچانی جاتی ہیں، اگر آپ ان کا مقدمہ لے کر عدلیہ کے در پر دستک دیں، تو ان غریبوں کا بھلا ہوگا، بلوچستان میں لاکھوں آپ کے مداح ہیں، ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ کے اشارہ ابرو سے انسانوں کی ناحق ا موات کے خلاف مظاہرہ لواحقین کی تقدیر بدل دے گا۔
گمان ہے کہ ریاستی ادارے انصاف دینے کے لئے بے تاب ہوں گے، آپ کے صوبہ کی انتظامیہ اس غفلت پر نہ صرف شرمندہ ہوگی بلکہ ہر نقصان کا ازالہ کرنے پر تیار ہوگی، آپ کی پکار تو عالمی ایوانوں میں بھی سنی جاتی ہے، دشمن ملک تو انتہائی دلچسپی سے آپ کی باتوں پر کان دھرتے ہیں، آپ چاہیں تو عالمی عدالت انصاف کا دورازہ بھی کھٹکھٹا سکتی ہیں، آپ کی گفتگو تو برطانیہ، امریکہ، ہندوہستان کے ایوانوں تک سنی جائے گی۔
سفارتی آداب سے آپ شناسا ہیں کیا ہی اچھا ہو اگر آپ سلامتی کونسل سے حملہ آوروں کو دہشت گرد قرار دلوانے کی قرار داد منظور کروالیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو طالبان کے ساتھ گوانتا ناموبے میں ہوا تھا تاکہ آئندہ اس طرح کی تخریبی کاروائیوں کا وجود ہی ختم ہو جائے، بلوچ عوام کو امن میسر آجائے اور وہ سی پیک کے عالمی معاشی منصوبہ کی فیوض برکات سے فائدہ اٹھا سکیں، آپ بھی بلوچستان میں امن اور خوشحالی کی بات کرتی ہیں۔
مرنے والوں کو آپ کے والد کی طرح اگر یہ سہولت ملتی کہ وہ ریاستی ادارے کے سرکاری ملازم ہونے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند تنظیم کے ممبر ہوتے، اسلحہ اٹھانے کی انھیں بھی آزادی ہوتی تو وہ اس طرح بے بسی کی موت نہ مرتے۔
جنوبی پنجاب کے عوام نے دکھ میں آپ کا ساتھ دیا، آپ کے ساتھ چل کر دھرنے میں شریک ہوئے آپ بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ہر فورم پر شہدا کے لواحقین کا ساتھ دیں، ان کے خون کا رنگ بلوچوں سے مختلف تو نہیں ہے، یہ آپ کا فرض بھی ہے اور قرض بھی، اگر آپ ہماری توقعات پر پورا نہ اتریں، تو پھر آئندہ آپ کو اپنی مظلومیت کا ڈھونگ رچانے کا کوئی حق نہ ہوگا۔