کہا جاتا ہے قصے، کہانیاں، حکایتیں، نصیحتیں اپنے اندر راہنمائی، دانائی، حکمت کابہت سا ساماں رکھتی ہیں، غیر روایتی اہل دانش کا یہ لٹریچران کی زندگیوں کا نچوڑ ہے ہر دور میں اسکی اہمیت دو چند رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتو ں میں پندو نصائح حتی ٰ کہ تبلیغ کے لئے ایسے غیر معروف طریقہ کار اپنا ئے جاتے، جس میں عام فہم زبان کا استعمال کیا جاتا، تعلیم اور تربیت کے لئے کسی دیوی، جن یا بادشاہ کی کہانیاں بھی سنائی جاتی تھیں۔
یہ بھی کہا اور سنا جاتا ہے کہ سمجھ دار وہ نہیں جو ازخود تجربہ کے بعد کسی نقصان سے دوچار ہو بلکہ عقل مند وہ ہے جو کسی کے تجربہ سے مستفید ہو کر گھاٹے کے سودے سے محفوظ رہے، عمومی رائے یہ بھی ہے کہ بنئے کا بیٹا کبھی بھی گھاٹے کی تجارت نہیں کرتا، تجارتی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہندووں کی خواہش کے بارے میں رائے ہے کہ" چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے" جان جائے مگر پیسہ بچ جائے۔
روایت کہ مال دار ہندو کا جب آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو پاس بلایا، اس کو چار نصیحتیں کیں، اس نے تجوری کھول کر بیٹے کو مال وزر دکھاتے ہوئے پہلی نصیحت کی کہ اس تجوری سے پیسے اس وقت تک نہ نکالا جائے، جب تک اس میں کچھ کما کر نہ ڈال دو، دوسری یہ کہ جب بھی مال کی خریدوفروخت کے لئے منڈی جائو تو صبح سویرے جانا، مال خریدنے میں دوپہر ہو جائے تو پھر وہاں ہی میں قیام کرنا جب شام ڈھلنے لگے تو واپس آنا، تیسری نصیحت یہ تھی جب کبھی گانا بجانے والے بازار کا رخ کرنے کا دل چاہے تو کبھی بھی رات کی تاریکی میں مت جانا ہمیشہ سورج طلوع ہونے کے بعد ہی جانا، چوتھی اور آخری نصیحت یہ تھی کہ شہر کے سب سے بڑے جواریوں کو تلاش کرنا ان سے ملاقات کرنا مگر کبھی بھی شام کے وقت ان سے نہ ملنے جانا بلکہ صبح کے وقت مل کر ان کا روپ دیکھنا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا، اس وصیت کے چند روز بعد ہندو اگلے جہاں سدھار گیا، اس کا بیٹا باپ کی نصیحت پر سوچ بچار کرنے لگا۔ ایک دن اسکی بیوی نے کہا کہ آج ابا کی تجوری کھول کر رقم نکال لیتے ہیں، جونہی بیٹا چابی لگانے لگا اس کو اپنے مرحوم باپ کی بات یاد آگئی، جب تک اس میں کما کر کچھ پیسہ نہ ڈالا جائے اس سے رقم نہیں نکالی جاسکتی، اس نے روزگار ڈھونڈا جب کچھ پیسے تجوری میں ڈال دیئے تو اسکی بیگم نے پھر رقم نکالنے کی ضد کی، اب بنئے کے بیٹے نے بیوی کو کورا جواب دیا کہ میں نے اتنی محنت سے پیسے کمائے ہیں نجانے ابا نے کتنی مدت اس رقم کو جمع کرنے میں صرف کی ہے لہذا جب کوئی اشد ضرورت ہوگی، تجوری کھولیں گے ورنہ اپنی کمائی ہی میں گذارہ کریں گے اس رقم کو مشکل وقت کے لئے رکھ لیتے ہیں، بات اسکی بیوی کی سمجھ میں آگئی۔
ایک روز وہ منڈی میں مال خریدنے گیا، جب کافی مال خرید چکا تو دوپہر کا وقت ہوگیا، گھر واپسی کی راہ لینے لگا تو اسے باپ کی کہی بات یاد آگئی، کہ دوپہر کو گھر نہیں لوٹنا، اس نے شام تک وہاں قیام کیا، اس دوران اس کا خرید ا ہوا سارا مال فروخت ہوگیا، اس سے منافع بھی کمایا اور واپسی پر وہ نیا مال لے کر آیا۔
