Wednesday, 04 December 2024
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Islami Tehzeeb Ka Ahya

Islami Tehzeeb Ka Ahya

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور انبیاء کرام کے ساتھ ناروا سلوک کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کو معزول کرکے رب کریم نے امت وسط کو دنیا کی امامت کامنصب عطا کیا، تب سے یہ بنی اسرائیل جنہیں اہل یہود بھی کہا جاتا ہے امت مسلمہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، نبی مہربانﷺ کے عہد میں بھی انکی شرارتیں جاری رہیں، مدینے کے یہود نے آپ ﷺ کے ساتھ معاہدوں خلاف ورزیاں کیں، روایت ہے کہ ایک برقع پوش عرب عورت مدینہ میں یہودیوں کے بازار سے گزر رہی تھی، دکان دار نے اسے بے پردہ کیا، بازار کے یہودی ہنسنے لگے، عورت چلائی، ایک عربی نوجوان آیا اس نے یہودی دکان دار کو قتل کر دیا، اس پر یہودیوں اور عربوں میں جنگ چھڑ گئی۔

دنیا بھر میں بے حیائی پھیلانے کے جتنے بھی طریقہ کار رائج العمل ہیں ان کے پیچھے تحریک صہیونیت کار فرما ہے، کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں بالی وڈ کا آغاز بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا، روایت ہے کہ جب ہالی وڈ کی فلمیں منظر عام پر آئیں تو انتہائی اخلاق بافتہ تھیں، اس پر عیسائی بھی چلا اٹھے کہ ہماری اخلاقی قدریں زمین بوس کی جارہی ہیں، اس احتجاج پر توقف ہوا۔

رضی الدین سید کہتے ہیں کہ صہیونیت اور یہودیت ایک سکے کے دورخ ہیں، تحریک صہیونیت اشک نازی یہودیوں نے شروع کی ہے، ان کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں، اس کا بانی ہرزل تھا، اس کے انتقال کے بعد ویز مین چیئرمین بنا جو اسرائیل کا پہلا صدر تھا۔

یہ لوگ صہیون کے پہاڑ پر تخت دائود لانا چاہتے ہیں، گریٹر اسرائیل بھی ان کا نعرہ ہے، ان کے پروٹوکول میں لکھا ہے کہ ہماری حکومت قائم ہونے کے وقت دیگر مذاہب کا رہنا مناسب نہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ اعلیٰ ترین نسل اور خدا کے چنے بندے ہیں، صہیونی دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا ہمارے کنٹرول میں ہوگی میگا کمپیوٹر میں ہر شہری کا ڈیٹا ہوگا، یہاں تک کہ ہر لڑکی ہماری لڑکی ہوگی۔

اس وقت بھی بہت سی یہودی نادیدہ تنظیمیں دنیا بھر ایسی جنسیانی اور ہیجانی کیفیت پیدا کرنے میں مصروف عمل ہیں جس میں کوئی جھجک اور شرم و حیا نہ رہے۔ اسکی ایک مثال فری میسیزی یہودی تنظیم ہے۔

ارض وطن میں پہلی دفعہ ایک سیاسی جماعت نے مخلوط دھرنا کی طرح ڈال کراسلامی تہذیب کا کھلم کھلا مذاق اڑایا تھا، جس کے منفی اثرات کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ بعض ناقدین اس کو یہود کی کارستانی اور حوصلہ افزائی قرار دیتے ہیں۔

"داستان ایمان فروشوں کی" جو صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پرلکھا عنایت اللہ التمش کا تاریخی اور سحر انگیز ناول ہے، جس کا ہرورق گواہی دیتا ہے کہ مسلم فاتحین کو زیر کرنے کے لئے کس طرح شباب، شراب اور کباب کا استعمال صلیبیوں نے کیا تھا۔ اگر غزہ کی صورت حال کو عرب ممالک کے ارباب اختیار کے رویہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ماضی ہی کا منظر نامہ لگتا ہے، وہ ریاست مدینہ جس کی سرزمین سے اسلامی تہذیب کا سورج طلوع ہوا تھا، اسے پھر فسق وفجو ر کا سامنا ہے، حرمین شریفین شاد ہیں کہ سینمائوں کی کمائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