ایک روز اس کا دل چاہا کہ دوستوں کے ساتھ گانے بجانے والے بازار میں جائے، وہ رات کے وقت وہاں چلا گیا دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں اپنے باپ کی نصیحت بھول گئی، اسے یاد آیاکہ ابا نے اس بازار میں صبح کے وقت جانے کا بطور خاص کہا تھا اس کے پیچھے کیا حکمت ہو سکتی ہے، اگلی صبح اس نے مذکورہ بازار کا رخ کیا تو اسے یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی جو چکا چوند روشنی اور حسن رات میں دکھائی دیا تھا وہ سب دھوکہ اور سراب تھا۔
کافی ایام گزرنے کے بعد اسے خیال آیا کہ ابا کی چوتھی نصیحت کا بھی جائزہ لینا چاہئے اس کے پیچھے کیا راز چھپا ہے، ایک دن وہ اپنے دوست کے ساتھ بڑے بازار میں نکل گیا، اس نے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ شہر کے سب سے بڑے جواری کہاں پائے جاتے ہیں، وہ ان سے باپ کی ہدایت کے مطابق دن کی روشنی میں ملنا چاہتا تھا، سب نے انکی راہنمائی کی کہ بڑے جواری شہر کے باہر بوہڑ کے نیچے آپ کو ملیں گے، انھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ متعلقہ مقام تک پہنچ گئے، انھوں نے منظر یہ دیکھا کہ بوہڑ کے درخت کے ایک کونے کے نیچے دو تین افراد موجود ہیں اور وہ وہاں پڑی بجری کی کنکریوں کو ترتیب دے کر اپنی "علت" پوری کر رہے ہیں، بنئے کے بیٹے نے پوچھا کہ آ ٓپ یہ کیا کررہے ہیں، انھوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ہم شہرکے بڑے جواری تھے، اپنی تمام تر دولت اس قبیح کھیل میں گنوا چکے ہیں، اب ہمارے پاس کچھ نہیں بچا پہلے ہم رات کو جواکھیلتے تھے، اب یہاں آکر "چسکے" کے لئے یونہی کھیلتے رہتے ہیں۔
اس نے باپ کی چار نصیحتوں کا تجزیہ یوں کیا کہ قدر صرف اپنی کمائی ہوئی دولت کی ہوتی ہے، مال مفت میں دل بے رحم ہو جاتا ہے، کمائی کے لئے سب سے بہترین وقت صبح صادق، اس میں برکت ہوتی ہے، روشینیوں کے بازار میں دولت لٹانے کے بے شمار مواقع ہیں لیکن یہ سب سراب ثابت ہوتے ہیں، سماج میں بہت سے کردار آپ کو ملیں جو گناہ کی اس راہ پر چل کر کنگال ہوئے، جوا ایسا نامراد کھیل ہے جو بڑی بڑی تجوریوں کو بھی خالی کر دیتا ہے۔
جوا کی بیماری میں مبتلاسیٹھ لوگوں کی بہت سی داستانیں باعث عبرت اورزد عام ہیں، آج کے ڈیجیٹل دور میں جوئے کے انداز اور اطوار بدل چکے ہیں، بابوں کے مخصوص نمبر سے لے کر وڈیوزگیم تک عام گھرانوں کے فرد، بچے بھی اس لت میں پڑے ہوئے ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی اور والدین دولت سے محروم ہوتے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز زیر گردش ہیں، کہ بچے والدین کے نام پر ان کے دوستوں سے ادھار رقم مانگ کر اس کو جوئے کی نذر کرہے ہیں، بعض اس وساطت سے راتوں رات امیر ہونے کے خبط میں ذہنی مریض بن گئے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے بنئے کی سبق آموز نصیحتوں میں بڑی حکمت ہے، محنت، حلال کمائی، قناعت میں ہی قلب اطمینان ہے، معاشرتی، اخلاقی برائیوں کی ممانعت صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ ہر الہامی غیر الہامی مذاہب کا بھی خاصہ ہے۔