یہود و انصاریٰ اسلامی تہذیب کے فروغ کے آج بھی اسی طرح مخالف ہیں جس طرح ماضی میں تھے، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ان کے مشن کو اور آسان کردیا ہے۔ ثقافتی یلغار کے آگے زمینی سرحدیں بے معنی ہوگئی ہیں، ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی نقب زنی جاری ہے، منشیات کی فراہمی سے لے کر لسانی، گروہی، جھگڑوں کے فروغ کے پیچھے یہی قوتیں کارفرما ہیں، تعلیمی ادارے تو تربیت کے مراکز ہیں، فوک مقامی کلچر کی سرگرمیوں کے لئے تو بہترین مقام آرٹ کونسلز ہیں ناکہ تعلیمی ادارے۔ بقول شاعر۔

قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

طالبات کے لباس کو دیکھ کر ہماری جامعات کو ڈریس کو ڈ کی پابندی عائد کرنا پڑی ہے، یہ کام تو وفاقی سرکار کا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات کیلئے ایسے ڈریس کوڈ کا اجرا کرے جس میں اسلامی تہذیب کی جھلک نمایاں ہو۔

دوسال قبل قطر میں ہونے والا فٹ بال کا ورلڈ کپ اسلامی تہذیب اور کلچر کی عمدہ مثال تھا، بہت سے غیر مسلم شائقین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، انکی تعداد لاکھوں میں تھی جو پہلی دفعہ کسی اسلامی ملک میں آئے تھے، کتارا مسجد میں مبغلین دنیا بھر کے متجسس شائقین کو متعدد زبانوں میں اسلام سے متعارف کرا رہے تھے، مختلف پہچان کے حامل مسلم معاشروں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے ان میں جو قدر مشترک اور بائنڈنگ فورس ہے وہ اسلام ہی ہے، یہ بین الاقوامی سطح پر ایک قوت ہے۔ جس میں مرکزی کردار اسلامی تہذیب اور کلچر کا ہے، جسکی ابتدا ہی توحید سے ہوتی ہے دوسرا اس کا حسن ہے کہ وہ تمام انسانوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار رکھتی ہے، کشادگی اور اعلیٰ ظرفی اس کے اوصاف حمیدہ ہیں۔

ہر تہذیب کے دو عناصر ہوتے ہیں ایک مادی اور دوسرا اخلاقی، دنیا کی تہذیبوں کے مابین فرق مراتب کے لئے مادی عنصرکو کبھی بنیاد قرار نہیں دیا جاتاالبتہ اخلاقی عنصرتہذیبوں کو حیات جاوداں عطا کرتا ہے، اسلام کی تمام تر بدنی اور مالی عبادات کا عکس اسلامی تہذیب میں نمایاں ہے۔ اسلامی تہذیب ان چار عناصر پر پورا اترتی ہے جو کسی بھی تہذیب کے لئے لازم ہیں، جس میں اقتصادی اور سیاسی نظام، اخلاقی اقدار اور روایات، علوم و فنون قابل ذکر ہیں۔

اسلامی معاشرو ں میں جو بد حالی، بد نظمی، ظلم و جور، فکروتنگدستی ہے اسکی وجہ باصلاحیت قیادت کی نایابی ہے، جس کا فائدہ یہودی طبقہ اٹھا رہے ہیں جو اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر بڑے عہدے پر موجود ہے، وہی مسلم ممالک کی معاشی، سیاسی منصوبہ بندی کرتے ہیں، نسل نو کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر صہیونی تحریک بے راہ روی کا کلچر مسلط کر رہی ہے، جو ذہنوں کو پراگندہ کر رہا ہے، یہودو نصاری کا آسان شکار صنف نازک ہے، اسکا یہ مائنڈ سیٹ ازل سے ہے، اسلامی تہذیب کا احیا ہی اس کے آگے بند باندھ سکتا ہے، جس کے لئے سماج کے ہر طبقہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran